بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
تفکر، تدبر و تعقل عقلی کیفیات ہیں جبکہ وجدان، عرفان، جذباتیت قلبی کیفیات
ہیں یہ دونوں کیفیات حق و باطل کے ادراک میں معاون ہوتی ہیں۔ عقل کا تعلق
عالم مادّی کے مظاہر سے ہے جبکہ قلب کا تعلق عالم مثال کے مظاہر سے ہے۔
عقلی تفکر کی بھی قسمیں ہیں، جیسے قیاس، برہان، استدلال نیز قلبی وجدان کی
قسمیں ہیں جیسے واردات، خواب، مکاشفہ عقل جذبات کو مہمیز دینے، روکنے یا
کنٹرول کرنے کیلئے ہے، عقل صحیح و غلط، حق و باطل، کھرے اور کھوٹے کا فرق
معلوم کری ہے یہ عمل تفکر کہلاتا ہے۔ جذبات کو حق پر عمل کرنے کیلئے اعضاء
و جوارح کو لاشعوری طور پر آمادہ کردیتی ہے اور اسی طرح باطل کی شناخت کروا
کر اس پر عمل نہ کروانے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔ یہ عمل تعقل کہلاتا ہے۔
کس سے رابطہ رکھنا ہے، کس سے تعلق بنانا ہے، کس چیز شخص، جگہ، یا نام و
تصور سے جذبات کو محکم کرنا ہے کس سے نہیں یہ سب تعقل کے ذریعے معلوم کیا
جاتا ہے۔ عقل کا استعمال شعوری اور خود عقلی عمل ہے، عقل خود کے استعمال کو
جتنا زیادہ وسعت اور گہرائی کے ساتھ عمل پر آمادہ کرتی ہے اتنا ہی انسان کا
عملی دائرہ کار بڑھتا جاتا ہے، تفکر و تعقل کے ذریعے ہی انسان اپنے لئے
اہداف و مقاصد کا تعین کرتا ہے اور پھر ان اہداف کو پانے کیلئے ذرائع،
وسائل کی دستیابی، وقت و زمانے کے تعین کیلئے کوششیں اور مہمیز، جذبات کے
ذریعے عقل کے توسط سے ہی وجود پیدا کرتیں ہیں۔ فطری قوانین کا ادراک یعنی
سماجی و انسانی و طبیعی ترقی و تنزلی کے قوانین تاریخ اور تجربے کے ذریعے
عقل ہی کے توسط سے درک کیے جاتےہیں۔ طبیعیات کے قوانین بھی عقل کے ذریعے ہی
درک ہوتےہیں، ان قوانین کی روشنی میں انسان اپنے اہداف و مقاصد کا تعین
کرتا ہے۔ انسانی فطرت میں "ضمیر" نام کا احساس ہوتا ہے جس کا تعلق عالم
ملکوت سے ہوتا ہے۔ یہ عقل ہی کی ایک صفت ہے۔ اس کا کام کوالٹی کنٹرول کا
ہوتا ہے کہ تفکر کی فیکٹری سے جو مال آرہا ہے جس میں ہر طرح کی نتھری ہوئی
معلومات ہوتی ہیں، عمل یعنی اشیاء سے تعلق پیدا کرنے اور ہدف قرار دیئے
جانے کیلئے ان میں سے کس معلومات سے رابطہ رکھنا ہے اور کس سے نہیں یہ اسی
"ضمیر" کا کام ہے۔ پھر عقل کی ایک صفت ہے ارادہ جو انسان کو روکنے یا مہمیز
دینے کا جذبہ ہے۔"ضمیر" اور "ارادہ" دونوں نیم عقلی اور نیم قلبی ہیں جن کے
ذریعے مختلف اخلاقی صفات کا اکتساب و رد کیا جاتا ہے۔ ضمیر اور ارادہ کو
منظم کرنے کا عمل تدبر کہلاتا ہے۔ عموما مردوں کی غالب کیفیت عقلی ہوتی ہے
اور خواتین کی قلبی، زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کچھ میں عقلی غالبیت کا
عنصر فطری ہے جبکہ بعض شعبوں میں قلبی، جیسے ریاضیات، فلسفہ، سائنس وغیرہ
کا میں عقل کو غالب کیفیت سے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ فنون لطیفہ وغیرہ
میں قلب و جذبات کو غالب کیفیت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ عقلیت پسند اور
رومانیت پسند کی اصطلاح اسی باعث رائج ہوئی کہ غالب عنصر کے طور پر جو جس
کیفیت میں ملوث ہوتا ہے اُس کو اسی کیفیت سے نسبت دے دی جاتی ہے، حالانکہ
واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی انسان ان دونوں کیفیت کی معتدل حالت رکھے بغیر نفس
مطمئنہ نہیں پاسکتا۔ مگر انسان کی کیفیت کبھی عقلی کیفیات کی طرف جذب کی
ہوتی ہے کبھی قلبی، لہذا جب عقل کا استعمال اپنی آخری حدود کو چھونے لگے تو
عقل کے استعمال کو افراط سے بچاتے ہوئے قلبی ضروریات کو پورا کرکے جذبات کو
اور عقل کو معتدل کیا جاتا ہے اور اسی طرح جن کی غالب کیفیت قلبی ہو وہ جب
حد اکثر اور افراط کی حد تک پہنچ جائے تو عقلی امور میں ملوث کرکے دونوں
بُعد کو معتدل کیا جاتا ہے۔ دونوں ابعاد کو تفریط سے بچانے کیلئے بھی یہی
نسخہ ہے کہ اُسی بعد میں ڈوب جایا جائے۔ اس حد اکثر کو پہچاننے کا ابھی تک
کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا ہے جو عقل کے بے حد استعمال کو حد آخرتک پہنچنے سے
پہلے آگاہ کردے یا قلب کی کیفیت کو حد مرض تک جانے سے پہلے مطلع کردے۔
|