انسانی تاریخ میں ابتدا سے ہی تعلیم کو امتیازی حیثیت
حاصل رہی ہےیہ الگ بات ہے کہ اس کی اشاعت میں اختلاف رہا ،انسانی تاریخ پر
اگر سنجیدگی سے نگاہ ڈالی جائے تویہ بات دن کے اجالے کی مانند روشن ہو
جائےگی کہ اس تعلیم نے کتنی بڑی ہستیوں کو جنم دیاہے۔ یونان کی گلیوں میں
گھومنے والے سقراط نے جب اس کا بیڑا اٹھایا تو،افلاطون، ارسطون اوردیگر اہم
شخصیات پیدا ہوئی۔جنہوں نے سیاست سے لے کر فلکیات کی دنیا تک انقلاب برپا
کر دیا، اس تعلیم نے جب مزہبی رخ اختیار کیا تو عرب کی سرزمیں پر ایسی ایسی
ہستیاں پیدا ہوئی جن کی کوئی نظیر نہیں۔ جنہوں نے زندگی کے ہر میدان میں
ایسا انقلاب برپا کیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔لیکن آج کے دورمیں اگر تعلیم پر
گفتگو کرنے کے لئے کو دانشور میدان میں آتا ہے تواس کو تعلیم کی ماضی کی
صورتحال کی تاریخ اورموجودگی تعلیمی نظام کا درددل کے ساتھ ماتم کرنا پڑتا
ہے،موجودہ تعلیمی نظام اپنے وجود میں ہولناک قسم کی خامیاں رکھتا ہے جس کے
پیشِ نظرتحریر میں چند ایک کا ذکر موجود ہے۔
یہ تعلیمی نظام اہلیت قابلیت کی بجائےمارکس، جی-پی-اے اسایئنمنٹ
اوراکزیمنیشن ہال کے ارد گرد گھومتا ہے۔
اس تعلیمی نظام میں تمام شاگردوں کو ایک ہی پیمانے سے مانپا جاتا ہے۔ یعنی
ان کی مختلیف صلاحیتوں کو دیکھنے کا کوئی دستور ہی نہیں۔
اس تعلیمی نظام نے اخلاقی تربیت کو یکسر نظرانداز کردیا ہے۔
اس تعلیمی نظام میں پیشہ ورانہ تعلیم کو انتہائی کم اہمیت دی گئی ہے۔
اس تعلیمی نظام کی سب سے بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ پورا نظام کمرشلزم کے
اصول پر استوار ہے۔
اس کے علاوہ بھی اس تعلیمی نظام میں کئی کمزوریاں ہیں جو کہ بیان کی جا
سکتی ہیں۔مختصر یہ کہ یہ تعلیمی نظام مجموعی طور پر انسانی ترقی کا باعث
نہیں بن رہا خواہ وہ ترقی دنیاوی ہو یا دینی۔
بلخصوص وطنِ عزیز کی تعلیمی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔وطنِ عزیز میں موجود
تعلیمی نظام ڈبل اسٹینڈرڈ آف ایجوکیشن کہ اصول پر نہیں بلکہ سیورل اسٹینڈرڈ
آف ایجوکیشن پر منحصر ہے۔ایک اسکول کا تعلیمی نظام دوسرے اسکول سے ہر لحاظ
سے مختلیف نہیں بلکہ متضاد ہیں۔ فیس اسٹرکچر سے لے کر اساتزہ کی تنخواہ تک
انتظامی صورتحال سے لے کراکیڈمک کے معاملات تک ہر چیز اپنے وجود میں اختلاف
رکھتی ہے۔ اس تمام صورتحال میں تعلیم جو کہ ہماری بنیادی ضرورت اور ملک میں
موجود تمام مسائل کا حتمی حل ہےانتہائی ذبوحالی کا شکارہے۔ا گر ہمیں ہماری
قوم کو دنیا کی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کرنا ہے تو
ہمیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست مقام دینا ہوگا۔
|