تاریخ بتاتی ہے

تاریخ بتاتی ہے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعدجب یورپی فوجیں شام کے تاریخی شہر دمشق میں داخل ہوئیں توجنرل ہنری گوروڈ خصوصی طورپر عظیم مسلم سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مزار پرگیا اور بڑے تکبر سے قبرکو زوردار ٹھوکر مارکر چیختے ہوئے دھاڑاWe are here again۔۔ انگریز جتنی نفرت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ اور ٹیپو سلطان سے کرتے ہیں شاید دنیا میں کسی اورسے نہیں کرتے ہوں ۔اس کااظہار اکثروبیشتر ہوتارہتاہے ان دونوں سلطانوں نے بھرپور عسکری وسائل کے باوجود انگریزوں کا سب غرور خاک میں ملا دیا تھا ۔۔۔مسلم خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہی سامراج اور مغربی استعمارنے صلیبی جنگوں کی عبرت ناک شکستوں کا بدلہ لینے کیلئے گٹھ جوڑکرلیا اور عیسائیت کے بدترین دشمن یہودیوں اپنا ابدی دوست بنا کرعالمِ اسلام کے خلاف جن سازشوں، ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا وہ تسلسل سے آج بھی جاری ہے اس کا خاص ہدف پاکستان ہے جس کی بہادر افواج سے ہندو، یہودی اور عیسائی اب بھی خوفزدہ رہتے ہیں تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجئے اسلام دشمن طاقتوں کا گٹھ جوڑ عالم اسلام کے خلاف ہمیشہ ایک سازش ثابت ہواہے مسلمان ہیں کہ سوچتے ہی نہیں۔

صدیوں پہلے جب ہلاکوخان نے بغدادپرحملہ کیاوہ بستیوں کو تاراج کرتاہزاروں انسانوں کو تہہ تیغ کرتامسلمانوں کے عظیم مذہبی،ثقافتی اورعلمی و ادبی مرکزمیں پہنچا یہاں بھی اس نے ظلم وبربریت کی نئی مثالیں قائم کرڈالیں انسانی کھوپڑیوں کے میناربناکرفتح کا جشن منانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔تاریخ بتاتی ہے جب ہلاکو خان نے بغداد کی لائبریروں کی کتابوں کو دریا میں پھینکوایا تو اتنا عظیم الشان ذخیرہ تھا کہ پانی کئی گھنٹے رک گیا اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت کا بغداد کیسا شہرِ حکمت ودانش ہوگا؟ بہرحال سقوط ِ بغدادکے بعد جب وزیروں،مشیروں،معززین اورعلماء کرام کو اس کے سامنے پیش کیا گیا تو چہار اطراف تباہی و بربادی تھی سب سہمے سہمے ڈرے ڈرے اس کے دربار میں لائے گئے سب پر اس تباہی اورقتل ِ عام کے گہرے اثرات تھے جب ہلاکو خان دربارمیں آیا تو اس کے جاہ ہ جلال سے گویا اتنا سناٹا چھا گیا جیسے حاضرین کی سانسیں رک گئی ہوں ۔ اس نے ادھر ادھر دیکھاحقارت سے قیدیوں پر نظر دوڑائی پھر وہ ہوا جس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی نہ جانے کہاں سے ایک ’’قیدی ‘‘ آگے بڑھا اس کے چہرے پر بڑی متانت تھی اس نے کمال جرأت سے ہلاکو خان کی آستین پکڑلی ہذیانی کیفیت میں چیخ کرکہا ’’تمہارا بیڑا غرق ہو تم پر ضرور اﷲ کا عذاب آئے گا ۔ہلاکو خان نے نخوت سے آستین جھٹک کر زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’ نادان تم جس عذاب کا ذکر کررہے ہو وہ میں ہی ہوں۔پھر اس کے حکم پر سب کو موت کے گھات اتاردیا گیا ؂

