وادیٔ سندھ کی تہذیب جسےانگریزی میں: Indus Valley
Civilizationکہتے ہیں 3300 سے 1700 قبل مسیح کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے
ایک ہے۔انڈس ویلی سویلائزیشن کے باسیوں نے ہزروں سال قبل اپنی رہائش کے لیے
پکی اینٹوں سے تعمیر کیےجانے والے مکانات کو روئے زمین پر متعارف کرایا۔
سفری اور باربرداری کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے لکڑی کے تختوں اور بلیوں
کو جوڑ کر بیلوں کی مدد سے ،بیل گاڑ ی بنائی ۔ روئی دریافت کرکے چرخے اور
کھڈی کی مدد سے کپڑا بننے کا سلسلہ بھی انہوں نے ہی شروع کیا۔سندھ کے قدیم
باشندےتعمیراتی فن میں بھی یکتا تھے اور موئن جودڑو سمیت دیگر علاقوںکے
کھنڈرات سے قدیم دور کی پرشکوہ عمارتوں کے آثار ملے ہیں۔
دیوار چین کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ یہ دنیا کاساتواں عجوبہ ہے جو چین کے
15صوبوں میں پھیلا ہوا ہے۔8851 کلومیٹر طویل اس دیوار کو تعمیر کرنے میں 17
سو سال کا عرصہ لگا تھا۔ اس دیوار کی تعمیرکا مقصد منگول حملہ آوروں
سےتحفظ کرناتھا۔ اس دیوار کی تعمیر کے دوران اینٹوں کو جوڑنے کے لیے چاول
کا آٹا استعمال کیا گیا تھااور اس کی تعمیر کے دوران 10 لاکھ مزدور ہلاک
ہوئے ۔ اس ثقافتی ورثہ کو محفوظ رکھنے اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اس
کی جناب مبذول کرانے کے لیے ہر سال اس دیوار پر میراتھن ریس منعقد ہوتی ہے
جس میں ڈھائی ہزار افراد حصہ لیتے ہیں۔
پاکستان کے باسیوں کی بڑی اکثریت اس بات سے بے خبر ہے کہ وادی سندھ میں بھی
دیوار چین کی طرح ایک عظیم دیوار موجود ہے ، جسے ’’منی دیوار چین‘‘
یا’’دیوار سندھ‘‘ کہا جاتا، یہ رنی کوٹ کے قلعہ میں واقع ہے اور اس کی
تاریخ بھی انتہائی قدیم ہے، تاریخی آثار کے ماہرین اس کے معماروں کا کھوج
لگانے اور اس کے سن تعمیر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں اب تک ناکام
ثابت ہوئےہیں۔ رنی کوٹ کا قلعہ کب اور کس طرح وجود میں آیا، محققین ابھی
تک اس بارے میں بحث و تمحیص میں مصروف ہیں۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ رنی
کوٹ، ساسانیوں کے دور کا قلعہ ہے، چند ماہرین اسے یونانیوں کی طرز تعمیر سے
مشابہہ قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رنی کوٹ کاقلعہ
836ہجری میں عرب گورنر، عمران بن موسیٰ نے تعمیر کروایاتھا۔ بعض مؤرخین
اسے تالپور حکمرانوں کا تعمیری کارنامہ قرار دیتے ہیں، جنہوں نے اسے
1812میںتعمیرکرایا تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا کہ ااس کی تعمیر رومی دور میں
ہوئی تھی۔، کچھ کا خیال ہے کہ اسےساسانی دور میںایرانی شہنشاہ سائرس اعظم
نے تعمیر کرایا تھا۔سندھ کے ایک اور محقق ایم ایچ پنہور لکھتے ہیں ”رنی کوٹ
‘‘جن پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے وہ کم از کم آٹھ کروڑ سال پرانی ہیں اور یہ
