جہاد فی سبیل اﷲ

جہاد اسلام میں ایک مذہبی فریضہ ہے۔ بلکہ اسلام کی ساری عبادات مسلمانوں کو اس عظیم کام کے لیے تیار کرتیں ہیں جس کا نام جہاد ہے۔ صرف کلمہ پڑھ کر، نماز ادا کر کے، زکوٰۃ دے کر، رمضان کے روزے رکھ کر اور صاحب نصاب ہوتے ہوئے زندگی میں ایک بار حج کر کے بندہ مسلمانوں کی لسٹ میں توشمار ہو سکتا ہے مگر مومن تب بن سکتا ہے جب خلیفہ ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے جہاد فی سبیل اﷲ کے حکم پر عمل کرے۔ اﷲ کی زمین پر اﷲ کا کلمہ بلند کرے۔ شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبالؒ نے کیا نقشہ کھینچا:۔
ہر لحظہ ہے ،مومن کی، نئی شان، نئی آن
گفتار میں ،کردار میں، اﷲ کی برہان

مسلمان کو اﷲ نے اپنی اس زمین پر خلیفہ بنایا ہے۔خلیفہ جیسے دنیوی حکومتیں اپنے اپنے ملک کے صوبوں میں گورنر تعینات کرتیں ہیں۔ کائنات اﷲ نے بنائی ہے اور اس کو اﷲ ہی چلا رہا ہے۔ کائنات پر اﷲ کی مکمل حکومت ہے۔ زمین کو اﷲ کی کل کائنات کا اگر ایک صوبہ تصور کریں تو یہ بات صحیح سمجھ آ سکتی ہے۔ اس فلسفہ کو ذہن میں رکھیں کہ انسان اﷲ کی زمین میں اﷲ کا خلیفہ(’نمائندہ) ہے۔ اس کا کام اﷲ کے قوانین کو اﷲ کے بندوں پر نافذ کرنا ہے۔ کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہاہو تو ان کی مدد کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا ہے۔ اﷲ نے جہاد فی سبیل اﷲ کا حکم تب دیا۔ جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے گھروں سے نکال دیا۔ مسلمان مکہ سے مدینہ مسلمان ہجرت کے مدینہ چلے گئے۔ جب سے دنیا قائم ہے جہاد ہوتا رہا۔ رہتی دنیا تک جہاد ہوتا رہے گا۔ یہی کا م ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرتے رہے۔ قرآن کے مطابق پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے آخری بنی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی ؑ نے نہیں آنا۔ لہٰذایہ کام امت مسلمہ نے کرنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا کہ’’اورتم اﷲ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(البقرۃ: ۱۹۰) جہاد کے معنی کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی انتہائی کوشش کرنا ہے۔جنگ کے لیے تو قتال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔مجاہد وہ ہے جو ہر وقت اﷲ کے دین کو قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کرتا رہے۔ اس جدو جہد میں جان بھی چلی جائے تو خوشی سے برداشت کرلیتاہے۔دوسری جگہ قرآن میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:آخرکیاوجہ ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اوربچوں کی خاطر نہ لڑو، جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔(سورۃ النساء:۷۵) کیا اب کئی ملکوں ، خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں ایسی صورت حال نہیں کہ مسلمانوں کو مار پیٹا جارہا ہے۔ان کی عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں۔ ان کے نوجوانوں پر پیلٹ گنیں چلا کر اندھا کیا جارہا ہے۔ ان کے مزاروں کو بارود سے اُڑایا جارہا ہے۔ ان کی زری زمینوںِ باغات اور رہائشی مکانات کو گن پاؤڈر چھڑک کر جلایا اور بارود نصب کر کے اُڑایا جا رہا ہے۔ ہمارے پڑوس میں مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ۱۹۴۷ء سے بت پرست ہندو ظلم و ستم کے پہاڑتوڑ رہے ہیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل نہیں کرنے دیا جارہا۔ وہ کہتے ہیں آزادی کا مطلب کیا’’ لا الہ الا اﷲ‘‘ ہم پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔وہ ہر سال پاکستان کے یوم آزادی کے میں شریک ہوتے ہیں۔ بھارت کے یوم آزادی پر سیاہ جھنڈے لہر کر یوم سیاہ مناتے ہیں۔ تکمیل پاکستان کی جد وجہد میں اب تک لاکھوں شہید ہو چکے ہیں۔

