کچھ عر صے پہلے ہیو من را ئٹس کا
ایک ٹی وی پروگرا م دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں عور تو ں کو قا نو نی مشورے
دیے جا رہے تھے ۔ایک عورت کا شکوہ تھا کہ میرے شو ہر نے طلاق دے کر گھر سے
نکال دیا ہے ! اس پر ماہر محتر مہ گرج کر کہہ رہی تھیں کہ یہ دیکھیں ہمارے
معا شرے میں عو رت کا استحصا ل ! بحیثیت بیوی وہ کتنی بے بس ہے! حا لانکہ
اپنی تما م توا نائیا ں ،وقت اور سر ما یہ (جہیز اور اگر جا ب کرتی ہے تو
تنخوا ہ ) گھر پر لگا تی ہے ۔ لہٰذا گھر کا جتنا بھی اثا ثہ بنتا ہے اس پر
اس کا بھی حق ہے ۔اگر مرد کما نے کا کام کر تا ہے تو تو وہ بھی اپنی توا
نائی گھر کو بنانے میں لگا تی ہے ۔
ان کے کہنے کا لب لبا ب یہ تھا کہ ایسے قوا نین ہونے چا ہئیں یا ہما ری عور
تیں اتنی مضبو ط ہو ں کہ علیحدگی کی صو رت میں وہ اپنے شو ہر کا با زو پکڑ
کر جھنجھو ڑ سکیں کہ جتنا بھی ما ل ہے اس کا ادھا آ دھا ہو ! میں نے بھی اس
گھر کو بنا نے میں کر دار ادا کیا ہے وغیرہ و غیرہ۔ انہو ں نے یہ با ت جس
تنا ظر میں کہی تھی اس سے اختلا ف را ئے ممکن ہے مگر ان کی اس با ت سے ایک
نکتہ جو کھل کر سا منے آ تا ہے وہ یہ ہے کہ گھریلو کا م بھی اسی در جہ
اہمیت کا حا مل ہے جتنا گھر سے با ہر جا کر کا م کر نا !
یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعترا ف ان جیسی خوا تین عا م حا لات میں نہ کر تی ہو
ں مگر جذ با ت کی ر وا نی میں منہ سے جھا گ اڑا تے ہو ئے یہ با ت نو ک زبا
ن پر آ ہی جا تی ہے کہ عو رت کا وہ مقام جسے کچھ عر صے سے مسلسل کم حیثیت (egrade)
کیا جاتا رہا ہے در اصل بہت زیا د ہ وقت، توا نائی اور تو جہ کا مر ہو ن
منت ہی۔ اس کو پیسو ں کے میٹر اسکیل پر نا پا نہیں جا سکتا مگر گھر جو معا
شرے کی اکا ئی ہے اس کے لیے جزو لا ینفک ہی۔
یوں تو پورا معا شرہ ہی اس وقت ایک ہیجا نی کیفیت کا شکا ر ہے مگر عو رت تو
خصو صاً نہ جا ئے رفتن نہ پا ئے ما ندن کے مصدا ق دو را ہے پر کھڑی ہی۔ اس
وقت جب مغرب کی عو رت اپنی آزا دی (حقوق ) کی بیڑیا ں اتار کر گھر کی زنجیر
یں پہننا چا ہ رہی ہے مشرقی عو رت اپنے تحفظ کی زنجیریں کا ٹنا چا ہ رہی ہی۔
ایک سطحی سی نظر اگر دو نو ں معا شرے کے تقا بل پر ڈا لی جا ئے تو اندازہ
ہو تا ہے کہ دو نو ں ہی جگہ عورت اور مرد کے در میان حقو ق و فرا ئض کی
کشمکش جاری ہے اگر چہ دو نو ں کے انداز میں فرق ہے !