سلسلہ کوہ ، ہندوستان سے پاکستان تک پھیلا ہواہے۔افسوس ناک امر ہے کہ
یونیسکو کی جانب سے اس قلعہ کو عالمی ورثہ قرار دیئے جانے کے باوجود تاحال
رنی کوٹ پر کوئی مستند تاریخ سامنے نہیں آئی ہے۔
سندھی ادبی بورڈ کےایک رسالے میں بتایا گیا ہے کہ 1831ء میں برطانیہ کا
معروف سیاح الیگزینڈر 1831ء میں جب جامشوروکے مقام سے گزرا تو اس نے رنی
کوٹ کے قلعہ کی بھی سیر کی ۔اس قلعہ اوردیوار چین کے بعددوسری عظیم دیوار
کاسب سے پہلا تذکرہ دنیا کے سامنے اس نے ہی پیش کیا تھا۔سندھ کے نامور محقق
اور مئورخ بد ر ابڑو، ایم ایچ پنہور اور تاج صحرائی نے اپنی تاریخی تصنیف
میں لکھا ہے کہ رنی کوٹ کی دیواروں کی لمبائی 30فٹ اور چوڑائی سات فٹ ہے
جبکہ قلعہ 16 سے 30کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔قلعہ کی ایک دیوار سات
ہزار 777اور دوسری تین ہزار580 میٹر طویل ہے۔
قدیم آثار کے بعض ماہرین کا قلعہ رنی کوٹ کے بارے میں کہنا ہے کہ زمانہ
قبل از مسیح میں بھی اس قلعہ کا وجود تھا۔ اس وقت سندھ ایران کی حدود میں
شامل تھا، لیکن ان کے دعوے کےٹھوس ثبوتنہیں ملے۔معروف محقق مسٹر اے ڈبلیو
ہوزنے 1856ء میں اپنی کتاب ’ سندھ گزیٹیئر‘ میں لکھا ہےکہ رنی کوٹ کا قلعہ
سندھ کے تالپور حکمرانوں نے اپنا قیمتی اثاثہ محفوظ کرنے کے غرض سے بنوایا
ہوگا۔ سندھ کے نامور محقق ڈاکٹر نبی بخش بھی کسی حد تک مسٹر اے ڈبلیو ہیوز
کے خیالات سے متفق ہوکر لکھتے ہیں کہ قلعہ میں تحقیقی کام کے دور ان انہں
بعض ایسے شواہد ملے ہیں جن سےمعلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قلعہ تالپورحکمران
کے، وزیر نواب محمد خان لغاری نےتعمیر کرایا تھا۔تاریخی محقق عبدالجبار
جونیجو رقم طراز ہیں کہ عالمی انسائیکلو پیڈیا’’ بری ٹینیکا‘‘ کے مطابق
دنیا کا قدیم ترین قلعہ جیریکو شہرمیں تھا جو سات ہزار قبل مسیح میں بن کر
تیار ہوا ۔اس کی دیواریں21فٹ لمبی اور15 فٹ چوڑی تھیںجب کہ قلعے کی دیواریں
نو فٹ تک زیر زمین تعمیر کی گئی تھیں۔اس بارے میں عبدالجبار جونیجوکا مزید
کہنا ہے کہ رنی کوٹ اور دیوار چین بھی جیریکو شہر کے قلعے کی کڑیاں
ہیں۔سندھ کے تاریخی واقعات کے حوالے سے اہم سمجھی جانے والی کتاب ” فتح
نامہ “ کے مطابق رنی کوٹ کا قلعہ 1227سے1244ہجری بہ مطابق 1812 سے 1829 میں
تعمیر ہوا جس کی تصدیق بعد میں اے ڈبلیو ہیوز نے بھی 1876 میںشائع ہونے
والی اپنی تصنیف ”سندھ گزیٹیئر“ میں کی ہے۔
رنی کوٹ کے آثار کی بحالی پر حکومتِ سندھ کےاشتراک سے کام کرنے والی تنظیم
’’انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ‘‘ (ای ایف ٹی) کا کہنا ہے کہ رنی کوٹ کاقلعہ 32 کلومیٹر
سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی دیواریں ساڑھے 7 کلو میٹر طویل
ہیں۔ای ایف ٹی کے مطابق رنی کوٹ کا شمار دنیا کے بڑے قلعوں میں ہوتا ہے۔رنی