فلسطین میں مسلمانوں کے گھروں پر یہودی نے ناجائز قبضہ کر لیا ہے۔ ان کو گھروں سے نکال دیا ہے۔وہ دنیا میں تتر بتر ہو گئے۔جو فلسطینی، فلسطین میں یہودی قابض فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان پر بمباری ، راکٹ اور ٹینکوں سے حملے کیے جاتے ہیں۔ان کی بستی غزہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔غزہ کو لوگ دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ مانتے ہیں۔ اس قید خانہ کے لیے باہر سے غذا، دوائیاں، پانی اور انسانی ضروریات کی اشیا کچھ بھی نہیں آنے دیا جارہاہے۔ جو کچھ اسرائیل کے یہودی غزہ کے قیدیوں کو دیتے ہیں اسی پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ ایک دفعہ ترکی سے ایک بحری جہاز غزہ کے قیدیوں کے لیے انسانی ہمدردی کے تحت سامان ِ ضروریات لے کر اسرائیل پہنچا۔اس جہاز میں دنیا کے انسانی حقوق کے نمائندے بھی شامل تھے۔ امریکا کی ناجائزولاد اسرائیل کے فوجیوں نے کھلے سمندر میں غیر مسلح جہاز پر حملہ کیاجس میں کچھ کو شہید ہوئے اور کچھ کو قید کر لیا گیا۔بعد میں ترکی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلوقات ختم کر دیے۔ترکی کے پریشئر پر اسرائیل نے معافی مانگی ۔اس کے علاوہ مصر ، الجزائر،برما، چیچنیا،بوسینیا ، عراق، افغانستان اورعرب بہا ر کے موقعہ پر افریقی اور وسط ایشا کے مسلمان ملکوں میں استعمار نے دہشت گردی پھیلائی۔ مظالم کی ایک لمبی کہانی ہے جو ایک مضمون میں مکمل نہیں ہوسکتی۔

کیا حکمرانوں نے مسلمانوں پر اس ظلم و ستم ، سفاکیت اورتباہی کے متعلق کبھی تحقیق کی ہے۔ بات یہ ہے استعمارِ جدید نے سارے اسلامی ملکوں کو ایک جدید قسم کی غلامی میں چھکڑا ہوا ہے۔ کیااس موقعہ پر اسلام مسلمانوں کی کچھ رہنمائی کرتا ہے؟ جی کرتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی اصل کی طرف پلٹنا ہو گا۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں نے بنو امیّہ کے دور حکومت میں نناویں(۹۹) سالوں کے اندر اندر اس وقت کے موجود، دنیاکے چار براعظموں کے بڑے حصہ پر اسلامی پرچم لہرا دیا تھا۔ ان براعظموں کے مظلوم عوام پر اس وقت قیصر اور کسریٰ، یعنی روم ( مشرک عیسائی) اور مجوسیوں( آتش پرست پارسی) کی حکومتیں تھیں۔ مسلمان کی طاقت صرف اور صرف جہاد فی سبیل اﷲ میں تھی۔ جہاد فی سبیل اﷲ کیا ہے؟ اسلام کا وسیع مطالعہ بتاتا ہے کہ قوم ،وطن، علاقوں پر علاقعے فتح کرنے ، خزانوں حاصل کرنے کے لیے لڑائی جہاد فی سبیل اﷲ نہیں۔یہ دنیا کے لیے لڑائی ہے۔بلکہ مسلمان، اﷲ کا اس زمین پر خلیفہ ہونے کے ناطے مسلمانوں یااﷲ کے بندوں پر کہیں بھی جب ظلم و ستم ہو رہا ہو تا ہے، ان کی آزادی ور انصاف دلانے کے لیے لڑا جائے تو وہ جہاد فی سبیل اﷲ ہے۔کشمیر اور فلسطین جہاد فی سبیل اﷲ کے ذریعے ہی آزاد ہو سکتے ہیں۔ اﷲ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو پھر سے پہلے والا جہادی مسلمان بنا دے۔ پھر ساری دنیا کے مسلمان جدید استعمار، چاہے وہ یہودی،عیسائی یابت پرست ہندو ہو، مکمل آزادی نصیب فرمائے گا آمین۔
 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1093635 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More