بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
ایک مسلمان کیلئے کسی طور پربھی جائز نہیں کہ وہ کسی کافر کی اقتصادی حالت
سے مرعوب ہو، غیر کے لوازمات زندگی خواہ کتنے ہی زرق و برق کیوں نہ ہوں،
کتنا ہی اُن کی دنیاوی طاقت و شوکت ارفع واعلیٰ کیوں نہ ہو، نہ تو کسی ایک
فرد مسلمان نہ ہی تمام امت ِ مسلمان کو کفار سے دبنے اور زیر اثر آنے کی
ضرورت ہے۔البتہ اسلام مسلمانوں کو جس چیز میں مقابلہ کی دعوت دیتا ہے وہ
ایک دوسرے کا تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔ کفار اپنی مادّی شان وشوکت کو ہی
اپنے حق پر ہونے کی دلیل گردانتے ہیں، اِن کے نزدیک انسان کی کرامت اور
بزرگواری اس میں ہے کہ اُس کے پاس کتنا مال ودولت ہے ، کتنے لوگ اس کے دست
نگر ہیں، کتنا اسلحہ اس کے پاس ہے نیز اُس کے پاس علم کتنا ہے۔البتہ کفار
علمی طاقت کو باطل کے مفاد کیلئے ،انسان کا استحصال کرنے میں زیادہ استعمال
کرتے ہیں۔
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ
كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا
وَأَحْسَنُ نَدِيًّا
اِن(کافر) لوگوں کو جب ہماری کھُلی کھُلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار
کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں "بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون
بہتر (اقتصادی)حالت میں ہے اور کس کی (سماجی) مجلسیں/محفلیں زیادہ شاندار
ہیں؟"
(سورہ مریم/73)
ضرورت کو ایجاد کرنا یا جو ضروری ہے اس کو حاصل کرنے کی را ہ دینا، اشیائے
صرف کی تیاری اور ان اشیاءکیلئے دنیا کوصرف ایک تجارتی منڈی سمجھنا
،انسانوں کو مزدور یا صارف گرداننا۔دُنیا کے قدرتی ذرائع پربہانے بازیوں سے
قبضہ کرنا،اخلاقیات و سچےمذاہب کی معنوی اقدار کو دقیانوسی و بیک ورڈ
گرداننا، جعلی مذاہب کی ترویج کے ذریعےاور قدرتی اجناس و معدنیات کوکاغذی
کرنسی سے فضیلت دینا اس سازش کا شکار ہوگیا جس میں انسانی معاشرے کے چند
سرمایہ پرست اشراف اور دنیا پرست کاہل دین فروشوں نے عبودیت کا سودا دنیا
کے زرق و برق مدہوش لذت سے کرلیا اور یہ چند لوگوں کے اعمال ہیں جومجموعی
طور پردنیا کےتمام انسانوں کومعاشی استحصال کی طرف لے گئےنیز انسان کی
کرامت و شرافت کو داغ دار کرکے دنیا کے معاشرے کو زبون حالی کی طرف دھکیل
دیا۔ایسے اشراف کی مثال یہ ہے کہ یہ اپنے مال و دولت پر اکٹرتے ہیں اور
کمزوروں کو اہمیت نہیں دیتے اور پست اور گھٹیا تصور کرتے ہیں۔
قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ
تَنكِصُونَ ۔ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ۔
جب ہماری آیتیں تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو تم الٹے پاؤں واپس چلے
جارہے تھے ۔اکڑتے ہوئے اور کہانیاں کہتے اور بکتے ہوئے۔(سورہ مومنون/66،67)
استحصال کرنے والا استعمار/استکبار قانون فطرت(اسلام) کو اپنی ناجائز مطلب
برآری کیلئے استعمال کرتا ہے، علوم پر دسترس رکھتا ہے مگر روزِ جزا وسزا کا
انکار کرکے خدا کا انکار کرتا ہے اور پھر حقدار کو اُس کا حق نہیں دیتا اور
دنیاوی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی یعنی روزگار معیشت و اقتصادیات پر قبضہ کرکے
دنیا کو محکوم و غلام بنانے اور اپنے لئے آسائشات زندگی مہیاکرنے کی غرض سے
سیاسی نظاموں، تعلیمی نظاموں، ثقافتوں کودھوکہ اور لالچ کے ذریعے مجروح
