سیّد محمد ناصرعلی -----اردو خاکہ نگاری اور کہانی نویسی کا ایک منفرد نام

"تقریب اجرا "خاکے کہانیاں

"دوسری قسط "خاکے کہانیاں
۔
سیّد صاحب کی کہانیوں کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔اگرچہ اس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے لیکن جس طرح انہوں نے ”یہی مختصر سا قصہ ہے__میری زندگی کا حصّہ ہے“میں ڈاکٹر فرید الدین بقائی مرحوم کا کیا ہے، کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ کسی کی زندگی میں کسی کی اچھائی بیان کرنا کبھی کبھار خوشامد کے زمرے میں آجاتا ہے؛ لیکن جب کوئی کسی ایسے شخص کی بابت مثبت رائے کا اظہار کرے جو اس دارِ فانی سے کوچ کر چکا ہو تو تحسین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور سیّد ناصر نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی ہے۔
پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو اپنی محنت کی کمائی فروغِ تعلیم‘بحالیئ صحت کے لئے اپنے وسائل استعمال
کررہے ہیں۔ ان کی دولت نہ ان کے صحیح کام آرہی ہے نہ ہی قوم کے مسائل کے حل کرنے میں استعمال
ہورہی ہے۔ ڈاکٹر بقائی اور ان کی بیگم کار خیرمیں دولت جس جذبہ سے صرف کررہے ہیں وہ مثال ہے۔
ان کی زندگی بہت سادہ ہے جبکہ وہ بہت پر تعیش زندگی گزارسکتے ہیں۔
جو لوگ سیّد ناصر علی کو جانتے ہیں وہ اس بات سے یقینا آگاہ ہیں ان کا تعلق صحافت کے شعبہ سے بھی بہت گہرا رہا ہے؛چنانچہ اپنے مرقعاتی مضمون ”چند دن خالد علیگ کے ساتھ“ میں انہوں نے اپنی پہلی ملاقات اور پھر ان کے ساتھ گزارے اپنے ایّام کا ذکر جس کمال خوبی سے کیا ہے وہ ایک باکمال ادیب ہی کر سکتا ہے۔
”عزیز دوست کا زندگی نامہ“ میں مصنف نے شرق الاوسط میں ملازمت کے لیے آنے والے دو احباب”معروف“ اور ”معین“ کا تذکرہ جس ایمانداری اور خوب صورتی سے کیا ہے وہ واقعی قابلِ داد ہے۔ انہوں نے معین کے کردار کو تو بطور مہمان خاکے کا حصہ بنایا؛ لیکن معروف کی زندگی اور شخصیت کا جس طرح خاکہ بیان کیا ہے، وہ خاکہ نگاری کی چند اعلیٰ مثالوں میں سے ایک ہے۔اسی طرح انہوں نے ”کھو کھر سا ہم کو یار ملا“ میں اپنے دوست اشرف کھوکھرکا خاکہ بھی نہایت مہارت سے کھینچا ہے۔
سیّد محمدناصر علی کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ ان کا دل پاکستان کے ۰۷فی صد اس طبقے کے لیے بے چین رہتا ہے جنہیں زندگی کی بنیادیں ضرورتیں تو دور کی بات دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے رہتے ہیں۔ ان کا قلم ان کمزور اور معاشرے کے ستائے ہوئے لوگوں کی جیسے آواز بن کر مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑنا چاہتا ہو اور انہیں اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ابدی زندگی کی ایک ہلکی سی جھلک دکھا نا چاہتا ہو۔ سیّد ناصر کا دل بھی شاید ناصر کاظمی کی طر ح کسی اداس دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔لیکن سیّد ناصر کا قلم اسی احساس اور جذبے کو ”تضاد۔۔۔شاد باد“ میں اس طرح قرطاسِ ابیض پر بکھیرتا ہے کہ دل بھی اداس ہو تا ہے اور آنکھیں بھی پر نم ہوجاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
دیہی علاقوں میں زمینداروجاگیردار کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ غلہ ہے۔ پڑے پڑے کیٹروں
کی غذابن کر خراب ہوجاتا ہے۔۔۔ زیادہ دور کیوں جائیں۔تھر میں رہنے والے غذا،دوا تو چھوڑئیے۔
زندگی کی بنیادپانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ان کے لئے امدادی سامان صاحب کی اجازت کے بغیر تقسیم نہیں ہوسکتا۔ صاحب اختیار کے نشے میں مست محفل رنداں میں غم غلط کرنے میں مشغول ہیں۔
