کوئی مرد یا عورت جو میلان کی
کسی گلی میں ہر مس کے سکارف اور رولیکس کی گھڑیاں سستے داموں فروخت کررہی
ہوگی خود بھی غیر قانونی تارک وطن ہوسکتی ہے جو جعلی کاغذوں یا خفیہ راستوں
سے بھاری رقم ادا کر کے اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر کئی براعظموں کو
پار کر کے روز گار کمانے کے لیے وہاں پہنچی ہو۔ نئے قسم کی غلامی، بردہ
فروشی اور سستی محنت فراہم کرنے کا یہ کاروبار منشیات فروشی اور اسلحہ کے
کاروبار اور مقبول عام ٹریڈ مارکوں کی نقلی اشیاء کی فروخت کرنے جتنی اہمیت
رکھتا ہے اور عالمی سرمایہ داری نظام کا ایک تحفہ ہے اور بقول شاعر
یہاں ہر چیز بکتی ہے خریداروں بتاؤ کیا خریدو گے
ادارہ اقوام متحدہ کے مطابق انسانی سمگلنگ کا کاروبار سالانہ سات ارب ڈالر
سے زیادہ کا ہے اور بہت تیزی سے ترقی پذیر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف
امریکہ میں سالانہ پانچ لاکھ لوگ غیر قانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں۔ یورپی
یونین کے ملکوں میں بھی اتنے ہی لوگوں کی ناجائز در آمد کا اندازہ ہے۔
تقریباً پندرہ کروڑ لوگ ہیں جو اپنے ملکوں سے باہر کے ملکوں میں روز گار
کمانے پر مجبور ہیں جن میں سے بہت سے اس مقصد کے لیے ۵۳ ہزار ڈالر تک خرچ
کرتے ہیں، سب سے زیادہ خرچہ کرنے والے چینی ہیں جو امریکہ میں بہتر روز گار
کے لیے آتے ہیں۔ بے شمار لوگ سمگل کرنے والے اداروں کے ہاتھوں فروخت بھی
کیے جاتے ہیں۔ اس نظام کی ہوس زر نے انھیں ایک جنس بنا دیا ہے۔ یو ایس کا
نگریس کی ریسرچ سروس کا اندازہ ہے کہ ہر سال دس لاکھ سے بیس لاکھ لوگ
ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے سرحدیں پار کرتے ہیں جن میں اکثریت عورتوں
اور بچوں کی ہوتی ہے۔
تیمیسورا (رومانیہ ) کی ایک عورت پچاس ڈالر میں خرید کر دو سو ڈالر میں
فروخت کی جاتی ہے اور مغربی یورپ کے بردہ فروشوں کو دس گناہ منافع ہوتا ہے،
کیسا نفع بخش کاروبار ہے؟ یونیسف نے اندازہ لگایا ہے کہ وسطی اور مغربی
افریقہ کے ملکوں سے سالانہ دو لاکھ بچے خرید کر غلام بنائے جاتے ہیں جو ان
عورتوں کو ملازمتوں کا اور بچوں کو بہتر والدین کی تحویل میں دینے کا لالچ
دیا جاتا ہے، بہتر زندگی کے خواب دکھائے جاتے ہیں اور بہتر زندگی کے خوابوں
کی کمائی میں اس نظام کی سب سے بڑی کمائی ہے جو عالمی سطح پر ڈراؤنے خوابوں
میں تبدیل ہورہی ہے اور خود اس نظام کی جڑیں کھوکھلی کررہی ہے۔
ان غلام لڑکیوں اور لڑکوں کو واپس ان کے ملکوں میں بھیج دینے یا گرفتار کرا
دینے یا جسمانی ایذا پہنچانے کے خطرات سے دوچار کرنے یا قرضوں میں جکڑ کر
ان کے پاسپورٹ چھین کر انھیں انتہائی کریہہ جرائم کا نشانہ بننے پر مجبور
کیا جاتا ہے۔ انتہا ئی سخت قوانین اور زبردست انتظامات کے باوجود اس تجارت
کا سد باب نہیں ہوسکتا، صرف برطانیہ کے گرفتار شدہ غیر قانونی تارکین وطن
کے کیمپ SANGATTECAMP میں ۲۴ ہزار سے ۰۵ ہزار بچے اور عورتیں موجود ہیں جن
کو ان کے وطن واپس بھیجنا برطانیہ کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے، انھیں واپس
بھیجنے میں برطانیہ کو کم از کم ۳۴ سال کا عرصہ درکار ہوگا، برطانیہ ایک
جزیرہ ہونے کی وجہ سے نسبتاً محفوظ سرحدیں رکھتا ہے مگر امریکہ، سپین اور
اٹلی جیسے ممالک اپنی سرحدوں کی زیادہ حفاظت نہیں کرسکتے۔
منشیات، آتشیں اسلحہ، دو نمبر کی تجارت، بردہ فروشی کے علاوہ انسانی اعضاء
رئیسہ، آنکھوں کی پتلیوں، گردوں،پھیپھڑوں کی ناجائز تجارت بھی بہت زوروں پر
ہے۔ تیزی سے معدوم ہونے والے جنگلی جانوروں، مصوری اور سنگ تراشی کے نایاب
نمونوں اور مضر صحت فضلے کی ناجائز تجارت نے بھی بہت زیادہ اہمیت حاصل کرلی
ہے۔ ان کاروباروں کی بعض تفصیلات انہی صفحات میں آئندہ بیان کی جائیں گی
مگر مختلف ملکوں سے سرمائے کی سمگلنگ اور اسے ”محفوظ جنت“ تک پہنچانے کے
کاروبار کی ایک مثال جزیرہ GAYMANپیش کرتا ہے جہاں کی کل آبادی ۶۳ ہزار
نفوس سے زیادہ نہیں مگر اس جزیرے میں دو ہزاردو سو میوچل فنڈز ہیں، ۰۰۵
انشورنس کمپنیاں ہیں، ۰۶ ہزار سے زیادہ تجارتی ادارے ہیں اور ۰۰۶ بینک ہیں
جن میں بددیانت معاشروں کی بددیانت کمائی کے ۰۰۸ ارب ڈالرز کا سرمایہ موجود
ہے اور یہ جزیرہ ”کالی دولت“ کو دھونے کی سب سے بڑی لانڈری سمجھی جاتی ہے
مگر عالمی سرمایہ داری نظام اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیوں کہ یہ ”لانڈری“
بنائی ہی اسی مقصد کے لیے گئی ہے۔ |