کرتا ہے، زور زبردستی سے بغیر کسی منطق و گفتگو کے اپنے فیصلے جبراََنافذ
کرنے کی کوشش کرتاہے۔صرف اپنی تجارتی منڈیوں کی وسعت اور زیادہ سے زیادہ
منافع کمانے کی غرض سے ثقافت و تمدن کے حریم ِ عفت و پاکدامنی کوفحشاء کے
ذریعے مسموم داغدار کرتا ہے، انسانی ضمیر کو خود غرضی کی راہ پر چلانے
کیلئے ابلاغ عامہ، تعلیمی نظاموں اور سیاسی و عسکری، اقتصادی نظاموں کے
سرکردہ افرادمیں سے پست فطرت نفوس کو خریدتا ہےاورمستقل دہشت و ناامنی کی
فضا کے ذریعے ذہنی خلفشار میں مبتلا کرتا ہے اور معاشرہ ہائےانسانی کے
شعبوں میں ایسے ہی پست فطرت انسان نما شیطانوں کو سبز باغ دکھا کر غیرت و
حمیت، رحمدلی و انکساری اور حتی الامکان نیک فطرت کو دنیاوی چکاچوند میں
مبتلا کرکے روز جزا و سزا کا تصور، خدا پر ایمان اور حقدار کو حق دلانے میں
بے ایمانی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔ایسے مستکبروں کے مدمقابل مسلمانوں کا
رویہ بہت واضح ہے۔ ارشاد رب العزّت ہے: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد
تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ
وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا
انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔دین میں کسی طرح کا جبر
نہیں ہے. ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے. اب جو شخص بھی طاغوت کا
انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے جس
کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے اور خدا سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے۔(سورہ بقرہ
/256)
استکبار اپنے اسی اقتصادی مفادکی خاطرگمراہ /باطل نظریات کو علمی حیثیت
دلانے کی کوشش میں اپنا وقت ، پیسہ خرچ کرتا ہے، عملی زحمت کرتا ہے ۔دنیا
کے قدرتی وسائل سے بھرپور خطوں میں کبھی حقوق انسانی کے بہانے، کبھی خواتین
کی آزادی کے بہانے،کبھی جمہوریت کے بہانے، کبھی امن و امان و دہشتگردی سے
نمٹنے کے بہانے (جس کو خود کاشت کرتا ہے) اِن خطوں میں مداخلت استعمار کا
روز کا معمول ہے۔ تاکہ سیاسی چپقلشیں پیدا کی جائیں اور مستقل دھشت و ناامی
کے ذریعے خاص مطلوبہ نفسیاتی فضا پیدا کرکے سیاسی فوائد لیکر اپنا اقتصادی
مفاد کا الو سیدھا کیا جائے۔
هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ
اللَّـهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا ۗ وَلِلَّـهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ
وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ
یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ(اسلامی رہبر) کے ساتھیوں پر کچھ
خرچ نہ کرو تاکہ اِن لوگوں کی صفیں منتشر ہوجائیں حالانکہ آسمان و زمین کے
سارے خزانے اللہ ہی کے لئے ہیں اور یہ منافقین اس بات کو نہیں سمجھ رہے
ہیں۔(سورہ منافقون/7)
مومن کی پوری زندگی کو ہائی الرٹ رہنے کی نصیحت خدا نے اسی وجہ سے کی ہے
تاکہ انہی شیطانوں کی معاشی سازشوں سے انسانی معاشرہ کی ریڑھ کی ہڈی کو
بچایا جائے ! یہ شیطان کے پجاری اپنے پاس مال و دولت اکھٹا کرکے کمزور
ایمان مسلمانوں کی خریدنا چاہتے ہیں اور اِن کے قلوب کو دنیاوی چکاچوند سے
متاثر کرکے ارادہ رکھتے ہیں کہ ایمان والے ایمان چھوڑ دیں اور دولت کی
پیداوار میں ان کا ساتھ دیں۔
وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا
تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ
اللَّـهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ
وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
یہ منافقین چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ہوجاؤ اور سب برابر ہوجائیں
تو خبردار تم انہیں اپنا دوست نہ بنانا جب تک راہِ خدا میں ہجرت نہ کریں
پھر یہ انحراف کریں تو انہیں گرفتار کرلو اور جہاں پا جاؤ قتل کردو اور خبر
دار ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہ بنانا۔(سورہ نساء/89)
مذکورہ بالا تصویر میں شیطان کے دُنیا پر تسلط کو واضح کیا گیاہے۔یہ شیطان
انسانی شکلوں میں دنیا کے معاشروں میں مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں نیز ان
کا مقصد دنیا وی لذّات اور آسائشوں کا حصول ہوتا ہے اس مورد میں یہ مخلوقات
کسی مروت اور انکساری اور حق و باطل کی تمیز کیے بغیر اپنے مقاصد کے حصول
کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔
مذہبی نکتہ نگاہ سے دنیا سے بے رغبتی یا زہد کا مطلب منفی جذبات پر مبنی
دنیا پرستی ہے نہ کے تعمیری و تخلیقی و مثبت میدانوں میں انسان کو خدمت
کرنے سے منع کیا گیا ہے ! اور زن، زر، زمین سے اسی طرح ہشیار رہنے کو کہا
گیا ہے جیسے بل کھاتے ناگ سے !یعنی ان سب کے تعمیری و تخلیقی پہلو موجود
ہیں تاکہ ان پہلووں پر توجہ کرکے انسان زن، زر، زمین کی فطری خواہشات کو
مثبت طریقے سے ہی حاصل کرے اور اُس حلال میں بھی تجاوز نہ کرے کہ زندگی کے
اہم منصوبے غیر اہم حرکات کی نظر ہوجائیں۔
امام علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں: دنیا و آخرت کی بھلائی دوخصلتوں میں
ہے، دولت مندی اور پرہیزگاری۔
(شرح ابن ابی الحدید 20/301)
اور چونکہ اقتصاد، جوانسان کے زن و زمین کا مالک بننے یا نہ بننے میں اہم
کردار کرتی ہے ، اس معاملے میں عالمی معاشرے کی زندگی کے تمام شعبہ جات
سمیت ، بنیادی شعبوںمیں (تعلیم، سیاست، ثقافت، معاشرت) میں دشمن یعنی
استحصال پسند اور معاشی ضرورتوں کو اپنے پاس محدود کرلینے والے غیر عادلانہ
و غیر منصفانہ سوچ کے حامل فرعونوں اور ان کے چیلے چانٹوں سے ہشیار رہنے کی
ضرورت ہے اور ان کے منصوبوں کو اپنے علم و عمل سے خشک کرتے رہنے میں ہی
فردی و معاشرتی نیز دنیوی و اُ خروی سعادت ہے۔ پھر دوسری طرف ان تمام شعبہ
جات زندگی میں ترقی و خلاقیت و معماری کے ساتھ پرہیز گاری اور تقوے کے ساتھ
روبہ عمل رہنا چاہیے اورصرف منفیات یعنی کفّار کی دشمنی اور سازش کے
الزامات میں گم ہوجانےکے بجائے مسلمان سماج میں موجود منافقین یعنی کالی
بھیڑوں کو بھی پہچاننا چاہیےنیز اپنی ذات کا بھی اسی طرح محاسبہ کرنا چاہیے
جیسے لین دین کے موقع پر فریق مخالف سے کرتے ہیں۔ ان سب ترقیوں کو انسان کی
فلاح و بہبود کیلئے وقف کردینا ایک دنیاوی اور معنوی ترقی کافطری دروازہ
ہے۔جب تک ایمان والے فنون کے ماہرین نہ بنیں گے اور جدید علوم سے لیس نہیں
ہوں گے اُس وقت تک معاشی طاقتوں کے دست نگر بنے رہیں گے۔ اپنے آپ کو اس
جذبہ سے کہ "ہم کرسکتے ہیں" عمل کی میدان میں آجانا چاہیےاور خود کو یا امت
کو کسی طور پر بھی کمتر اور حقیر نہ سمجھنا چاہیے، دشمن بھی غفلت یا سادہ
لوحی میں وار کرتا ہے جب ایمان والے خود تعلیم، معیشت، ثقافت انسانی رابطوں
