ہائے یہ مہنگائی!

(ماریہ سلیم)

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں ، میرے لوگ مر رہے ہیں
حال ہی میں پاکستان کے حالات کچھ ایسے ہوگئے ہیں کہ برینڈڈ سٹورز کی تعداد میں ایسا اضافہ ہوا کہ اینٹ اٹھائیں تو نیچے سے ایک نت نیا برینڈ نمودار ہوتا ہے۔ بیوٹی پارلر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا کہ ایک بیوٹی پارلر کریانہ فروش کی دکان کے اوپر بنا تو دوسرے اس کے نیچے۔ اب شاید حکومت سے لاچار شہروں کے لیے کچھ اقدامات کا سوچا اور برینڈڈ ملبوسات، بیوٹی پارلر اور ایک کی اشیاء پر ایسا بھاری ٹیکس لگا یا کہ خواتین برینڈڈ ملبوسات لینے کا اور بیوٹی پارلر جانے کا خواب میں بھی نی سوچ سکیں معلوم پڑا کہ یہ خبر سن کر جو خواتین کی چیخیں نکلی تھی۔ اس سے دیوارِ چین میں بھی درزیں پڑگئی ہیں۔ جو آج کل زیرِ مرمت ہیں۔ پر کیا مرد حضرات کو کچھ افاقہ بھی ہوا؟

دن بھر محنت مزدوری کر کے جو ایک صاحب اپنے گھر کے دروازے تک پہنچے تو اپنی ساس کو کھانا بناتے دیکھ کر بولے ’’ماں! آپ کب آئیں؟ آپ نے مجھے کہہ دیا ہوتا، میں آپ کو لے آتا۔‘‘ مگر حقیقت نے ایسا رخ موڑا کہ وہ ساس کے روپ میں جسے عقیدت دے رہا تھا، تڑپ کر بولی، ’’ہوش کے ناخن لو میاں! میں تمہاری بیوی ہوں!‘‘

کہیں برسوں کی ازدواجی زندگی کو تھیس لگی، تو کہیں بچے ماں کو بن میک آپ دیکھ کر گھبرا گئے۔ یہاں تک کہ ایک عورت جو خود کو شیشے میں دیکھ بیٹھی ہے، اس گمان پر مستحکم ہے کہ اس پر چڑیل کا سایہ ہے۔

جن صاحبان کی شادی ہو چکی ہے ان کی تو چڑیا کھیت چگ چکی ہے۔ پر جو قسمت والے ابھی بھی کنوارے ہیں کافی خوش معلوم ہوتے ہیں کہ ان کو میک آپ کے لبادے میں خوبصورتی کا جھانسا نہیں ملے گا۔ وہ یاروں کا یار جو ہر دوست کی شادی سے پہلے بھابھی کا منہ دھلوا کر دیکھنے یا پاوں سے اس کے اصل رنگ کا اندازہ لگا لینے کا مشورہ دیتا تھا، آج کل چپ چاپ اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔

یہ بناو سنگھار پر ٹیکس کا ایٹم نم جہاں خواتین کی خوشیوں کے شہر پر آ گرا، وہاں اکثر مرد حضرات کے سر پر جوں تک نہ رینگی اور اگر جوں نے تھوڑی بہت حل چل بھی کی تو اسے نکال کر باہر پھینک دیا۔ البتہ وہ ایک چوہا جو رہ گیا تھا باقی، جسے ملی تھی بیوی بہت لڑاکی، اس شہر کی بربادی کی زد میں آگیا۔ نخریلی بیوی کے ناز و نخرے، سجنے سنورنے اور بناؤ سنگھار کی عادت کے سامنے اس کی ایک نہ چلی اور یوں ہوئی اس بربادی۔ اب کرسی پر بیٹھا سوچتا ہے،
کبھی رحمتیں تھیں نازل اس خطہ زمیں پر
وہی خطہ زمین ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

مذاق ایک طرف اب آتے ہیں اصل حقیقت پر۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس معاملے پر نظرِ ثانی کریں، تاکہ جس وجودِ زن سی ہے تصویرِ کائنات میں رنگ وہ رنگ پھیکے نہ پڑیں۔مزید یہ کہ ان خواتین کا کیا جن کی یہ واحد آمدن کا ذریعہ تھا۔ جہاں لمبی لمبی قطاریں سیلون میں ہوتی تھیں ان ایک دو خواتین ہی دکھائی دیتی ہیں۔وہ بیوہ خواتین جنہوں نے اس آمدن سے گھر چلانا تھا، اب اس کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ عورت جس کا شاہر کمانے لائق نہیں ہے وہ اب اپنا گھر کیسے چلائے گی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آنیوالی عید میں خواتیں میک آپ نہ کر سکیں گی۔

ایک پارلر جہاں تیزان سے متاثرہ خواتین کام کرتی ہیں۔ انکی واحد آمدن کا ذریعہ جو تھا وہ بھی متاثر ہو گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان خواتین کو روزی کمانے کا یہی واحد ذریعہ ملاہے۔ آخر میں اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ ان کے حالات کو مدِ نظر رکھ کر ٹیکس کی شرح میں رعایت برتیں۔
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 48 Articles with 34093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.