نہ چھیڑاے نکہت باد بہاری ہم مشغول ہیں۔
اور پھر جب ان کا دل دردوغم کے سمندر سے باہر نکلتا ہے تو ان کا قلم سیاست دانوں کی ناانصافیوں کو باور کرانے کے لیے کہیں کہیں طنز کے نشتربھی چبوتا ہے۔ اسی خاکے میں جس کا ذکر سطورِ بالا میں ہو ا ہے،لکھتے ہیں:
قوم کی خدمت کرتا ہوں۔ میری صحت بھی تو رات دن قومی کام بھگتاتے ہوئے خراب ہوئی۔ قوم کو میری
صحت کا خیال کرنا چاہئے۔ علاج کا خرچ قومی خزانہ سے ادا ہونا ہے کسی غریب کی جیب سے نہیں!غریب
کا خزانے سے کیا مطلب۔ اس نے کون سا ٹیکس ادا کیا ہے؟ اس کا حق بنتا ہی نہیں ہے۔ اس کو سوچنا چاہئے
وہ غریب کیوں پیدا ہوا؟ اگر علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں تو بیمار کیوں پڑتا ہے؟ روٹی
نہیں ملتی تو ہمارا قومی لیڈر بولتا ہے کہ ”کیک کھائے“ ہمارے آرام وآسائش کو نظر نہ لگائے۔ منہ میں سونے
کا چمچہ لے کر پیدا ہونا میرا مقدر تھا۔
”نقش اس کا میرے آئینہ ئادراک میں ہے“ کہنے کو ایک عام سی کہانی ہے لیکن اس میں بھی سیّد محمد ناصر علی نے جس طرح اپنے دوست کا ذکر کیا ہے وہ قابل دید ہی نہیں قابلِ ستائش بھی ہے:
عمران میر کے ساتھ زندگی کے پچاس سے زیادہ سال گزرے۔ ان بیتے برسوں میں زندگی کے سب ہی
رنگ ہونے کے باوجود ہر رنگ اچھوتا ہے۔ساتھ گزاراوقت تو بیت گیا۔ یادوں کا ہجوم ذہن کے پردہ پر
تیزی سے ابھرتا اور ڈوبتا ہے۔ عمران میر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یادیں اور باتیں حرماں نصیبوں کے
لئے چھوڑ گئے۔
سیّدناصر کی خاکہ نگاری پر تبصرے کے دوران جس خاکے یا کہانی(کسی حد تک افسانے)نے مجھے بے حد متاثر کیا، وہ ”عشرت بھٹہ“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ناصر اپنے فن کے عروج پر نظر آتے ہیں اور مجھے یقینِ واثق ہے کہ آنے والے زمانوں میں جب نقاد اس پر تنقید لکھے گا تو میرے ان الفاظ سے ضرور اتفاق کرے گا کیونکہ اس کہانی کا رومانوی پہلو بھی اہم ہے اور ہمارے معاشرے کی ناہمواری بھی عیاں ہے، گویا ناصر نے اس کہانی کے ذریعے سے عوام الناس کو ایک پیغام دینے کی اپنی سی سعی کی ہے کہ انا اور ضد صرف اور صرف بربادی کا سبب بنتی ہے،اس لیے اس سے جہاں تک اجتناب کیا جاسکے، کرنا چاہیے۔اپنے اس بیان کی دلیل ناصر کی اسی کہانی سے ذیل میں پیش کر رہا ہوں:
اس شام میرے والدین بڑے بھائی اور بھابی میرے بھائی اور عشرت کی نسبت کو رشتہ میں باندھنے
ان کے گھر پہنچے۔معاملات خوبصورتی سے طے پارہے تھے کہ اچانک ممانی بول پڑیں کہ شادی ہو گی تو
آنے والے تین ماہ میں ہوگی ورنہ۔۔۔بھابی نے بہت سمجھایا کہ شادی کی تیاری میں وقت اور پیسہ درکار
ہے، کم از کم ایک سال کا وقت چاہیے؛ مگر ممانی اپنی بات پر اڑی رہیں۔ اور یوں یہ انمول رشتہ ضد کی بھینٹ چڑھ گیا جس نے بلآخر عشرت کی جان لے لی۔ناصر نے اس خاکے میں اپنے زورِقلم سے کچھ ایسا تاثر پیدا کر دیا ہے کہ بلا شبہ اس خاکے کو ایک افسانے کے طور پر منٹو اور غلام عباس کے افسانوں کا ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ناصرصاحب کا ایک اور خاکہ جو معاشرتی ناہمواریوں بلکہ بیماریوں کا ترجمان کہا جا سکتا ہے وہ”اک عجیب سی لڑکی“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں انہوں نے دولت کو معیار بنانے والے طبقے پر گہری طنز کی ہے اور بتایا ہے کہ رشتوں کے بندھن میں انسان کے کردار کو اولیت دی جانی چاہیے۔
