جھنگ یونیورسٹی کے فوری قیام کے لئے چناب کالج جھنگ کواپ گریڈ کرکے اس میں ضم کر دیا جائے

 آزادی وطن کے ابتدائی سالوں 1952ء میں صوبہ پنجاب کے قدیم ترین ضلع جھنگ میں تعینات رہنے والے ڈپٹی کمشنر قدرت اﷲ شہاب نے شہاب نامہ میں صفحہ نمبر 536 پر ڈپٹی کمشنر کی ڈائری کے عنوان سے ضلع جھنگ کے دو بڑے زمینداروں بارے لکھا ہے کہ علاقے کا ایک بڑا زمیندار، وڈیرہ اس کے پاس آیا علاقے میں تعلیم کی کمی پر طویل تقریر کرتے ہوئے کہا کہ نیکی کاکام کرتے ہوئے فلاں گاؤں میں ایک سکول کھو ل دیں تو علاقے پراحسان عظیم ہو گا وہ اسکے لئے مفت زمین کمروں کی تعمیر کے لئے بیس ہزار روپے نقد اور ایک استاد کی ایک برس کی تنخواہ پر اپنی جیب سے ادا کرنے کے لئے حاضر ہے میرے وعدے کے بعد وہ ہنسی خوشی واپس چلا گیا چند روز بعد ایک اور بڑا زمیندار، وڈیرہ آیا اور کہا کہ جناب میں نے کیا گناہ کیا ہے جس کی سزا دی جارہی ہے آپ اس علاقے میں سکول کھول کر اس پر بڑا ظلم کریں گے میرے استفسار پر بتایا کہ اس کے مخالف زمیندار،وڈیرے نے یہ سکول اپنے نہیں اس کے علاقے میں بنوایا ہے اگر اسے تعلیم سے اتنا ہی پیار تھا تو وہ اپنے علاقے میں کیوں نہیں کھلواتا میرے یہ کہنے پر کہ آپ بھی اس کے علاقے میں ایک سکول کھلوا دیں یہ سن کر اس کی کچھ تشفی ہوئی مگر اس کے بعد ان دونوں میں سے کوئی بھی اس کے پاس نہ آیا جھنگ میں تعلیم دشمنی کی یہ گھٹیا ترین مثال ہے اصل معاملہ یہ تھا کہ دونوں وڈیرے اپنے علاقوں میں تعلیمی روشنی سے خائف تھے اور وہ جہالت کے اندھیرے کو ہی اپنے اقتدار اور چوہدراہٹ کی کنجی سمجھتے تھے جبھی تو اپنے اپنے علاقوں میں سکولوں کے اجرا کی مخالفت میں پیش پیش تھے اس ضلع کی عوام کی بد قسمتی ہے کہ آج سات عشرے گزرنے کے باوجود علاقے کی بااثر شخصیات کی ترجیحات اور سوچ نہیں بدلی ہے اب غریب اور کم وسیلہ طلباء وطالبات کو اعلیٰ تعلیم وپیشہ وارانہ معیاری تعلیم کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں ۔اس ضلع کی بدقسمت عوام کے فیصلے کرنے والے لیڈرز نے پہلے سے دستیاب سہولتیں چھین کر علاقے کو تعلیمی پسماندگی میں دھکیلنے میں جو گھناؤنے کردار ادا کئے ہیں ا سکی تفصیل اس طرح ہے ضلع ناظم کے دور میں یہاں زرعی یوینورسٹی کے کیمپس کھولنے کا فیصلہ ہوا مگر خفیہ ہاتھوں نے وہ قریبی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ٹرانسفر کروا دیا حالانکہ ضلع جھنگ زراعت کی پیدا وا ر اور ریونیوکے لحاظ سے ضلع ٹوبہ سے کہیں زیادہ بہترہے شریفوں کے ہی دور حکومت میں ضلع جھنگ میں دانش سکول کھولنے کے لئے 80کروڑ روپے بینک آف پنجاب جھنگ برانچ میں آئے اور ایک سال سے زائد عرصے تک پڑے رہے خفیہ ہاتھوں اور بیورو کریسی گٹھ جوڑ نے زمین کے حصول میں ہی وقت ضائع کروایا اور اتنی بڑی رقم واپس صوبائی حکومت کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردی گئی حالانکہ اس سکول کے لئے جامع ہائی سکول کے بالمقابل دودھ ملز کی متروکہ سرکاری اراضی ( 200کنال ،ایک مربع ) فروخت شدہ صرف 96250 روپے بڑی ہی مناسب اور موزوں تھی جو جھنگ کے بااثر عناصر،ہوس زر کے پجاری قبضہ مافیا کے ہاتھوں حال ہی میں بڑی چابک دستی اور ہوشیاری کے ساتھ کوڑیوں کے مول ہتھیا ئی جا چکی ہے۔ اس دوران جھنگ کے ایک Government Comprehesive High School (گورنمنٹ جامع ماڈل ہائی سکول) سیٹلائٹ ٹاؤن جوکہ غریبوں اور درمیانے درجے کے لوگوں کے بچوں کے لئے ایک اعلیٰ درجہ کی تعلیمی درسگا ہ تھی اور کم فیسوں کے عوض چناب کالج جھنگ سے بہتر تعلیمی نتائج فراہم کررہی تھی اس کی آدھی سے زیادہ عمارت میں گورنمنٹ لاہورکالج خواتین یونیورسٹی کاکیمپس کھول دیا گیا اور جامع ہائی سکول کے طلبا ء کو کلاس رومز سے دیس نکالا دے کر انھیں درختوں کے سائے میں کھلے آسمان تلے پڑھنے پر مجبور کردیا گیا یہ سلسلہ گزشتہ دس بارہ سالوں سے تا حال جاری ہے ضلع جھنگ کی پہچان اس عظیم درسگاہ کی خوبصورت عمارت ہتھیا کر اس کا بیڑہ غرق کر دیا گیا فیصلہ کرنے والوں نے پیچھے مڑ کر نہ کبھی نہ د یکھا کہ اس ادارے میں زیر تعلیم طلباء کے مسائل کیا ہیں چونکہ یہاں پر غریب عوام کے بچے پڑھتے ہیں اس لئے کسی کو اس بارے سوچنے کی فرصت ہی نہیں لاہور کالج خواتین یوینورسٹی کی نئی عمارت کب بنے گی ؟ اور جامع ہائی سکول کیمپس کب ختم ہو گا ؟ کچھ معلوم نہیں ۔اس کے بعدگورنمنٹ کالج آف کامرس کی باری آئی ہے چندسال پہلے جھنگ کی سیاسی قیادت اور جھنگ انتظامیہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کامرس کالج میں زیر تعلیم بی کام کے طلباء وطالبات کے کلاس رومز (ایک بلاک) سے دیس نکالا دے دیا جا ئے اور یہاں پر نئی بننے والی جھنگ یونیورسٹی کی کلاسز کا اجرا کر دیا جائے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جھنگ کے اکلوتے سرکاری پیشہ وارانہ تعلیمی ادارے کا بیڑہ غرق کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا تاکہ یہاں پر بھی غریبوں کے بچوں کو کامرس کی تعلیم سے محروم کر د یاجائے۔ تاہم اس ادارے میں زیر تعلیم طلباء وطالبات اور ان کے والدین کے زبردست احتجاج پر یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔کئی سال کی تا خیر کے بعدیہ کیمپس گورنمنٹ غزالی کالج گوجرہ روڈ کے ایک چھوٹے سے بلاک میں بنا دیا گیاہے جہاں چند ایک کلاسز جاری ہیں وائس چانسلر صاحب کاتقرر ہو چکا ہے اور سٹاف کی بھرتی کے لئے بھی اقدامات شروع ہو چکے ہیں مگر یونیورسٹی کے مستقل کیمپس کا تاحال فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔جھنگ یونیورسٹی کی عمارت کے لئے محکمہ ریونیو کی بد نیتی عیاں ہے کہ عمارت کے لئے جھنگ گوجرہ روڈ پر کئی مربع سرکاری اراضی ناجائز قابضین سے خالی کروا کر یونیورسٹی کے لئے مختص کی گئی تھی مگر تھوڑے ہی عرصے بعد اسے دوبارہ کاشت کیلئے ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔حکومت پنجاب کے بار بار اعلانات کے باوجو دبروقت فنڈز کی عدم فراہمی اور سرد مہری کے پیچھے کوئی خفیہ سا زش کار فرما تو نہیں ؟کچھ عرصہ قبل اہالیان علاقہ کا پر زور مطالبہ سامنے آیا تھا کہ یوینورسٹی آف جھنگ کا نیا کیمپس تعمیر ہونے تک اس کی کلاسز چناب کالج میں جس کی اراضی(150ایکڑ 6 مربع سے زائد )ہے کے ایک بلاک میں کیوں نہیں لگائی جاتیں بلکہ چناب کالج جھنگ کو ہی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا جائے ۔ مگر اس عوامی مطالبے پرکسی نے غور کرنا ہی گوارا نہیں کیا۔ جھنگ یونیورسٹی کا یہ کیمپس چناب کالج جھنگ میں کیوں نہیں بن سکتا حالانکہ وہاں پر خوبصورت عمارتیں دستیاب ہیں اور سات الگ الگ بلاک موجود ہیں ؟اس وقت ضرورت اس امر کی ہے فوری طور پر چناب کالج جھنگ کو اپ گریڈ کرکے جھنگ یونیورسٹی کادرجہ دے کر اس میں ضم کر دیا جائے یہاں یونیورسٹی کی کلاسزفوری طور پر شروع کروا ئی جاسکتی ہیں۔ اس طرح ناصرف چنا ب کالج میں تعینات اعلیٰ تعلیم کے حامل سٹاف کو بھی یونیورسٹی رولز کے مطابق اچھے مستقبل کا ملازمتی تحفظ اور سہولیات میسر ہو جائیں گی اوراس میں زیر تعلیم ایف اے، ایف ایس سی اور او لیول کے طلباء و طالبات بھی اسی کیمپس میں اعلیٰ تعلیم سے مستفید ہو سکیں گے اور انھیں اپنے ہی کیمپس میں اعلیٰ تعلیم کے ازخود مواقع میسر آسکیں گے اور اس ضلع کے دیگر کالجز کے طلباء وطالبات کو بھی دوسرے شہروں میں جانے کی بجائے بلا تاخیر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مواقع فوری طور پر میسر آجا ئیں گے ۔اور یہ ایک تاریخی اقدام ہو گا جس سے علاقے کی آئندہ نسلیں مستفید ہو ں گی۔ اﷲ تعالیٰ اس علاقے کی عوام کو ناہل اورذاتی مفادات کے اسیرسیاستدانوں کی سازشوں سے محفوظ رکھے جن کے غلط فیصلوں کے باعث ماضی قریب میں موٹروے جھنگ سے 30/35کلومیٹر تک دور کردیا گیا۔زرعی یونیورسٹی کیمپس جھنگ سے ٹوبہ منتقل کردیا گیا۔پیشہ وارانہ تعلیم کے ادارے کو جھنگ سے چنیوٹ منتقل کیا گیا ۔ محکمہ صحت کے میڈیکل ٹیکنیشن کورسز کے ادارے کو یہاں سے بہاولپور منتقل کیا گیا تھا۔جھنگ میں میڈیکل کالج کے قیام، جھنگ ڈویژ ن بناؤ ۔آر پی او پولیس کیمپس آفس بنانے ۔جھنگ سے فیصل آباد تک دورویہ سڑک بنانے کے منصوبے کی دو بار افتتاحی تقاریب بھی منعقد ہو ئیں۔ مگر یہ سب اعلانات صدا بصحرا ثابت ہوئے۔خدا را عام غریب آدمی کے بچوں کو بھی مقامی طور پر اعلیٰ تعلیم کے فوری مواقع فراہم کریں انھیں دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے مجبور کرکے در بدر نہ کریں۔ جھنگ یونیورسٹی کی تعمیر میں دانستہ غیردانستہ تاخیر سے والدین طلباؤ طالبات میں شدیداضطراب، تشویش اور رد عمل موجود ہے جو کسی احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کرسکتا ہے فرقہ واریت سے تباہ شدہ اس ضلع میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع نہ ملنا ایک المیہ ہے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نوجوانوں کو ان کے علاقوں میں ہی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے کوشاں ہے اور وزیر اعلیٰ پنجا ب جناب عثمان بزدار صاحب جھنگ یونیورسٹی کو فوری شروع کرنے کے متمنی ہیں نئے اداروں کا فوری قیام دانش مندی ہے وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صا حب، و زیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدارصاحب، مقامی انتظامیہ جھنگ یونیورسٹی کے چناب کالج میں فوری قیام کے اس صائب مشورے کو عملی شکل دے کر اہل علاقہ کی دعائیں لیں۔

Faisal Manzoor Anwar
About the Author: Faisal Manzoor Anwar Read More Articles by Faisal Manzoor Anwar: 21 Articles with 18972 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.