جب سے ھوش سنبھالا ھے میں نے تعلیم کے معیار کو بڈھتا
نہیں دیکھا ۔ قریب رھنے والےلوگوں سے جانا تو بھی یہ جانا کہ تعلیم کا
معیار انسان خود طے کرتا ھے ۔ اپنے خاندان کے لوگوں سے سنا تو یہ سمجھ آیا
کہ تعلیم معیار یہ ھے کہ ایک دوسرے سے آگے بڈھ چڈھ کر پیسا خرچ کر کے اعلی
ناموں کے اسکولوں میں بچوں کو بھیج دیا جاے تو اِن کے بچوں کا نام ھوگا اور
لوگوں میں یہ مشہور ھوگا کہ اِن کے بچے اعلی تعلیمی کے معیار پر پورےاترتے
ھیں ۔ لیکن کیا اچھے ناموں اور انگلیش میڈ یم میں پڈھانے یا پڈھنے سے ھمارا
تعلیمی معیار طے ھوجاتا ھے؟
اگر آج سے کہیں سال پہلے کا تعلیمی نسخہ اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو یہ بات
وا ضع ھوجاے گی کہ جو معیار پہلے تھا اس کا کچھ فیصد بھی اب نہیں رہا ۔ عمر
کے جس حصے میں میں اب اگی ھوں تو صرف یہ نظر آتا کہ مقابلہ کرنے سے لوگوں
کو تعلیمی معیار نظر آتا ھے ۔ میہنگی کتابیں‘انٹرنیٹ کا بھرپور استعمال ‘
دوستوں سے محفلیں صرف یہ چیزیں آجکل کے بچوں کا تعلیمی معیار بنارہی ھوتی
ھیں ۔ آج کی ماں صرف اِس چیز میں مصروف ھے کہ اِس کا بچہ کتنے اچھے دوست
رکھتا ھے ۔ کتنا جدید ھوتا جارہا ھے ۔ گھر کا سربراہ کمانے میں مصروف ھوتا
ھے تاکہ بچوں کے مہنگے اسکول کی فیس وقت پر ادا کرسکے اور ھمارے اسکولوں کے
سربراہ اپنے اسکول کے نام کو اونچا کرنے میں دن رات مصروف ھیں۔ اب جب نویں
اور دسویں جماعت کا رزلٹ آتا ھے تو یہ دیکھا جاتا ھے کہ کتنے بچوں کے ٨٠
فیصد آے ھیں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اِن بچوں نے سیکھا کیا ھے ۔ کیوںکہ ھم
اِس بات کو بہت پیچھے چھوڈ آے ھیں کہ علم کا مطلب سیکھنا ھے ۔ |