ہما رے یہا ں تو ابھی یہ بحث وشکوہ چل رہا ہے کہ عورتو ں کو برا بری کی سطح
پر گھرو ں سے با ہر زندگی کے ہر شعبے میں حقو ق عطا ہو ں ( اس میں پیش رفت
سیلز گرلز ، پٹرول پمپ اور لیڈی ویٹرز وغیرہ کی شکلوں میں نظر آ تی ہی)جب
کہ مغربی معا شرے میں جا ری gender war کا رنگ کچھ یو ں ہے کہ مرد کا کہنا
ہے کہ fair sex ہونے کی وجہ سے عورت کو ملازمت کے موا قع زیا دہ ملتے ہیں
لٰہذا مرد بیچا رہ بے روزگا ر رہ جا تا ہی( یہ صورت حا ل تو اب یہا ں بھی
ہورہی ہی! )
CNN سے ایک دفعہ پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک امریکی شخص نے
اپنے ملا زمت سے فا رغ کئے جا نے کو چیلنج کیا تھا کہ اس کی جگہ جس خا تو ن
کو ملا زمت دی گئی وہ تجربے اور عمر میں اس سے کہیں کم تھی اور پھر وہ شو
قیہ ملازمت کر رہی ہے جبکہ اس کے بے روزگا ر ہو نے کی وجہ سے اس کی فیملی
مشکلا ت کا شکا ر ہے ۔ پھر مغربی مرد کو عو رت کی pregnancy leave پر بھی
اعترا ض ہے کہ اس سہو لت کی وجہ سے عورت گھر اور با ہر دو نو ں جگہ کام سے
بچ جا تی ہے جبکہ مرد پر کام کا دباؤ دونو ں جگہ بڑھ جا تا ہی۔کیو نکہ وہا
ں فیملی سسٹم یا نوکرو ں کی سہو لت موجود نہیں ہے لٰہذا بچے کی پیدا ئش پر
باپ کو بھی چھٹی ملنی چاہئیے کہ اس پر سے کام کا دبا ؤ کچھ کم ہو۔( اور مرد
کی کا میا بی دیکھیے اب تو ذمہ داری کا سا را دباؤ ماں کی طرف آ گیا ہے
!)اس قسم کے مختلف وجوہ و اسبا ب کی بنا پر مغربی اقوا م یہ نتیجہ اخذکر
رہے ہیں کہ عورتو ں کو گھرو ں میں وا پس بھیجا جا ئے ۔
یہ مطا لبہ محض مطالبہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے تجر بات اور تحقیق کی پو
ری صدی شا مل ہی۔ ایک تجر بے کے مطا بق انہو ں نے دو سال کی عمر تک کے ایسے
بچو ں کا انتخا ب کیا جنہیں اس عمر تک کھلو نو ں سے دور رکھا گیا تھا ، جب
ان تجر باتی بچو ں کو ایسی جگہ چھو ڑا گیا جہا ں مختلف النوع کھلو نے تھے
تو حیرت انگیز طور پر تمام بچیو ں نے گڑیا اور گھر اٹھا ئے جبکہ لڑ کو ں نے
گا ڑیا ں اور پستو ل وغیرہ ۔ اس دلچسپ تجربے نے ثا بت کیا کہ عورت کی فطرت
میں گھر سجا نا او ر بسا نا شا مل ہی۔کیا اس سے اس کا یہ فطری حق چھیننا اس
کے سا تھ زیا دتی نہیں؟اس کے علاوہ کچھ ایسے بچو ں پر تجربے کئے گئے جن کی
ما ئیں ملازمت کرتی ہیں اور با پ گھر سنبھالتا ہے مگر یہ بچے بھی جب آپس
میں کھیلتے ہیں تو بھا ئی باہر کام کو جا تا ہے اور بہن گھر کا کام کر تی
ہی۔با وجود اس کے کہ ان بچو ں نے اپنے سا منے بر عکس صورت حال دیکھی تھی وہ
فطرت کے مطا بق کام کر نے پر مجبور تھے ۔ ان تجربا ت سے وہ ان حقا ئق تک
پہنچے کہ عورت کا اصل مقام گھر ہے کارخانے اور دفتر نہیں ! اہل مغرب تجربا
ت کی بھٹی سے گزر کر ، اپنا گھر اور معا شرہ تباہ کر کے جس نتیجے پر پہنچے
کیا ہم اس سے فا ئدہ نہیں اٹھا سکتی؟؟
اس کے بر عکس اگر ہم اپنے معا شرے پر نظر ڈا لیں تو صورت حا ل وہی ہے جو
تقریباً صدی بھر پہلے حقو ق نسوا ں مہم کی وجہ سے مغربی معا شرے میں پیدا
ہو ئی۔یعنی کچھ عر صے پہلے تک لڑ کیا ں شوقیہ ملازمت کر تی تھیں مگر اب
مہنگائی اور معیا ر زندگی بلند کر نے کے سبب جاری رکھنے پر مجبو ر ہیں ۔گو
یا جوچیز وقت گزا رنے کے لیے شروع ہو ئی وہ با لآخر ضرو رت بن گئی۔ شعور کی
کمی کے با عث ضرورت کا حقیقی ادراک (erception) چو نکہ مو جو د نہیں ہے
لہٰذا عورتو ں کی کھیپ کی کھیپ اپنے وسا ئل بڑ ھا نے کے لیے گھرو ں سے با
ہر آ نے کو بے تا ب ہے خوا ہ تعلیم یا فتہ ہو یا نا خوا ندہ !(یہ دراصل اس
بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے جو مشرف گورنمنٹ کے ہا تھو ں ہمارے معا شرے میں نفو ذ
کر گئی)ان میںسے جو کم یا غیر تعلیم یا فتہ ہیں وہ تو ویسے ہی احسا س کمتری
کا شکا ر ہیں مگر جو تعلیم سے بہرہ ور ہیں وہ بھی کم و بیش ان ہی احسا سات
کا شکا ر ہیں !
