انسان کی کامیابی

انسان کی زندگی کتنی عارضی ہے! انسان جب دنیا سے کوچ کرکے عالم برزخ میں جائے گا تو اسے اعمال کے مطابق سزا اور جزا ملے گی۔ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن انسان اﷲ کے حضور سے ہٹ نہیں سکتا جب تک وہ پانچ سوالات کاجواب نہ دے لے (1) عمر کیسے گزاری؟ (2) جوانی کیسے گزاری؟ (3) ما ل کیسے کمایا؟ (4) جو کمایا وہ کہاں خرچ کیا؟ (5) جو علم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟ (بحوالہ: ترمذی شریف)

اگر وہ بخشش کے قابل نہیں تو حکم ہوگا جو سورۃ الحاقہ کی آیات 30-32 میں درج ہے:’’(حکم ہوگا) اسے پکڑ لو پھر اسے طوق پہنادو۔ پھر اسے دوزخ میں ڈال دو۔ پھر اسے ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر ہاتھ کی ہے جکڑ دو۔‘‘ایمان باﷲ، ایمان بالرسالتﷺ اور ایمان بالآخرت یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم گناہوں سے بچیں کیونکہ اسی میں ہماری نجات ہے۔

حضور اکرم ﷺ کی اتباع اور پیروی میں ہی مسلمان کی نجات ہے۔ اگر ہم حب رسولؐ اور اطاعتِ رسولؐ کے بغیرزندگی گزار رہے ہیں تو ہمیں قیامت کے دن کفِ افسوس ملنا ہوگا۔ سورۃ الفرقان کی آیت 27 میں ارشاد ربانی ہے ’ ’ ا و ر اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا! ہائے کاش کہ میں نے رسول ﷺ کی راہ اختیار کی ہوتی۔‘‘

قیامت کے محاسبہ سے ڈرا جائے جس دن انسان کے ہاتھ پاؤں اور جسم کے تمام اعضاء کی گواہی دیں گے۔ سورۃ الانفطار کی آیات 10 تا 12 ملاحظہ ہو ں : ’’ یقینا تم پر نگہبان عزت والے۔ لکھنے والے مقرر ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔‘‘کلمہ طیبہ کا ورد اور اس کی شہادت، نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ارکانِ اسلام ہیں۔ ایمان کی عمارت ان ستونوں پر کھڑی ہے۔ اسلام اخلاق حمیدہ کی تعلیم دیتا ہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے دن مومن کے اخلاق سے بھاری میزان میں کوئی چیز نہیں ہوگی۔‘‘ (ابوداؤد)۔

رسول اﷲ ﷺنے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں صحابہ کرام سے سوال کیا: جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہم میں سے مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال و متاع کچھ نہ ہو۔ فرمایا: ’’میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ ادا کرکے حاضر ہوگا مگر اس حال میں کہ کسی کو اس نے گالی دی تھی اور کسی پر بہتان لگایا تھا اور کسی کا مال مار رکھا تھا اور کسی کا خون بہایاتھا اور کسی کو مارا پیٹا تھا۔ پھر ان سب مظلوموں میں سے ہر ایک پر اس کی نیکیاں لے لے کر بانٹ دی گئیں اور ان میں سے ہر ایک کے کچھ کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے گئے اور وہ شخص دوزخ میں پھینک دیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم شریف)۔

حضور اکرمﷺ نے اچھی صحبت میں رہنے کا حکم دیا۔ آپؐ کا رشاد ہے: ’’اچھی صحبت کی مثال عطار کی سی ہے کہ عطر نہ ملے گا تو بھی خوشبو پائے گا۔‘‘ اسی طرح بری صحبت کو آپﷺ نے بھٹی کے دھوئیں اور کالک سے تشبیہ دی۔

اچھا مسلمان وہ ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تلقین کرے اچھا مسلمان بننے کے لیے تذکرہ موت اشد ضروری ہے مریضوں کی عیادت کی جائے تاکہ موت کی یاد تازہ رہے۔ نماز جنازہ میں شرکت کی جائے تاکہ موت یاد رہے۔ زیارت قبور کی جائے تاکہ موت یاد رہے۔ قبرستان مقامِ عبرت ہے۔ انسان ذکر الٰہی میں مصروف رہے کیونکہ اس سے دل کا زنگ اترتا ہے۔
 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 187371 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.