اسلام کے ابتدائی دور میں فارس(ایران) کی حیثیت ایک سپرپاور کی سی تھی وہاں سے ایک حکومتی وفد امیرالمومنین سے ملاقات کے لئے دارالحکومت مدینہ شریف آیا انہوں نے دریافت کیا آپ کے امیر سے کہاں ملا جا سکتاہے لوگوں نے بتایا کہ وہ مسجد نبوی ﷺ میں ہوں گے وفد وہاں چلا گیا لیکن اتفاق سے آپ وہاں موجودنہیں تھے وفدنے ایک صحابی ؓ سے پوچھا آپ کے خلیفہ کہاں ہیں؟ اس نے بتایا کہ فلاں جگہ امیرالمومنین آرام کررہے ہیں وفد مطلوبہ مقام پر پہنچاتو حیرت زدہ رہ گیا ۔ خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر ِفاروق ؓ ایک درخت کے نیچے سرکے سرہائے اینٹ رکھ کر سورہے ہیں انہوں نے آپس میں کہا ان کو اپنی جان کا کوئی خوف نہیں ہمارے حکمران تو سیکورٹی کے سخت حصار میں رہتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں ہم لڑائی میں ان لوگوں سے کبھی نہیں جیت سکتے ۔ غور کریں آج ہمارے حکمران پروٹوکول کے محتاج ہیں ان کی حفاظت پر ہزاروں اہلکار معمورہیں حکمر انوں کی آمدپر سڑکیں بازار بندکردئیے جاتے ہیں پھر بھی انہیں اپنی جان کا خوف لاحق ہے ۔ نبی ٔ اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں جن 10 افراد کو جنت کی بشارت دی ان میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ بھی شامل ہیں اس سے ان کی فضیلت و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتاہے انہی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کو دوسرے خلیفۃ المسلمین حضرت عمر ِفاروق ؓ نے اپنے دور حکومت میں دمشق(موجودہ ملک شام) کا گورنر مقرر کیا تھا ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے شام کا دورہ کیا تو گورنر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے ان کا شہرکے آخری کنارے استقبال کیا وہ ہستی جس کی ہیبت سے دنیا بھر کے کفارپر دہشت طاری تھی ان کے پروٹوکول کے لئے کوئی انتظام نہ تھا خلیفہ گھوڑے سے اترے گورنران کے منتظر تھے دونوں گرم جوشی سے بغلگیرہوئے دونوں باتیں کرتے ایک ساتھ لے کر شہر میں داخل ہوئے۔ خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر ِفاروق ؓنے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ سے کہا میں سب سے پہلے آپ کے گھر جانا چاہتاہوں انہوں نے نفی میں سرہلاکر کہا میں آپ ہمارے فوجی انتظامات کا جائزہ لے لیں اور اس کی بہتری کے لئے مشورہ دیں ۔۔ حضرت عمر ِفاروق ؓ نے کہا میں تو سب سے پہلے آپ کے گھرجانا چاہتاہوں ۔۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کا انکار اورسیدنا عمر ِفاروقؓ کا اصرار بڑھتا چلا گیا گورنرنے التجاکی آپ میرے گھر نہ جائیں وہاں حسرتوں کے سوا کچھ نہیں۔ سیدنا عمر ِفاروق ؓنے مسکراکر کہا میں تو آپ کے گھر جاکر کچھ دیر آرام کرنا چاہتاہوں۔ناچار اس نے کہنا مانتے ہوئے گھوڑوں کا رخ اپنے گھر (گورنرہاؤس)کی جانب موڑدیا وہاں جاکر خلیفہ کی حیرت سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی حضرت عمرفاروق ؓ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے انہوں نے بے ساختہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کی طرف دیکھا اور بے تابی سے انہیں گلے لگا کر رونے لگ گئے (اس وقت کے گورنرہاؤس) میں ایک بوریا۔ ایک لوٹا ایک مشکیزہ ،چند برتن اور کچھ کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔خلیفہ نے اس وقت جو الفاظ بولے وہ تاریخ بن گئے انہوں نے کہا تھا وقت نے ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کے سوا سب کو بدل ڈالا کاش دوسرے بھی ان سے کچھ سیکھ سکیں۔ اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں کے گورنرہاؤس ایکڑوں اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں جو عام آدمی کی رسائی سے باہرہے یہ اشرافیہ کی حکمرانی کی بدترین مثال ہے۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 384264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.