مفاد پرستی اور خود غرضی کے جس دور میں ہم آج
رہ رہے ہیں اس کا اندازہ ہر اس شخص کو ہے جو کسی نہ کسی کام کے سلسلہ میں
گھر سے باہر نکلتا ہے تو اسے اپنے جائز کام کے لیے بھی کسی نہ کسی سفارش یا
رشوت کی ضرورت پڑتی ہے اور کچھ ہماری ذہنی سطح بھی اس حد تک جا چکی ہے کہ
بغیرلیے دیے ہمیں اپنے کام کے حوالہ سے تسلی بھی نہیں ہوتی اگر کوئی فرد
بغیر کسی لالچ اور مفاد کے ہمارا کام کردے تو ہمیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ
ہمارا کام ہو بھی جائیگا ؟کیونکہ ہمارے کرپٹ اور کرپشن زدہ نظام نے ایک بات
شروع دن سے ہی ہمارے دماغ میں بٹھا دی ہے کہ جب تک کسی بھی سرکاری افسر کو
کوئی نہ کوئی نظرانہ پیش نہ کیا جائے اس وقت تک خواری مقدر میں رہے گی اور
یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ ہمیں بحیثیت فرد بچپن سے ہی نفرت کی دلدل میں دھکیل
دیا گیا ہے اور بحیثیت قوم گذرے 72 سالوں سے جس نفرت کی آگ میں ہمیں جھونکا
گیاآج اسی کا نتیجہ ہے کہ کسی محکمہ میں اگر کوئی ایک ایماندار ،فرض شناس
اورمحنتی شخص اﷲ کی خوشنودی کے لیے نہ صرف عوام بلکہ اپنے ساتھی ملازمین کی
بھی بے لوث خدمت کرنے میں مصروف ہو تو ہمیں شک ہونے لگتا ہے کہ اس کے پیچھے
بھی کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا مگر ایسے افراد کسی کی باتوں کو خاطر میں لائے
بغیر لوگوں کی راہ میں آنے والی مشکلات اور پریشانیوں کو ختم کرنے میں
مصروف رہتے ہیں ایسے افراد بہت مشکل سے ملا کرتے ہیں جنکی نہ صرف ہمیں قدر
کرنی چاہیے بلکہ انکے اچھے کاموں کا چرچا بھی کرنا چاہیے ایسے افراد چراغ
لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے مگر ہم کیوں تلاش کریں ایسے افراد کو ہمیں
تو ایک دوسرے کی برائی ،نفرت اور حسد کرنے سے ہی وقت نہیں ملتااور تو اور
ہم تو انکے اچھے کاموں میں بھی کمال مہارت سے کیڑے نکال دیتے ہیں کیونکہ جو
تربیت ہماری ہوچکی ہے ہم نے تو اسی پر رہ کر سوچنا اور سمجھنا ہے بچپن سے
لیکر لڑکپن اور پھر جوانی تک ہم نے جو سنا ،پڑھا اور جو کچھ ہمیں سمجھایا
گیا اس میں تو ہمیں ایک دوسرے سے لڑنا ،جھگڑنا اور مرنا ہی سکھایا گیا ہم
مدرسے گئے تو وہاں اسلام بیزاروں سے نفرت سکھائی گئی، اعلی سکول گئے تو
وہاں ڈاڑھی والوں سے نفرت سکھائی گئی ہے کسی سیاسی لیڈر کے پیچھے چلے تواس
نے اپنے سیاسی حریف سے نفرت سکھائی گئی عسکریت پسندوں کو فالو کیا تو ہمارے
دل میں جمہوریوں کے لیے نفرت پیدا کردی گئی الغرض ہمارے گھر سے لے کر ہمارے
تنظیمی سفر تک،تنظیمی سفر سے لے کر ہرشعبہ ہائے زندگی تک ہمیں نفرت نفرت
اور نفرت ہی سکھائی گئی یہ نفرتیں یہ عداوتیں ہماری انفرادی زندگی کے لیے
تو نقصان کا باعث بنی لیکن یہ ہماری قوم کے لیے ہمارے دین کے لیے ہمارے وطن
کے لیے بھی نقصان کا باعث بنی آج ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ ہیں جو نفرت کی آگ
میں جھونک دیے گئے لیکن ہمیں نفرتوں کی آگ میں جھونکنے والے ہمارے فرقہ