ان میں سے کسی سے چا ہے وہ ماں ہی کیو ں نہ ہو یہ سوا ل کر کے دیکھیں کہ
’’کیا کر رہی ہو ؟‘‘ تو اگر وہ کہیں گھر سے با ہر کام کر تی ہے تو فخر سے
جوا ب دے دے گی ورنہ دوسری صورت میں گردن جھکا کر یہ ہی کہے گی ’’ کچھ نہیں
!!‘‘جب وہ یہ با ت کہہ رہی ہو تی ہے تو در اصل اپنے آپ کو ہی Degrade کر
رہی ہو تی ہے کیو نکہ انسا ن پہلے اپنی قدر کرتا ہے پھر دوسرے کرتے ہیں ۔
اﷲ کو بھی وہ بندہ پسند ہے جو اپنی قدر کرے تکبر کے ساتھ نہیں بلکہ وقار کے
سا تھ!تو پھر جب خود اپنی نظرو ں میں اپنی حیثیت نہ ہو تو دوسرو ں سے کیا
شکوہ!!
خوا تین میں یہ احسا س بیدا ر کرنے میں مغربی ذہنی مر عو ب خوا تین کا بڑا
ہا تھ ہی۔دم کٹی لومڑی کی طرح کہ جب میری دم نہیں رہی تو ............اس
حکمت عملی کے تحت پہلے تو عورت کو اس کی زبو ں حالی پر متوجہ کیا اور
بالآخر اسیartialyطور پر گھرو ں سے نکا لنے میں کا میا ب بھی ہو گئیں مگر
اس کے نتیجے میں معا شرے میں ایسا انتشار پھیلا کہ عورت کی زندگی اجیرن بن
کر رہ گئی۔اپنے پا ؤ ں پر کھڑے ہو نے کی بیما ری ایک وبا کی طرح تمام
عورتوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی گئی خوا ہ اس کا تعلق کسی طبقے اور نسل
سے ہو! اس وبائی مرض نے عورت کی حالت تو کیا بدلنی تھی اسکے لیے زندگی اور
پریشا ن حا لی کا با عث بن گئی۔ گھر کا محا ذ چھو ڑا با ہر کی دنیا فتح کر
نے کے لیے ! نتیجہ کیا نکلا ؟؟دونو ں ہی جگہ ناکام ہو گئی ۔ نہ گھر رہا نہ
با ہر ! دونو ں جگہ مسائل ہی مسا ئل گو یا دھو بی کا کتا نہ گھر کا نہ گھا
ٹ کا !
سو چنے کی بات یہ ہے کہ کسی کام کونہ کر نایا غلط کر نا دونو ں با تیں برا
بر ہیں ۔ اس مسئلے کے لحا ظ سے موجودہ صو رت حال کچھ یو ں ہے کہ عورت گھر
میں بھی ہے اور اپنے مقا م سے دور بھی ۔ یعنی ہمارے معا شرے کی جو عورت گھر
سے نکلی ہے ضرو رتا یا شو قیہ اس کو چھو ڑیں ! جو گھر میں ابھی تک موجود ہے
اس کو دیکھیں کیو نکہ وہ گھر میں ہوتے ہو ئے بھی اپنے وجود سے انکا ری ہے !
شدید ذلت اور احساس کمتری کا شکا ر ہے کہ ’’میں گھر اور معا شرے پر بو جھ
ہو ں ‘‘ اور جس کو بھی مو قع ملے وہ اس سے نکلنے کی کو شش میں سر گر دا ں
ہو! کیا یہ مفرو ضہ کہ گھرو ں میں رہنے وا لی عورت ایک معا شی بو جھ ہے
درست ہی؟جی نہیں! اولاد کی پیدا ئش،پرورش اور تر بیت جیسے عظیم معا ملات کو
اگر نہ بھی consider کریں تو یہ مفرو ضہ غلط ثابت ہو چکا ہی! کیسے ؟کیو ں ؟
اگر یہ خیال درست ہو تا تو آج ہو ٹل کا کاروبا ر نہ ہو تا ؟ فرض کریں گھر
کا تصور پو رے معا شرے سے اٹھا دیا جا ئے تو کو ئی نہ کوئی جگہ تو ہو گی
جہا ں سے انسا ن کھا ئے پئے گا۔ کہیں نہ کہیں آرا م کی غرض سے جا ئے گا
۔اور وہ جہا ں بھی جا ئے گا پیسہ خرچ کر کے یہ سہو لیا ت حا صل کرے گا !