کوٹ پر مستند اور صحیح تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے اس عظیم شاہ کار کو
وہ مقام نہیں مل پایا جو دیوار چین سمیت دنیا کے دیگر آثارکے حصے میں آیا
ہے۔ مختلف محققین کی متضاد آراء لوگوں کو مزید پریشان کردیتی ہیں اور عام
لوگ رنی کوٹ کی تاریخ پر اعتبار ہی نہیں کر پاتے۔اس قلعہ پر تحقیق کرنے
والےسندھی محقق، بدر ابڑو اپنے مقالےمیں لکھتے ہیں کہ قلعے کی تعمیر ایک سے
زائد حکمرانوں کے ادوار میں ہوئی ہوگی۔بدر ابڑو کے مطابق مطابق رنی کوٹ کی
مضبوط دیواروں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قلعے کی تعمیر انتہائی
دشوار گزار مراحل میں کی گئی۔مختلف ادوار میں اس کی تعمیر و تزئین کی جاتی
رہی ہے ۔
فن تعمیر کے ماہرین کے تجزئیےکے مطابق، رنی کوٹ کی تعمیر میں کم سے کم 3 سے
4 ہزار مزدوروں نے کئی سال تک محنت مشقت کی ہوگی جب کہ اس وقت اس کی تکمیل
پر 12 لاکھ روپے کی لاگت آئی ہوگی جو آج کے حساب سے اربوں روپے کے برابر
ہے۔
رنی کوٹ کے نام سےمعروف اس عظیم ’’دیوارِ سندھ‘‘ یا ’’دیوار چین ثانی ‘‘ کی
خاص بات یہ بھی ہے کہ اس عظیم قلعے کے اند’ر ’میری‘‘ اور’’ شیر گڑھ کوٹ‘‘
کے نام سے مزید 2 چھوٹے قلعے بھی تعمیر کیے گئے ہیں جو اسےدنیا کے منفرد
اور عظیم قلعے کی شناخت دیتے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ شیر گڑھ قلعہ سمندر
سےتقریباً ایک ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑ کی چوٹی پر بنا ہوا ہے، جس کی
تعمیر بہ ذات خود ایک عجوبہ ہے۔ جب سیاح اسے دیکھتے ہیں تو وہ ورطہ حیرت
میں مبتلا ہوجاتے ہیںکہ اس قدر بلند ترین اور خطرناک مقام تک تعمیراتی
سامان کس طرح سے پہنچایا گیا ہوگا۔شیر گڑھ قلعہ کی ناقابل عبوربلندیوںکی
وجہ سے اس تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔کسی بیرونی حملے کی صورت
میں حکمران اپنی رعایا کے ساتھ اسی قلعہ میں پناہ لے کر محفوظ ہوجاتے تھے۔
’’میری کوٹ‘‘ کا قلعہ یہاںکی سیر کے لیے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز
ہے۔رنی کوٹ کی دیواریں نہ صرف زمین بلکہ پہاڑوں پر بھی بنی ہوئی ہیں اور
مجموعی طور پر یہ دیواریں 30 کلومیٹر کے دائرے کو محفوظ بنائے ہوئے تھیں،
تاہم گزشتہ چند سال سے قلعے کی دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہوچکا ہے۔
اس قلعہ کی سیر بھی سیاحوں کے لیےیادگارتجربہ ہوتی ہے۔ پہاڑی بلندیوں پر
عظیم الشان قلعے، دنیا کی دوسری عظیم دیوار، قلعہ کے اندر کھیت، انسانی
بستیاں، پانی کے چشمے اور دیگر عجوبے اسے ورطہ حیرت میں ڈالے رہتے ہیں۔اتنے
بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی اس دیوار پرتقریباً 18 واچ ٹاورز بھی ہیں، جن
کےمتعلق مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ ٹاورز کسی زمانے میں بیرونی حملہ آوروں
سے باخبر رہنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔، تاہم اس حوالے سے بھی کوئی مستند
شواہد موجود نہیں۔یہاں ایک ندی بھی ہے جو کافی فاصلے تک زیر زمین بہتی ہے۔
قلعے کے اندر آباد گاؤںکے افراد جن کی زندگی کا انحصار زراعت پر ہے، اپنی
فصلوں کی آبیاری اسی ندی کے پانی سے کرتے ہیں۔
قلعے کے تحفظ کے لیے آثار قدیمہ و قومی ورثہ سندھ کے ساتھ مل کر کام کرنے
والی تنظیم ای ایف ٹی کے مطابق رنی کوٹ میں داخل ہونے کے لیے ویسے تو 5
دروازے سن گیٹ ، موہن گیٹ، آمری گیٹ، شاہ بر گیٹ اور ٹوری دھوڑو گیٹ‘ ہیں،
تاہم کوٹ میں داخل ہونے کے لیے زیادہ تر ‘’سن گیٹ‘ ‘کو استعمال کیا جاتا
ہے، جسے قلعے کا مرکزی دروازہ بھی قرار دیا گیا۔قلعے کو دیکھنے کے لیے آنے
والے 98 فیصد افراد بذریعہ سڑک اسی دروازے کے راستے قلعے میں داخل ہوتے ہیں
کیونکہ یہی دروازہ مرکزی شاہراہ سے آنے والے راستے پر موجود ہے۔قلعے کے
باقی دروازے پہاڑوں سے گھرے ہوئے ہیں جنہیں ماضی میں یہاں کے باسی استعمال
کرتے تھے۔ رنی کوٹ کے اندر جہاں اونچے اونچے پہاڑ اور سرسبز کھیت ہیں، وہیں
قلعے کے اندر پانی کا چشمہ بھی موجود ہے، جسے سندھی زبان میں ’پرین جو تڑ‘
کہا جاتا ہے۔اس چشمے میں پہاڑوں کی بلندی سے پانی آتا ہے جو سال کے تمام
دن کبھی کم تو کبھی زیادہ مقدار میں بہتاہے۔یہ چشمہ قلعے کے ایسےمقام پر
موجودہے، جوچاراطراف سے 1500 سے 2000 فٹ بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔اس
چشمے کے حوالے سے بھی دل چسپ کہانیاں سننے میں آتی ہیں۔قلعہ کے اندر رہنے
والے مقامی افراد کے مطابق کسی زمانے میں اس چشمے کے اندر پریاں یا پھر
شاہی گھرانوں کی شہزادیاں آکر نہاتی تھیں، جس کی وجہ سے اس کا نام ’’پرین
جو تڑ‘‘ پڑگیا۔ مختلف ادوار میں اس کی تعمیر و تزئین کی جاتی رہی ہے ۔بعض
داستانوں میں بتایا گیا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کے دور میں یہ قلعہ جنوں کا
مسکن رہا ہے اور اس کی تعمیر بھی انہی کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔تاہم ان
داستانوں کاتذکرہ کسی مستند تاریخ میں نہیں ملا۔26 کلومیٹر رقبے پر پھیلا
ہوا یہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے، مگر اس کے باوجود حکام یہاں سیاحت کو
فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں۔
قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق یہ قلعہ سندھ کے ریلوے اسٹیشن’’سن‘‘ سے
کوٹری دادو روڈ پر 32میل کے فاصلے پرکیرتھر کی پہاڑیوں پر واقع ہے۔ اس قلعہ
کے بے شمار دروازے تھے ۔ مشرقی دروازہ سان گیٹ کہلاتا تھا ۔ اس کے سامنے
دریائے رانی واقع ہے جو سال کا بیش تر حصہ خشک ہی رہتا ہے اور صرف برسات
میں بہتا ہے ۔ اس پر کسی زمانے میں ایک مضبوط پل ہوا کرتا تھا جسے پانی کا
ریلا بہا کر لے گیا ۔ یونان کے معروف مؤرخ، کیورٹس رفس نے اپنی کتاب میں
اِس قلعے کا ذکر کیا ہے۔ اس نے تحریر کیا ہے کہ جب سکندر اعظم نے سندھ سے