میں مستحکم ہوں گے اور سادہ گذر بسر کرنے والے دیانت دار بالغ نظر و با
شعور سیاسی راہنما کی اطاعت کریں گے تو تمام نظام درستگی کی طرف چل پڑیں
گے۔اگر ایمان والےسیاسی رہبری میں خدا کی پسند کے بجائے اپنی پسند نافذ
کریں گے تو دنیا کے نظام الٹ پلٹ جائیں گے اور پھر نہ سماج میں امن و امان
رہے گا نہ ہی دیانت داری نہ ہی حق و باطل میں تمیز، گناہ و زیادتی عام ہوگی
اور ظلم کا دور دورا ہوگا، جیسے کہ آج کی دنیا میں ہورہا ہے۔
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا
اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم
نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے (معاشرہ کے مسائل کے حل کیلئے)
راہنمائی کرتے تھے ۔(سورہ سجدہ/24)
ہر دور کے فرعونوں، نمرودوں، یزیدیوں، ابوسفیانیوں نے اپنی تمام شیطنت کے
ساتھ اپنی اقتصادی حالت کو ہر ناجائز طریقے سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اگر
یہ سیاست میں بھی آئے تو مقصد اقتصادی، اگر دینی رہنما کی شکل حاصل کی تو
اس کے پیچھے بھی اسی اقتصاد ی خواہش کا عمل دخل، اگر جنگ کی تو اس کا مقصد
بھی حکومتوں کو دوام دینا اور اپنی اقتصادی حالت کی بہتری، مگر گمراہ
پروپیگنڈے اور باطل کی روش پر چلتے ہوئے۔ جبکہ دوسری طرف خالص اسلامی
راہنماؤں کا طرز زندگی جس میں اپنے گھر میں روٹی نہ ہو مگر کوئی بھائی
بھوکا نہ رہے، اپنے تن پر پیوند زدہ کپڑا ہو مگر بھائی کے پاس اچھا لباس ہو
، ایسی مثالیں ہیں جوانسانیت کے ہمدردوں کےدرمیان میں منافقوں کی شناخت
واضح کردیتی ہیں۔
فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ
اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ
أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ
(اے ایمان والو)تمھیں ان (کفار و منافقین )کے اموال اور اولاد حیرت میں نہ
ڈال دیں بس اللہ کاارادہ یہی ہے کہ اسی(سنبھلی ہوئی حالت) کے ذریعہ ان پر
زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے۔(سورہ
توبہ/55)
باطل کی روش آج بھی اسی فرعون، نمرود، یزید و ابوسفیان و معاویہ کی روش ہے
، جس نے حق کا لبادہ صرف اوڑھا ہے حق کو قلب و روح میں جگہ نہیں دی ہے تاکہ
وہی اپنی معاشی و اقتصادی ہوس یا اپنی دیگر دنیاوی و نفسیاتی تسکین ہر
ناجائز طریقے سے کرے، مذہب کا لبادہ اوڑھ کر شیطان کی پرستش کرتے ہیں اور
ایمان والوں کو اپنی ظاہری مذہبیت سے دھوکہ دے کر دنیاوی لذّات طلب
کرتےہیں۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا
وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّـهَ
وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا
الْحُسْنَىٰ ۖوَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ۔ اور جن لوگوں نے
مسجد ضرار بنائی کہ اس کے ذریعہ اسلام کو نقصان پہنچائیں اور کفر کو تقویت
بخشیں اور مومنین کے درمیان اختلاف پیدا کرائیں اور پہلے سے خدا و رسول سے
جنگ کرنے والوں کے لئے پناہ گاہ تیار کریں وہ بھی منافقین ہی ہیں اور یہ
قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے صرف نیکی کے لئے مسجد بنائی ہے حالانکہ یہ خدا
گواہی دیتا ہے کہ یہ سب جھوٹے ہی۔(سورہ توبہ/107)
مسلم معاشرے میں منافق نما افراد جو مسلمانوں کا روپ دھار کر نمازیں پڑھتے
