لمحہ فکریہ

ایکتا

لمحہ فکریہ!
آج شام کی چاۓ کی چُسکیوں کہ ساتھ میں نے سوچا ذرا زندگی کی سسکیوں پر بھی نظر ڈالی جاۓ…...دماغ بھی ایک مشینی شے ہے چلتا رہتا ہے سوچتا رہتا ہے حتٰی کہ آپ سو جائیں تب بھی یہ نہیں سوتا یہ تب بھی جاگ رہا ہوتا ہے…...میرے ساتھ بھی کُچھ یہی معاملات ہیں…..دماغ تانے بانے بُنتا رہتا ہے یا سوچتا رہتا ہے…...انہی سوچوں کہ چلتے میں نے اپنا جب دوسرا ناول لکھنا شروع کیا تو سب سے پہلا خیال ہی یہ آیا کہ اُس کا عنوان کیا ہو گا…..اور جانے کیوں اُن ہی دنوں میری زبان پر راحت فتح علی خان کا وہ گانا (جینا کوئ مُشکل تو نہیں بس تھوڑی سی وفا چاہیے) یہی گانا رہتا تھا…….اور بس پھر میں نے پلاٹ تیار کرنے کہ بعد اُس ناول کا نام جینا کوئ مُشکل تو نہیں رکھ دیا…….جو آن لائن ایک بلاگ پر قسط وار ابھی جاری ہے…...بحرِحال اس عنوان کو لکھتے ہوۓ میرے دماغ میں بہت سے سوالات اُبھرے تھے…….جن کا ظاہر ہے میں ناول میں ذکر نہیں کر سکتی کیونکہ ناول ایک الگ فینٹیسی دنیا ہے وہاں میں حقائق کو اُس طرح نہیں لکھ سکتی جس طرح اس کالم میں لکھ سکتی ہوں……خیر…!

زندگی جینا واقعی کوئ آسان کام نہیں ہے…..مگر آپ نے کبھی یہ بات سوچی ہے ہماری,زندگیاں اس قدر مُشکل کیوں ہے؟ کیوں اسے خوشی کہ ساتھ نہیں جیا سکتا ؟ ہم نے اپنی زندگیوں کو خود ہی مُشکل بنایا ہوا ہے…...جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں…...وہاں ہم نے ایک دوسرے کی زندگیوں کو خود ہی مُشکل بلکہ مُشکل ترین بنایا ہوا ہے…...یوں سمجھ لے کہ آج انسان ہی انسان کا دُشمن ہے……..یہاں کسی کی خوشی اور کسی کا غم سب سے پہلے معاشرے میں رہنے والے لوگوں کہ لیے سوالیہ نشان بن جاتا ہے…...حسد….منافقت….کینہ…..بغض...نفرت…..ایک دوسرے کہ خلاف سازشیں…...رنجشیں…...غرض وہ کون سے جذبات ہے جو ہم نے ایک دوسرے کہ خلاف نہیں پالے ہوۓ…….

پُرانے زمانے میں لڑکی کہ پیدا ہونے پر اُسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا…...اور آج بھی زیادہ کُچھ نہیں بدلا آج لڑکی کی کوئ ایک غلطی اُس کہ کردار پر سوالیہ نشان بن جاتی ہے…..لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں جو ماں باپ اور اُس لڑکی کو جیتے جی زندہ درگور کردینے والی اذیت پہنچاتے ہیں…...بھری محفل میں بیٹھے لوگ شادی کی تقریب کا کھانا کھاتے ہوۓ اس قدر نقطہ چینی کرتے ہیں بغیر یہ خیال کیے کہ اُس غریب باپ نے اپنی بیٹی کو رُخصت کرنے کہ اور سُسرال میں اُس کا سر اُونچا رہے صرف اس لیے اپنی جمع پونجی لُٹا دی وہاں محفل میں بیٹھے خواتین وحضرات کھانے کہ لُقمے لیتے ہوۓ نقص اور مین میخ نکالنے میں مشغول ہوتے ہیں…….افسوس کا مقام ہے ہم سب کہ لیے کہ کسی کی خوشی میں شریک ہو کر اُس کہ پیٹھ پیچھے چار لوگوں کہ درمیان ایسی باتیں کرنا جو بعد میں اُڑتے ہوۓ اُس باپ کہ کان میں جا پڑے تو اُسے کس تکلیف اور شرمندگی سے گزرنا پڑتا ہو گا آپ اور میں اُس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے……