گزرتے ہوئےتین روز تک اس قلعہ کا محاصرہ کیا تھا۔ سندھ کا حکم راں اپنی
رعایاسمیت اس قلعہ میں محصور ہو گیا تھا ۔ سکندر اعظم قلعہ کا دروازہ تڑوا
کر قلعہ میں داخل ہوا لیکن اہل شہر ہزار فٹ کی بلندی پر واقع شیر گڑھ کے
قلعہ میں پناہ گزین ہوگئے، جہاں تک رسائی یونانی فوج کے انتہائی دشوار گزار
تھی۔ سکندر اعظم اس مہم کوادھورا چھوڑ کر اگلی مہمات کی جانب روانہ ہوا۔یہ
واقعہ تاڑھے تین سو سال قبل مسیح کا ہے جس کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ
اس قلعہ کی تعمیر اس سے قبل ہوئی ہوگی۔ قلعہ کے کھنڈرات دیکھ کر اندازہ
ہوتا ہے کہ اس کی تعمیر کیلئے میٹریل دیگر مقامات سے لایا گیا ہوگا ۔ قلعہ
کے اندر داخل ہوتے ہی بالکل سامنے اسٹوپا نما برج ہے جو مقامی طرز تعمیر کا
نمونہ اس سے ذرا سا آگے دائیں جانب ایک مسجد کے آثار ہیں، جس سے یہاں
مسلمانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے۔اس کے مینار اور گنبد کےکچھ حصے شہید
ہوچکے ہیں ۔ 30 فٹ اونچی فصیل کے ساتھ ساتھ پہرہ داروں کے گشت کے لیے 6 فٹ
چوڑی گزرگاہ ہے۔ پہرہ داروں کے بیضوی ہیئت کے کمرے ہیں جن کے سامنے سے گزر
کر دوسرے دروازے سے کھلا حصہ آتا ہے۔ اس حصے میں ساسانی قوم کے محلات کی
طرز پر کمرہ بنا ہوا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔۔کلہوڑہ، تالپوروں
اورانگریزوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں اپنی جنگی حکمت عملی ضرورتوں اور
سہولتوں اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قلعے میں تبدیلیاں کیں جس سے
اس کی کسی حد تک شناخت متاثر ہوئی لیکنبعض مقامات پر اس کا حسن ابھر کر
سامانے آیا ہے۔ انگریزوں نے یہاں چٹانوں پر پھولوں کے نمونے تراش کر
محرابیں طاق سیڑھیاں اور دروازوں کی چوکھٹیں بنائیں۔ فصیل پر پہنچنے کے لیے
دروازے میں داخل ہونے کے بعد دائیں اور بائیں جانب پتھروں کی سیڑھیاں
بنائیں یہیں پر ایک کنواں کھدوایا گیا جو اس دور میں یخ اور میٹھے پانی سے
بھرا ہوتا تھا۔
ماہرین کے مطابق ، اس دور کےلوگوں نے چنے کی دال، چونا، بحری، ٹاٹ، شنگرف
اور دیگر اشیاء کے مصالحہ سے پتھروں کو جوڑے کا ہنر سیکھ لیا تھا ۔’’میری
قلعہ ‘‘کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے تالپور میروں نے تعمیر کرایا تھا اس
لیے ان کے نام کی مناسبت سے یہ ’’میری قلعہ ‘‘ کہلاتا ہے۔ قلعے کے مغرب کی
جانب والا گیٹ موہن گیٹ کہلاتا ہے۔ اس کے بالکل سامنے ایک وسیع میدان ہے ۔
امری گیٹ ، رنی کوٹ قلعے کی آخری حد کہلاتا ہے ۔ اس گیٹ سے داخل ہو کر اہل
علاقہ قلعہ بند ہو جایا کرتے تھے ۔ قلعے سے 40کلو میٹر کے فاصلے پر شمال
مشرقی جانب سندھ کا ایک پرانا گائوں امری ہے جو اب بھی ایک چھوٹے سے گوٹھ
کی صورت میں آباد ہے ۔ میری قلعہ مرکزی دروازے سے تقریباً 5 - 6کلومیٹر
اندر جاکر ہے۔یہ قلعہ زگ زیگ کی شکل میں ہے اور اِس کی تعمیر چونے اور پتھر