یا دیگر عبادات کی شکل اپنائے ہیں مگر اپنی جہالت کے باعث اسلام کی تعلیمات
و نظام کو سمجھے بغیر یہ یقین رکھتے ہیں کہ اُن کی نمازیں یا عبادات اُن کو
ترقی کی منزل پر لیجائیں گی،قرآن مجید اُن کی اس سوچ و فکر کی تصیح کیلئے
انہیں سمجھاتا ہے کہ: أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ۔ فَذَٰلِكَ
الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ۔ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ۔
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ۔ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ۔
الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ۔ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ " کیا تم نے اس شخص
کو دیکھا ہے جو قیامت کے روز کو جھٹلاتا ہے۔ یہ وہی بدبخت ہے جو یتیم کو
دھکے دیتا ہے۔ اور کسی مسکین کو کھانے کھلانے کیلئے تیار نہیں کرتا۔ تو
تباہی ہے ایسے نمازیوں کیلئے۔ جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔ دکھانے
(نفاق)کیلئے عمل کرتے ہیں۔ اور معمولی ظروف بھی عاریتاََ دینے سے انکار
کردیتے ہیں۔"(سورۂ ماعون)
کم قناعت کرنے والوں کیلئے اور ہر آسائش پر دم نکلتے اور غیروں کی طرف
جھکنے والے مسلمان نما کافر یعنی منافقین کے بارے میں قرآن کریم صراحت کے
ساتھ بیان کرتا ہے: فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ
فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّـهُ
أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ
مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ
" پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دو ڑ کر
ان (مشرک و کافر ٹولوں ) کی طرف جارہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ
ہمیں گردش زمانہ کا خوف ہے، پس عنقریب خدا اپنی طرف سے فتح یا کوئی دوسرا
امر لے آئے گا تو یہ اپنے دل کے چھپائے ہوئے پر پشیمان ہونگے۔" ( سورۂ
مائدہ /52)
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ
يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا
هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا
کیا آپ ﷺنے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں (آسمانی) کتاب کا حصہ دیا گیا ہے
(پھر بھی وہ اپنی کم عقلی کی بنا پر ) بتوں اور شیطان پر ایمان رکھتے ہیں
اور کافروں (کی دنیاوی ترقی دیکھ کر اُن کے) بارے میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں
کی نسبت یہ (کافر) زیادہ سیدھی راہ پر ہیں۔(سورہ نساء/51)
یہ دونوں آیات ہیں جن میں پہلی میں تومستقبل میں اُخروی ذلت سے ڈرایا جارہا
ہے او ردوسری طرف اس دنیا میں بھی یہ افراد جو معاش کی خاطر کمزوری دکھاتے
ہیں ، ان کی نفسیاتی کیفیت سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ یہ دونوں آیات سیاسی بھی
ہیں اور معاشی بھی اور عبادی بھی ہیں۔ ایک طرف نمازیوں اور مومنین کی آپس
میں اخوت و بھائی چارگی کے فروغ کا باعث ہیں اور اس مقابل فطرت کے باغی و
غیر منطقی دشمن کی طرف ضرورت کی خاطر جھکنے سے خود کو محفوظ کرنا یہ خود
ایک سیاسی عمل ہے اور معاشی بھی۔یعنی فردی سیاسی ذہن مستبقل میں اپنے اور
اپنے ایمانی بھائیوں کیلئے اچھے معاشی نظام کی تکمیل کرتا ہے اور اس پورے
