ویسے تو لیڈیز فرسٹ کا نعرہ لگانا بہت آسان سا لگتا ہے
لیکن جب عورت کے حقوق کی بات ہو تو معاشرہ بہانے گھڑنے لگتا ہےسب باتوں کو
چھوڑ کر صرف ایک لوکل بس کی بات ہی کی جاۓ تو اس میں عورتوں کے لئے اک
چھوٹی سی جگہ مختص کر دی گئی ہے جو کسی حساب سے بھی مناسب نہیں ہاں یہ ٹھیک
ہے کے مرد حضرات تعداد میں ذیادہ سفر کرتے ہیں لیکن عورتیں بھی تو ذیادہ
تعداد میں سفر کرتی ہیں ذرا اس منظر پر غور کریں کہ عورتیں بس میں ذیادہ ہو
گئی ہیں اور پھر توبہ جو حال ہوتا ہے بس میں عورتوں کو بس میں ایسے بھرنے
کی کوشش کی جاتی ہے جیسے ڈربے میں مرغیاں بھری جا رہی ہوں یہ بھی بھلا کوئی
بات ہوئی بس والا کرایہ لینے کے لیے بھی بیچ میں گھس رہا ہوتا ہے اتنے رش
میں جو اخلاقیات میں تو بلکل شامل نہیں ہوتا اور چلیں اگر عورتیں پیچھے
والے حصے میں بیٹھ بھی جایں تو مرد حضرات گھورنا چھیڑنا اپنا فرض اور اس سے
ذیادہ حق سمجھتے ہیں.
اک اور منظر پر نظر ڈالی جاۓ تو یہ منظر بس اسٹاپ کا ہے یہاں بھی عورت
محفوظ نہیں یہاں بھی عورت کو حق نہیں دیا جاتا کے وہ آرام سے کھڑی بھی ہو
سکے یہاں بھی اسکو کسی نہ کسی طرھ تنگ کیا جاتا ہے کچھ تو ان سب مسائل کا
مقابلہ کر لیتی ہیں اور کچھ ڈر کے گھر بیٹھ جاتی ہیں اس طرھ ان میں سے بہت
کا مستقبل خطرے میں پر جاتا ہے جو کسی طرھ ٹھیک نہیں. گلی محلے یا کوئی بھی
پبلک کی جگہ ہو ہر جگہ عورت کو ہی کیوں سہنا پڑتا ہے ہاں میں یہ نہیں کہتی
عورت کی عزت ہر جگہ ہی نہیں کی جاتی لیکن اسکو اکثر جینے تک کا حق نہیں دیا
جاتا اس کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے تو کہیں بیٹی پیدا
کرنے پہ ظلم کیا جاتا ہے کہیں جہیز نہ لانے پہ زندہ جلا دیا جاتا ہے تو ان
سب حالات پہ نظر ڈالنے کے بعد یہی کہوں گی آخر کب تک سہوں میں
آخر کب تک سہوں میں.
|