سیّد محمد ناصر علی کی کہانیاں جہاں سلیس اردو کی ترجمان ہیں وہاں نئے دور کے نئے تقاضوں کی بھی عمدہ مثال ہیں۔ سیّدناصر نے صرف خاکے لکھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے زمانہ طالبعلمی کی یاداشتوں کو بھی قارئین کے لیے رقم کر دیا ہے۔یوں ان کی کہانیاں کہیں خاکے کی شکل میں ابھرتی ہیں تو کہیں افسانوی روپ دھار لیتی ہیں۔صرف یہی نہیں ان کے یہاں بہ یک وقت ایک اچھے مضمون نویس، کہانی نویس، افسانہ نگار اور مکتوب نگار کی خوبیاں نظر آتی ہیں۔سیّد محمد ناصر علی کے خاکے/ کہانیوں کو افسانے کے پیرا میٹرز پر پرکھیے تو وہ اچھے افسانے کی مثال بن جائیں اور کہانی کہیے تو قاری اس کے سحر میں گم ہو جائے، مضمون کہیے تو اوّل تا آخر پڑھنے کو جی چاہے۔سیّدناصر کی اس تصنیف میں خاکے، کہانیوں کے علاوہ ایک اور صنفِ ادب ”مکتوب نگاری“کابھی ایک نمونہ موجود ہے۔
سطورِ ذیل میں دیکھیے کس خوب صورتی سے اپنے زمانہ طالب علمی کی یاداشت کو ”گھامڑ“ میں بیان کرتے ہیں:
فہمیدہ چھوٹے قد کی قبول صورت انتہائی ملنسار اور پڑھنے میں کم کم ہی دلچسپی لینے والی لڑکی تھی؛ پھر بھی ہر سال
پاس ہوجاتی۔ اسے اپنے چھوٹے قد کا احساس تھا۔ اپنی اس کمی اور احساسِ کمتری کو اونچی ایڑی کے سینڈل پہن
کر پورا کرتی۔ چلتے ہوئے سینڈل سے کھٹ کھٹ کی آواز پیدا ہوتی۔ خاص طورسے سُن سان کو ریڈورمیں کھٹ
کھٹ کی گونجتی آواز۔ یہ آواز کلاس میں سب ہی طلبہ کو ناگوار گزرتی تھی خاص طور سے جب کلاس میں خاموشی
طاری ہو اور صرف پروفیسر کی آواز گونج رہی ہو۔ فہمیدہ عادتاً تاخیر سے کلاس میں کھٹ کھٹ کرتی پہنچتی۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سیّد ناصر علی نے نہ صرف اس کہانی کے اہم کردار کا حلیہ اپنے قاری کے سامنے کامیابی سے رکھ دیا ہے بلکہ کہانی کے صوتی اثرات سے بھی متعارف کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔
اسی طرح ”پہلی ملاقات“ جس میں انہوں نے اپنے ایک دوست سے متعارف کرایا ہے، اسے ان کے شاہکار فن پاروں میں سے ایک شمار کیا جاسکتا ہے۔دوست کا یہ تعارف ایک بہترین خاکہ بھی ہے اور ایک جیتی جاگتی اور سچی کہانی بھی۔دیکھیے کس خوبصورتی سے ذہین عالم خاں سروہا کا حلیہ بیان کرتے ہیں۔
فرحان حسن نے ایک چھ فٹ اور دوانچ لمبے تڑنگے، کندھے جھکائے راہداری سے گزرتے ہوئے شخص کو اپنے
کمرے سے- سیٹ پر بیٹھے بیٹھے -آواز دی۔۔۔ ان سے ملیے! یہ آپ کے نئے ڈائریکٹر ہیں۔ آواز سن کر وہ
کمرے میں آئے مختصر تعارف کے بعد وہ مجھے یونیورسٹی کیمپس میں واقع فاطمہ ہسپتال کے ایک کونے میں واقع شعبہ تعلقات عامہ میں موجود دوساتھیوں سے ملوانے لے چلے۔ چلتے چلتے میں نے انہیں ان کے نام کی عجبیت
کے بارے میں چھیڑ دیا پھر کیا تھا راستہ بھر اس بات پر زور رہا کہ میرے ماں باپ نے میرانام بہت سوچ سمجھ کر
رکھا۔ یہ صرف نام نہیں ان کا دیاہواگل دستہ ہے جو میرے ذہن کو تازہ رکھتا ہے۔ یہی میری پہچان ہے۔ اس کا اثر
دیکھ لیجئے کہ میرے دشمن بھی مجھے ذہین کہتے ہیں۔
دل تو چاہتا ہے کہ ان کی اس کہانی کے ایک ایک بانکپن کو فن کی کسوٹی پرپر کھوں لیکن بخوفِ طوالت اختصارپسندی سے ہی کام لینا پڑے گا۔ ناصر علی نے اس کہانی میں جا بجا چٹکلوں سے اپنی تحریر کو شگفتہ بنایا ہے۔ذیل کے اقتباس سے میری اس رائے کی قطعی تصدیق ہو جائے گی۔
لڑکپن کے دن تھے۔ گوشت والے کی دکان پرگئے اور تین پاؤ قیمہ مانگا۔ قصائی نے آواز لگائی ”لڑکے صاحب
کا قیمہ بنا دے“۔ بڑی سادگی اور معصومیت سے فرمایا،”کلو بھائی اپنے ہاتھ کا قیمہ دینا“۔ دوسرے گوشت والوں
نے کلو کا ریکارڈ لگا دیا کہ لڑکے کی بات بھاری پڑ گئی۔