عمل کے دوران یہ اطمینان کہ یہ عبادت ہے خود فرد کو نفس مطمئنہ عطا کرتا
ہے۔
مضبوط انفرادی معیشت کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں عادلانہ نظام حکومت قائم ہو
تاکہ اس کے پر برکت اثرات کی وجہ سے ایک جامع اور مضبوط قومی معیشت و
اقتصاد ی نظام بھی دیگر نظاموں کے ساتھ افراد معاشرہ کی بنیادی ضرورتوں سے
لیکر ان کی معنوی و روحانی ضروتوں کیلئے بھی زمینہ فراہم کرے۔کفارسے معاشی
وابستگی ، در اصل چندبنیادی شعبوں (سیاست و اقتصاد)کے ذمہ داران کی احمقانہ
وابستگی ہوتی ہے جو بطورِ مستقبل قریب میں تو شاید ان کیلئے فائدہ مند ہو
مگر مستقبل بعید میں نہ صرف ان کیلئے بلکہ قوم کی بھی بے بصیرتی اور عملی
اقدامات سے دوری اور حکام کو نصیحت و تادیب نہ کرنے کے جرم میں خطرناک
نتائج کی حامل ہوتی ہے۔
آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے ان کی زندگیوں کو ایک مثبت اور جامع ہدف دینا
اور معاشی وسائل کے ذریعے جو آج کے صنعتی دور کی ضرورت ہے، ہمارا بنیادی
مقصد ہونا چاہیے اور خودہماری بھی روح جواس جسم میں قید ہے ہم کو اپنے آپ
کو بھی حدود و قیود اخلاقی میں قید رکھنا چاہیے کیوں کہ یہی اس دنیا کی
زندگی کی فطرت ہے۔فقیری اور امیری دو متضاد کیفیات ہیں اور ان دونوں
کیفیتوں کو خدا تعالیٰ نے انسان کیلئے آزمائش قرار دیا ہے۔
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ
الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں
کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ۔(سورہ بقرہ/155)
آزمائش خدا کی طرف سے نعمت ہے اُن افراد کیلئے جو عقل و فہم کھو بیٹھتے ہیں
خواہ امیری میں یا غریبی میں، یہ آزمائشیں انسان کو جگانے کیلئے ہوتی ہیں،
غفلت سے بیدارکرنے کے واسطے ہوتی ہیں۔
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ
أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
جو کچھ سر و سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ
اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔(سورہ کہف /7)
اور عقل و فہم یعنی صحیح غلط، فائدہ اور بے فائدہ کاموں کی شناخت اُسی قوم
یا شخص کی کم ہوجاتی ہے جس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ
فُرْقَانًا
اے ایمان والو اگر تم تقوائے الٰہی اختیار کرو۔ تو خدا تمہیں حق و باطل میں
تفرقہ کرنے کی قوت و صلاحیت عطا فرمائے گا۔(سورہ انفال/29)
نیز ایک ایمان والا پورے اقتصادی نظام کی اکائی ہے، اور سب کوچاہیے کہ
مسلمان سماج کی ترقی کیلئے جانفشانی سے محنت کریں اور فردی معیشت کی بہتری
کے ساتھ اسلامی معاشرے کےمحروم افراد کا معاشی تعاون جاری رکھیں، بعض دفعہ
انسان کے پاس منصوبے ہوتےہیں مگر سرمایہ نہ ہونے کے باعث فقیر ہوتا ہے یا
پھر پسند کے شعبے کا فنّی علم نہیں ہوتا، ایمان والوں کو کاہلی ، سستی، عیش
کوشی اور آرام طلبی سے دور رہنا چاہیے اور حلال رزق کیلئے ہمیشہ کڑی جدوجہد
پر یقین رکھنا چاہیے کیونکہ جو دولت بغیر محنت اور کوشش کے حاصل ہوتی ہے
اوّل تو اُس کا استعمال ہی حرام ہے اور دوسرے ایسی دولت جلدہی ختم بھی
ہوجاتی ہے اسلیئے شارٹ کٹ سے ہمیشہ بچنا چاہیے اور ترقی کی سیڑھی کو قدم
بقدم چڑھنا ہی استقلال اور دوام کا باعث ہوتا ہے۔جدید فنون و ہنر اور تعلیم
نیز تحقیقی عمل کےساتھ اخلاق و پرہیزگاری انسان پر رزق کے دروازے کھول دیتا