پرست مولوی، ہمارے سیاستدان ہمارے جرنیل ہمارے جج آج تک زندہ ہیں اور امن
پسند زندگی گزار رہے ہیں۔ بیچ میں محبت و اخوت کا درس دینے والے کچھ لوگ
ملے لیکن ہم نفرتوں کے اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ ہم نے انہیں بھی شکوک کی
نگاہوں کے گھیرے میں لے لیا۔ اسلیے چھوڑیں اپنا مسلک، چھوڑیں اپنی جماعت
چھوڑیں اور چھوڑیں اپنی تنظیم صرف محبتیں اور پیار بانٹیں وہ بھی بغیر کسی
لالچ ،مفاد اور خود غرضی کے کیونکہ مخلوق خدا کی خدمت کرنے والا انسان اندر
سے جتنا مضبوط، مطمئن اور خوش ہوتا ہے وہ اسکی باتوں سے ہی محسوس ہوجاتا ہے
اور اس وقت اگر کسی نے عثمان بزدار کی حکومت میں ایسے لوگوں کو دیکھنا ہو
تو وہ سیکریٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور ،ایم ڈی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ
طاہر رضا ہمدانی ،ڈی جی پی آرڈاکٹر اسلم ڈوگر ،آئی جی جیل خانہ جات مرزا
شاہد سلیم بیگ،سابق آئی جی جیل اور اب بزدار کے بازو میاں فاروق نذیر،پلاک
کی ڈی جی صغراں صدف،ڈی سی ساہیوال زمان وٹو اورپولیس گروپ کے خرم شکور
ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں جو پنجاب حکومت کاصاف ستھرا چہرہ ہیں اور عوام
کی بے لوث خدمت کرنے میں مصروف ہیں ایک اور سرکاری محکمہ ہے جہاں ہر اس فرد
کو جانا پڑتا ہے جس نے ملک سے باہر سفر کرنا ہو اور اس محکمہ کے بارے میں
کسی کی بھی رائے اچھی نہیں ہوتی تھی جی ہاں پاسپورٹ دفتر جہاں ایک بار
جوگیا پھر اس شخص کے نظریات سب کے بارے میں ایک جیسے ہی ہوگئے دفتر کے باہر
بیٹھے ہوئے ایجنٹوں سے لیکر اندر افسروں تک سبھی ایک ہی جیسے محسوس ہونے
لگتے ہیں مگر لاہور کے گارڈن ٹاؤن دفتر میں بیٹھے ہوئے صرف ایک شخص جی ہاں
صرف ایک شخص نے نہ صرف محکمہ پاسپورٹ کی تاریخ بدل دی بلکہ عوام کی سہولت
کے لیے سرکار کا ایک پیسہ خرچ کیے بغیر لاکھوں روپے کی تعمیر سے نئے کاؤنٹر
،ہال اور عوام کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں لگوا دی یہ انہوں نے اپنی جیب سے
نہیں کیا بلکہ انکے خوشگوار رویہ سے متاثر ہوکر جب لوگ ان سے کسی قسم کی
خدمت کی بات کرتے ہیں تو وہ عوام کی خدمت کے لیے کہہ دیتے ہیں یہی وجہ ہے
کہ آج اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید ریاض حسین شاہ نے اپنے دفتر میں عوام کی سہولت
کے لیے بہترین سروس متعارف کروارکھی ہے اب یہاں پر کسی ایجنٹ سے لٹے اور
لائینوں میں لگے بغیر پرسکون ماحول میں پاسپورٹ بنوایا جاسکتا ہے ذاتی
مفادات پر عوامی مفادات کو ترجیح دینے والے اچھے افسران کی تعداد آٹے میں
نمک کے برابر ہے شائد انہی کی وجہ سے آج ہمارے اداروں کا اعتماد بحال ہے
ورنہ تو جو جس شاخ پر بیٹھا ہے اسے ہی کاٹ رہا ہے آخر میں اپنے پڑھنے والوں
کو بتاتا چلوں کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے نئے ججوں کی تعیناتی
کے لیے جو نام حکومت کو بھیجے تھے وہ سب کے سب فارغ ہوگئے ہیں کیونکہ ان
میں سے کسی کی بھی رپورٹ اچھی نہیں آئی اب نئے ناموں کی تلاش جاری ہے۔
|