سے کی گئی تھی۔
یہ بات شبہ سے بالا تر ہے کہ قلعہ رنی کوٹ 1784ء میں حیدر آباد کے تالپور
میر خاندان کے زیر نگیں رہا ہے ۔ اس خاندان نے اِس قلعے کی ازسر نو تعمیر
کیلئے بڑی کاوشیں کی ہیں ۔لہلہاتے کھیتوں اور سنگلاخ پہاڑوں، بہتے جھرنوں
اور فطری حسن سے مالا مال سندھ میں رنی کوٹ انسانی ہاتھوں سے تعمیر کیا ہوا
ماضی کا لازوال شاہ کار جو ساحوں پرسحر طاری کر دیتا ہے۔ تاریخ کے صفحات
میں اس قلعے کا رانی کا کوٹ، موہن کوٹ اور رنی کوٹ کے نام سے تذکرہ ملتا ہے
جس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو عالمی ورثہ قرار دیتے ہوئے اسے قدیم
آثار کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔قلعہ کی فصیل کے اندر ڈائناسورز کے
فوسلز بھی ملے ہیں۔
س قلعے کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ اس کی فصیل کے اندر ایک گاؤں آباد
ہے جس میں ’’گبول‘‘ خاندان کے 500 افراد رہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ
پچھلی 7 نسلوں سے یہاں آباد ہیں اور انہیں اپنے آباؤ اجداد بتا کر گئے
تھے کہ رنی کوٹ کا قلعہ 2 ہزار سال قدیم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 7
نسلوں سے اس قلعے کی زمین ان کی ملکیت ہے اور ان کے پاس ملکیت نامے کی
دستاویزات بھی موجود ہیں۔یہاں کے باسیوں کے مطابق وہ صرف قلعے کے اندر
زرِخیز زمین اور اس جگہ کے مالک ہیں، جہاں ان کے گھر بنے ہوئے ہیں، باقی
قلعے کی دیواریں، پہاڑیاں اور قلعے کے اندر موجود مزید 2 قلعے کس کی ملکیت
ہے انہیں اس کا علم نہیں۔ ان کے مطابق مجموعی طور پر قلعے میں ان کے 40 گھر
آباد ہیں جو 30 کلومیٹر کے رقبے کے اندر پھیلے ہوئے ہیں۔تاہم گزشتہ چند
سال سے سندھ حکومت نے اس قلعے پر توجہ دی ہے اور قلعے کی دیواروں کو بحال
کرنے سمیت وہاں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں۔
کچھ عشرے قبل قلعے کی بحالی کا کام شروع ہوا تھااور یہ کام محکہ
آثارِقدیمہ پاکستان ،سندھ کلچرل ڈیپارٹمنٹ اور دادو ضلع کونسل کی زیرِ
نگرانی تھا مگر 2005میں ایک انکوائری کی صورت میں یہ معلوم ہوا کہ اِس کی
تعمیرات غیر معیاری کی جا رہی تھیں اور اس قلعہ کی بحالی کے کام میں من
پسند لوگوں کو نوازا جا رہا تھاجس کی بنا پر اِس کا کام 2006میں روک دیا
گیا۔ لیکن کچھ سال قبل اس قلعے کی بحالی اور قدیم آثار کو محفوظ رکھنے اور
ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے کافی کام کیے گئے ہیں۔
محکمہ سیاحت و ثقافت نے قلعے میں جہاں کچھ گیسٹ ہاؤسز بنوائے ہیں جب کہ
قلعے کی خستہ حال دیواروں کی مرمت کا کام کروایاگیا ہے۔اس قلعہ کو قومی
ورثہ قرار دے کراس کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جب
کہ دیوار سندھ کو دنیا کی دوسری عظیم دیوار کا رتبہ دلانے کے لیے بھی عالمی
سطح پر کاوشیں کی جانی چاہئیں۔ |