اگر ایسا نہ ہو تا تو ہوٹلز، کیفے،کینٹن ،ریسٹو رنٹ اپنی قیمت وصو ل نہ کر
تی؟ ڈے کئیر سنٹر اور نر سر یا ں آبا د نہ ہو تیں ؟ہا ئوس کیپر منہ ما نگی
قیمت نہ ما نگتا؟ تو جب انسا ن اپنی بنیا دی ضرو ریا ت مال خرچ کئے بغیر حا
صل نہیں کر سکتا تو جو فرد بلا قیمت یہ تما م سر وسز مہیا کر رہا ہو
درحقیقت با لکل بھی کم حیثیت نہیں جیسا کہ اسے تصور کیا جا تا ہی! گھر بھی
تو ایک انڈسٹری ہے جسے عورت چلا رہی ہی!!!اگر وہ اس کی قیمت پیسو ں میں
نہیں وصول کر رہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ کا م بے حقیقت یا غیر
اہم ہے!بلکہ یہ کا م بھی اتنا money oriented ہے جتنا کوئی بھی صنعت و حر
فت!! بلکہ اس سے کہیں زیا دہ!
گھر میں رہنے وا لی عورت اپنے محا ذ پر اپنا کردار ادا کر رہی ہی۔ اور جس
طرح دورا ن جنگ کسی بھی سپا ہ کا اپنے محا ذ کو چھو ڑ دینا جنگ کا پا نسہ
پلٹ دینے کا با عث بن سکتا ہے بالکل اسی طر ح سے عورت کا اپنے محا ذ کو چھو
ڑدینا معا شرے میں جا ری انتشار کی جنگ کو مزید پھیلا نے کی راہ ہموار
کررہا ہے اور جس کی روک تھا م اسی وقت ممکن ہے جب گھر میں مو جو د عورت
وقار کے ساتھ اپنی قدر کا احسا س کر ے ۔ جب وہ غیر مطمئن ہو گی کہ اپنی صلا
حیتیں ضا ئع کر رہی ہو ں تو معا شرہ تو اسے اور ذلیل کرے گا ۔ اس کی منہ ما
نگی لیبر کو کو ڑیو ں کے مول لے گا کہ وہ باہر بھی جا ئے اور گھر بھی as
well رکھی! !۱اپنے کام کے قیمتی اور بیش بہا ہونے کا احساس سب سے پہلے
تعلیم یا فتہ عورت میں پیدا ہو نے کی ضرورت ہی۔
لیکن اگر گھر میں موجود عورت بھی اپنا حقیقی کر دار اداکرنے کے بجا ئے ٹی
وی کے سا منے بیٹھی گھروں کو ماسیو ں کے حوا لے کر کے خود بیو ٹی پا رلر یا
پھر ٹیلر کی یا ترا کو و طیرہ بنا لے تو شاید اس کے بھی وہ ہی نتا ئج ہو ں
گے جو گھر سے با ہر جاکر کا م کر نے کے ہو سکتے ہیں ۔یہ معا ملہ سخت احتیا
ط کا متقا ضی ہے ! اگر کسی ادارے کا مینیجر اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کرے
تو وہ تبا ہی کے راستے پر گا مزن ہو جا تا ہے ۔یہ ہی حال گھر کا ہو سکتا
ہی!!
المختصر با ت وہیں آ تی ہے کہ گھر عورت کی توجہ کا منتظر ہے ! یہ کہا ں کی
عقل مندی ہے کہ گھرو ں کو اندھیرا کر کے با ہر اجا لا با نٹا جا ئے اور پھر
گھر کی تا ریکی دور کرنے کے لیے روشنی مستعا ر لی جا ئی! عقلمند فرد یا قوم
وہی ہے جو دوسروں کے تجر با ت سے فا ئدہ اٹھا ئے بجا ئے اسکے کہ خود آگ میں
کود کر تجر بہ حا صل کری۔ اگر مغربی اقوا م کے تجربے سے ہم فا ئدہ اٹھا نا
چا ہتے ہیں تو ضرو ری ہے کہ وا پسی کا یہ سفر جہا ں وہ صد یو ں میں پہنچے
ہیں ابلا غ کی مہر با نی سے ہم لمحو ں میں طے کر لیں کہ پلٹنا تو بہر حال
ہے ابھی نہ سہی کچھ دیر بعد سہی!!! |