میں نے لوگوں سے سُنا کہ زندگی کہ تجربات سے گزرنے کہ بعد ہم نے جینے کا ڈھنگ سیکھا….. ہم نے اپنی شخصیت کو لوگوں کی چاہ کہ مطابق ڈھال لیا ہے…اُس نے یہ لیا تو میں بھی یہ لوں گا اُس نے مہنگی گاڑی تو میں بھی لوں گا اُس نے قربانی کا جانور دو لاکھ کا لیا میں تین لاکھ کا لوں گا….مطلب ہمارا المیہ تو دیکھے کہ سُنت ابراہیمی تک میں ہم مقابلہ بازی درمیان میں لے آۓ ہیں…….اللہ کی راہ میں قربانی کو بھی محض ایک دکھاوا بنادیا ہے…...جبکہ وہ اللہ تو کہتا ہے میں تمہاری نیت دیکھتا ہوں اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے…...مگر ہم کیا کررہے ہیں…..میرے پاس لکھنے کہ لیے الفاظ نہیں ہے…..ہماری سوچ اتنی چھوٹی ہے کہ اگر کسی نے کہہ دیا کہ تم موٹی لگ رہی ہو تو اگلے ہی دن سے ڈائٹنگ اور جم شروع ہوجاۓ گا….با اب دن رات ایک کردینا ہے اعر وزن گھٹانا ہے فلاں نے کہا تھا تم تو پھولتی ہی جارہی ہو کو. سی چکی کا آٹا کھاتی ہو…...اگر کوئ لڑکی دکھنے میں کمزور ہے تو لوگ کہتے ہیں تم تو سوکھ کر کانٹا ہو گئ ہو کُچھ کھایا پیا کرو جان بناؤ لڑکے ایسی سوکھی سڑی لڑکیاں نہیں پسند کرتے ایسے تو رشتے نہیں آنے…..مطلب موٹی ہو تو کیوں موٹی ہو؟ اور پتلی ہو تو کیوں پتلی ہو…..مطلب کسی حال میں لوگ خوش نہیں ہے….یہی نہیں ہمارے معاشرے کا المیہ تو اب تک نہیں بدلا ہمیں آج بھی چمکتی ہوئ چیز سونا ہی دکھائ دیتی ہے…….یہاں اُن لڑکیوں کی بھی بات کرتی چلوں جو کمپلیکشن گوری رنگت کہ پیچھے خوار ہے دن رات شیشے کہ سامنے کھڑی ٹوٹکے کر رہی ہوتی ہیں…….کہ بس کسی طرح وہ سیاہ رات سے اُجلا سویرا بن جاۓ مگر کیوں؟ کس لیے؟ آپ جیسے ہیں ویسے ہی اچھے ہیں……..مگر نہیں…..ہم نے ٹی وی میں آتے فیراینڈلولی اور دیگر اشتہارات کو سر پر سوار کر لیا ہے کسی نے آپ کو آپ کی رنگت کہ حوالے سے کُچھ کہہ دیا تو آپ نے اُس فرد کی باتوں پر خود کو حاوی کرلیا…...بات یہی نہیں ختم ہوتی…...آج کل کی لڑکیوں سے اُن کا آئیڈیل پارٹنر پوچھنے پر ایک لمبی فہرست ملتی ہیں جس میں سب سے پہلی چیز لڑکے کا خوبصورت ہونا ہوتا ہے…...آخر کیوں؟ خوبصورتی میں ایسا کیا رکھا ہے…….تصویر کہ دو رُخ بھی ہوتے ہیں رنگت اور شاندار پرسنلٹی رکھنے والا شخص بعد میں آپ کو پتہ لگے کہ اُس کا اندر کتنا سیاہ ہے پھر آپ نے اُس خوبصورتی کا کیا کرنا ہے؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ لوگوں کو اُن کہ ظاہر سے نہیں اُن کہ باطن سے پہچانے صورت سے نہیں سیرت سے پیار کرے…...میں جانتی ہوں کہ یہ سب باتیں لفاظی لگ رہی ہوں گی…...اور کہنے میں اور سُننے میں آسان لگ رہی ہو گی…...مگر مُشکل ہے…...واقعی مشکل ہے…...سیاہ اورسفید میں اگر چُننا ہو تو سو فیصد میں سے نویں فیصد افراد سفید کو ہی چُنے گے…….لیکن اگر آپ باریک بینی سے مشاہدہ کرے تو شاید آپ کو یہ بات سمجھ آسکے…..کہ سیاہ سفید کُچھ نہیں ہوتا……ظاہر نہیں باطن دیکںے والی آنکھیں بنے…….کسی کو بھی اُس کی خوبصورتی اور بد صورتی سے جج نہ کرے…….یاد رکھے کہ دور فلق پر جو چمکتا چاند ہے اُس میں بھی ایک داغ ہے اور گرہن اُسے بھی لگتا ہے…یہ خوبصورتی بھی عارضی ہے…. وقتی ہے…...ایک دن یہ بھی ڈھل جاۓ گی…….تو وہ لوگ جو اُٹھتے بیٹھتے کسی کو اس کی رنگت کہ حوالے سے یا کسی بھی حوالے سے طنز کرتے ہیں سُناتے ہیں اُن پر چوٹ کرتے ہیں یا ہنسی مزاح کہ لبادے میں اُن پہ پتھر برساتے ہیں خُدارا ایسا نہ کرے آپ نہیں جانتے میں نہیں جانتی کہ ہمارا وہ مذاق یا طنز کسی کی تکلیف کا باعث بنا ہو گا….اور یاد رکھے مذاق بھی ایک حد میں اچھا لگتا ہے اور مذاق کرنے اور اُڑانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے اس لیے ہمیشہ اس فرق کو یاد رکھے..کوشش کرے کہ ہم کسی کی مُسکراہٹ کی وجہ بنے نہ کہ ایسا ہو کہ ..ہماری باتیں کسی کی آنکھ سے نکلنے والا آنسو بنے…….یہ جو اللہ رب العزت نے زبان جیسی نعمت ہمیں عطا کی ہے…...اس کا استعمال کب کہاں اور کیسے کرنا ہے ہمیں علم ہونا چاہیے……..یاد رکھے کہ اگر آپ کی زبان سے کسی کہ لیے پھول نہیں جڑ سکتے تو اس سے کسی کہ لیے زہر بھی نہ اُگلے……...یا پھر بہترین حل خاموشی ہے…..ایک چُپ سو سُکھ پر عمل پیرا رہے…….