ہےاور روزگار معیشت کے ساتھ تمام سماج سنبھل جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی حلال
ہی سہی مگر انسان کو میانہ روی اختیار کرنا چاہیے اور دولت کی ہوس نہیں
کرنی چاہیے نیز فضول خرچی سے بچنا بھی فردی اور سماجی معیشت کو استحکام کا
باعث ہوتا ہے۔
لَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ۔فضول خرچی نہ کیا
کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورہ انعام/141)
معاشرہ میں کرپشن، چوری، رہزنی وغیرہ جیسے جرائم اُسی وقت وجود میں آتے ہیں
جب کوئی ایک معاشرتی طبقہ اپنی ضرورت سے زیادہ دولت اپنے پاس جمع کرلیتا ہے
اور پورے نظام میں دولت کا ارتکاز نہ ہونا معاشرے کے دوسرے افراد پر رزق کے
دروازے بند کردیتا ہے اور نتیجتا محروم افراد اپنی ضروریات کیلئے جرائم
کا/گناہوں کا ارتکاب کربیٹھتےہیں۔اسی وجہ سے خداوند تعالیٰ نے مالداروں پر
ٹیکس لگا کر ایسے محروموں اور مستضعفوں کیلئے صدقہ، خیرات جیسے قوانین
سےمعاشرے کی ضروریات کا سد باب کرنا چاہا ہے۔
امام علی:اعمل لدنياك كأنّك تعيش أبدا و اعمل لآخرتك كأنّك تموت غدا
اپنی دنیا کے لئے ایسے کام کرو جیسے یہاں ہمیشہ رہنا ہے اور اپنی اخرت
کیلئے ایسے کوشش و محنت کرو جیسے کل ہی اس دنیا کو چھوڑ جانا
ہے۔(بحارالانوار(ط - بیروت) ج 44 ، ص 139)
تاریخ میں ایسے افراد کو قرآن ِکریم نے اشارہ کیا ہے جو اپنی اقتصادی حالت
میں آزمائش کے دور سے گزرے لیکن اس امتحان میں فیل ہوگئے۔
لَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ
شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً
فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ
جب انہوں نے اس (حق کی )نصیحت کو فراموش کردیا جو ان سے (معاشی عدل کے
متعلق )کی گئی تھی تو ہم نے (انہیں اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے) ان پر ہر
چیز (کی فراوانی) کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں (کی
لذتوں اور راحتوں) سے خوب خوش ہو (کر مدہوش ہو )گئے جو انہیں دی گئی تھیں
تو ہم نے اچانک انہیں (عذاب میں) پکڑ لیا تو اس وقت وہ مایوس ہوکر رہ
گئے۔(سورہ انعام/44)
آخر میں امام سجاد علیہ السلام کی صحیفہ ٔ سجادیہ کی مکارم اخلاق کے حوالے
سے کی گئ دعا سے اقتباسات پیش کرتے ہیں: " خدایا ! محمد و آل محمد پر رحمت
نازل فرما اور میری آبرو کو مالداری کے ذریعے محفوظ کردے اور میری منزلت کو
غربت کی بنا پر گرا نہ دینا کہ تیرے طلبگاروں سے رزق طلب کرنے لگوں اور
تیری بدترین مخلوقات کے سامنے ہاتھ پھیلادوں اور پھر اس فتنہ میں مبتلا
ہوجاؤں کہ جو دیدے اس کی تعریف کرنے لگوں اور جو نہ دے اس کی مذمت میں لگ
جاؤں۔ جب کہ تو تنہا ہر عطا کا مالک ہے اور کوئی دوسرا ایسا نہیں۔"
"خدایا ! محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور میرے وسیع ترین رزق کو میرے
بڑھاپے میں عطا فرما اور قوی ترین قوت کو عاجزی کے دور میں مرحمت فرما۔
مجھے عبادت کی کسلمندی میں مبتلا نہ کرنا اور اپنے راہ حق سے اندھا نہ بننے
دینا اور اپنی محبت کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنے دینا۔ جو تیرے ساتھ ہیں ان
سے الگ نہ ہونے پاؤں اور جو تجھ سے الگ ہوجائیں ان کےساتھ نہ رہنے پاؤں۔"
تحریر : سید جہانزیب عابدی
16 جمادی الاولیٰ، 1433 ھجری قمری/ کراچی
|