مکتوب نگاری بھی ایک فن ہے۔ اسداللہ غالب،مولوی نذیر احمد، ابوالکلام آزاد اور میرزا ادیب کے مکاتیب فن کی بلندیوں پرنظر آتے ہیں۔غالبؔ نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔ مولوی نذیر احمد نے اپنے خطوط کے ذریعے معاشرتی اقدار کو متعارف کرایا۔ آزاد نے اپنے مکاتیب میں انتہائی مشکل زبان استعمال کی جب کہ میرزا ادیب نے اپنے مکاتیب سے قاری کو سحر زدہ کردیا۔سیّد ناصر علی نے اس میدان میں بھی قدم رکھا اور مولوی نذیر احمد کے تتبع میں اپنی بیٹی کے نام ایک مکتوب لکھا؛جسے انہوں نے اپنی اس تصنیف میں بھی شامل کر لیا ہے۔یہ مراسلہ دراصل پند ونصائح کا مجموعہ ہے کہ موصوف کی بیٹی ہمیشہ کے لیے دیارِ غیر بسنے جارہی تھی؛ چنانچہ بیٹی کی محبت میں انہوں نے اسے بہت سی نصیحتیں کی ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
تمہاری پرورش اور تربیت کسی خود بخود اگنے والے پودے کی طرح نہیں ہوئی ہے؛بلکہ تمہیں باغ کے
خوبصورت پودے کی طرح پروان چڑھایا گیا ہے۔ جنگل کی بے ربط جھاڑیوں اور درختوں کی مانند نہیں۔
نئے معاشرے کے اتار چڑھاؤ اور اس کی اچھائیوں برائیوں سے- اپنی دور اندیشی کے باعث -متنبہ کرتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں اور ایک ناصح کے طور پر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔لکھتے ہیں:
۔۔۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بحیثیت مسلمان حرام اور حلال کا فرق مٹا دو۔ اللہ نے جو چیز حرام قراردی ہے
ان کی سائنسی اور معاشرتی خرابیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔ حلال اعمال کے اثرات بھی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تمہیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔تمہارا اہم فریضہ حیدر علی کی تعلیم اور تربیت مثبت انداز میں کرنا ہے۔ اس کی
شخصیت کو مضبوط بنانا ہے۔ حرام، حلال، صحیح و غلط، جائز و ناجائز کی پہچان کرانے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان
اور اچھا مسلمان بنانا ہے۔ اس ملک میں اور وہاں کے ماحول میں یہ معمولی ذمہ داری نہیں ہے۔
الغرض ”خاکے کہانیاں‘جن خاکوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے، ان پر روشنی ڈالتے ہوئے خود مصنف کا کہنا ہے:
ان میں وہ کردار ہیں جنہیں میں نے دیکھا۔ ان کے ساتھ رہا۔ان سے قربت قلبی بھی رہی۔ قربت ذہنی بھی۔
بعض کردار وہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ”تومن شدی۔من تو شدی“۔ اس ربط اور تعلق نے
انکے بارے میں لکھنے پر اکسایا اور خاکہ وجود میں آگیا۔ ان خاکوں میں وہ شخصیات بھی شا مل ہیں جو میر ی
محسن ہیں۔ انہوں نے بے حساب اور بے طلب محبتیں دی ہیں۔ توجہ دی ہے کچھ ایسے اصحاب ہیں جن سے
قربتیں رہیں مگر وقت پڑنے پرہر چیز کو نظر انداز کرکے دوری اختیار کرلی۔ میں پھر بھی ان کا مقروض ہوں کہ ان
کے رویوّں نے سیکھنے کا موقع دیااور اس قرض کو اتارنے کی ایک چھو ٹی سے کوشش ہے۔کسی کے بارے میں
منفی اظہار کا مقصد دل شکنی نہیں بلکہ اس کردار کے عدم توازن کی طرف توجہ ضرور ہے۔
آخر میں مَیں جناب سیّد محمد ناصر علی صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے کہانی اور خاکہ نویسی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس میں ایک باب کا اضافہ کیا اور دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے زورِ قلم سے اردو زبان و ادب کی یونہی خدمت کرتے رہیں۔آمین

 

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 198775 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More