معاشرے میں سُدھار کسی ایک شخص کی وجہ سے نہیں ہو سکتا……لیکن اگر کوئ آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر خود کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر معاشرے میں بدلاؤ کی گُنجائش باقی رہتی ہے…….آج ایک کھڑا ہوا اور کل اُس کو دیکھ کر دوسرا اور پھر دوسرے کو دیکھ کر تیسرا کھڑا ہو گا……..اور اس طرح کارواں بنتا چلا جاۓ گا……..

لکھنے کا مقصد صرف آپ سب کی ہی نہیں میری اپنی اصلاح کرنا بھی ہے…...میں بھی آپ سب کی طرح ایک عام انسان معاشرے میں رہنے والی آپ جیسی ہی ایک فرد ہوں جو اپنی زندگی میں ایسی غلطیاں بشمول روز ہی کرتی ہوں…….لیکن کبھی اکیلے میں وقت ملے تو دو گھڑی بیٹھ کر سوچنا ضرور معاشرے میں رہنا اتنا مشکل کیوں بن چُکا ہے…...کیا ہماری ذات سے کسی کو کوئ تکلیف پہنچ رہی ہے…..کیا ہم نے دوسروں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت تو نہیں کی…..کیا ہم بیٹھے کسی کی جنت اور دوزخ کا فیصلہ تو نہیں کر رہے؟ کیوں کہ یہ سب ہمارے کام نہیں ہے…….اگر آپ کسی کہ عیب جانتے ہیں تو اُس پر پردہ رکھے رہے اُسی طرح جیسے اُس رب نے آپ کہ عیبوں آپ کہ گناہوں اور آپ کی خامیوں پر پردہ ڈال رکھا ہے……کسی کی عزت کو بے آبرو نہ کرے…..کسی کی دل آزاری نہ کرے…….درگزر سے کام لے…...معافی مانگنا اور معاف کرنا سیکھے…...انا کو پسِ پُشت ڈال کر اللہ کی خوشنودی حاصل کرے…...دوسرا نہیں جُھک رہا تو آپ جُھک جاۓ…….کوئ آپ سے ناراض ہے تو اُسے منا لے…….جیو اور جینے دو کہ فلسفے پر عمل کرے…….دوسروں کی خوشی میں خوش ہو کر شریک ہوں…...اور اُن کہ غم میں اُن کہ ساتھ کھڑے رہے…….یقین جانے یہ سب لکھتے ہوۓ میں خود کو بھی یہ سب باور کروا رہی ہوں…….کیونکہ میں نے کہا میں بھی تو ایک عام انسان ہوں ان سب باتوں پر میرے لیے بھی عمل کرنا مُشکل ہے…….مگر میرا مالک کہتا ہے کہ ہر مُشکل کہ بعد آسانی ہے…...ہر سیاہ رات کہ بعد اُجالا ہے…...ہر دُکھ کہ بعد سُکھ ہے……

زندہ دلی سے جیے آپ اور میں نہیں جانتے کہ ہم کتنی مدت کہ لیے یہاں موجود ہے ہو سکتا ہے وقت پورا ہونے کو ہو…...دوسروں کہ لیے مشعل راہ بنے کسی کی راہ میں پتھر نہ بچھاۓ…...رب کو راضی کر لے…….اور دُنیا سے ایسے جاۓ کہ کل کو جب آپ کو یاد کیا جاۓ تو اچھے الفاظوں میں یاد کیا جاۓ…...معاشرہ افراد سے بنتا ہے ہم اس معاشرے کا حصہ ہے…..دوسروں کو سُدھارنے سے پہلے آپ کو خود پہل کرنی ہو گی…….مجھے خود کو بدلنا ہو گا…….دوسروں کو چین کا سانس لینے دے تا کہ خود بھی سُکھ کا سانس لے سکے…….
 

Hira Umair
About the Author: Hira Umair Read More Articles by Hira Umair: 6 Articles with 9048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.