تحریر: شافعہ افضل
انسان اللّٰہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ حیرت انگیز اور
باصلاحیت واقع ہوا ہے۔ اس کو اللّٰہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ اسی
لیے عطا کیا کیونکہ یہ سوچ سمجھ سکتا ہے اور اپنے اور دوسروں کے فوائد اور
نقصانات کا اندازہ کر سکتا ہے۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم کسی
بھی حالت میں وہ کام نہ کریں جو ہمارے اور ہم سے وابستہ لوگوں کے لیے باعثِ
آزار اور نقصان دہ ہو کیوں کہ اس سے معاشرے اور ماحول پر برا اثر پڑتا ہے
اور نئی نسل بھی ان ہی باتوں کی تقلید کرتی ہے جو ہم کر رہے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال ہماری نئی نسل کو تباہی کے دہانے تک لے
آیا ہے اور ہم جانتے بوجھتے ہوئے انھیں تباہ ہوتے دیکھ کر خاموشی اختیار
کیے ہوئے ہیں۔ ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں بھی سوشل میڈیا کے کثرتِ
استعمال سے متاثر ہو رہی ہیں۔ وہ خود سے سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہے
بلکہ وہ وہی سوچ، سمجھ اور کر رہے ہیں جو سوشل میڈیا انھیں سکھا رہا ہے۔ ان
کی تخلیقی صلاحیتیں پروان ہی نہیں چڑھ پا رہیں کیوں کہ ان کا صحیح استعمال
نہیں ہو رہا۔ آج کے دور میں اگر آپ کسی بچّے سے کہیں کہ وہ کسی موضوع پر
کچھ لکھے یا تصویر بنائے تو وہ اپنی تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار
لانے کے بجائے گوگل سے مدد لینے کو ترجیع دے گا۔ وہ ذہن جو انتہائی زرخیز
اور باصلاحیت ہیں انہیں استعمال میں نہ لانے کی وجہ سے وہ کمزور اور بے کار
ہوتے جا رہے ہیں۔
جسمانی طور پر بچے اس لیے کمزور ہیں کے وہ اس طرح کھیلتے، کودتے اور ورزش
نہیں کرتے جیسے پہلے کے دور کے بچّے کرتے تھے۔ آج کے دور کے بچّے اپنا
بیشتر وقت موبائل، ٹی وی اور کمپیوٹر پر صرف کرتے ہیں۔ ایک ہی جگہ گھنٹوں
بیٹھے بیٹھے وقت گزار دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا آپس میں وہ تعلق نہیں بن پاتا
ہے جو پہلے کے دور کے بچّوں کا ہوا کرتا تھا۔ پہلے کے دور میں مائیں سوتے
وقت یا کھانا کھاتے وقت بچّوں کو سبق آموز کہانیاں یا بزرگانِ دین کے
واقعات سنایا کرتی تھیں جس سے وہ بہت کچھ سیکھتے تھے۔ آج کے دور کی مائیں
ان کے ہاتھ میں موبائل پکڑا کر اپنے فراض سے بری الذّمہ ہو جاتی ہیں۔ آپس
میں تعلق نہ ہونے کی وجہ سے بچّوں میں برداشت اور تحمّل بھی پیدا نہیں ہوتا
اور نہ انھیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مختلف لوگوں اور مسائل سے کس طرح نمٹنا
ہے۔ اسی لیے آج کے دور کے بچّے آگے بھی مضبوط رشتے قائم نہیں کر پاتے۔
تعلقات کو نبھا نہیں پاتے۔ طلاق اور علحیدگی کی شرع میں اضافے کی بھی یہی
وجوہات ہیں۔
سوشل میڈیا کے اثرات اس قدر دیرپا اور شدید ہیں کہ بچّوں کی زندگیاں تبدیل
ہو کر رہ گئی ہیں۔ پہلے کے دور میں جس عمر میں بچّے بے فکری کی زندگی
گزارتے تھے اور گھریلو معاملات اور سیاستوں سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں
ہوتا تھا اب وہ ہر معاملے اور مسئلے میں شامل ہوتے ہیں۔ چھوٹی عمر میں ہی
ان کی سوچ پختہ اور ذہن الجھ جاتے ہیں۔ وہ ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ غرض
یہ کہ بچّوں سے ان کی معصومیت اور بچپن چھن گیا ہے اور یہ انتہائی افسوس
ناک صورتِ حال ہے۔ نامناسب باتیں دیکھنے اور سیکھنے کی وجہ سے ان کے
رویّوں، سوچ اور اعمال میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کی وجہ سے معاشرے
میں برائیاں اور جرائم میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ کم عمر بچّے وہ باتیں
اور حرکتیں کرتے ہیں جن کے بارے میں پہلے کے دور کے بڑے بھی نہیں سوچ سکتے
تھے۔ خاندانی وقار، رکھ رکھاؤ اور تہذیب کے محض نام باقی رہ گئے ہیں حقیقت
میں یہ اب کہیں نہیں ملتیں۔
ہم معاشرتی طور پر جس تنزلی کا شکار ہو چکے ہیں اس کو روکنا ہمارے بس سے
باہر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا حل صرف یہی ہے کہ ہم اپنے اصل اور اپنے دین کی
طرف واپس لوٹیں اور اپنے بچّوں کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں۔ جب ہم خود
کو تبدیل کریں گے تب ہی اپنی نئی نسل کو تبدیل کر پائیں گے اور ان کی بہتر
تربیت کر سکیں گے ورنہ ہمیں مکمل برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ |