غربت ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔اسلام غربت، محتاجی اور فقر کی
حوصلہ شکنی کرتا ہے جبکہ غنٰی، خوشحالی اور مالداری کی حوصلہ افزائی کرتا
ہے۔فقر سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مالداری اللہ کی نعمت
ہےاور اللہ تعالی اس سے بندوں کو نوازتا ہے اور اس پر شکر بجا لانے کا حکم
دیتا ہے۔
قرآن و حدیث میں بار بار انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فقر کی جگہ غنی کو مقام مدح و احسان میں ذکر
فرمایا ہے اور اس پر شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے۔چنانچہ فرمان باری تعالی
ہے۔
"اور تجھے نادار پاکر تونگر نہیں بنادیا؟"
پھر آگے فرمایا: "اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔"
غربت کی وجہ سے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر بھیانک قسم کے اثرات
ظاہر ہوتے ہیں۔کبھی یہ انسان کو اسکے عقیدہ سے محروم کردیتی ہےاور کبھی
اپنے خالق، مالک اور رازق کی بغاوت پر بھی آمادہ کر دیتی ہے۔کسی بزرگ کا
قول ہے۔"جب فقر کسی شہر میں داخل ہوتا ہے، تو کفر اسے کہتا ہے، مجھے بھی
اپنے ساتھ لے جا"۔
اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قریب ہے کہ فقر انسان کو
کفر میں مبتلا کردے"۔
غربت انسان کے اخلاق، رویے، فکر اور رہن سہن پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں درج ذیل دعا مانگتے تھے۔
’’ اے اللہ! میں عذاب قبر اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں ،
میں موت و حیات کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ ! میں گناہ اور
قرض سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
عرض کیا : آپ قرض سے اس قدر کیوں پناہ طلب کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا:’’کیونکہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو وہ بات کرتے
ہوئے جھوٹ بولتا ہے، اور جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ غریبی انسان کے طور اطوار اور رویے پر براہ راست
اثرانداز ہوتی ہے۔
غربت انسان کی سوچ ،فکر اور اور ذہن پر بھی بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قاضی دو آدمیوں کے درمیان غصے کی حالت
میں فیصلہ نہ کرے"۔
علماء نے اس حدیث میں غصے کی حالت سے تینتیس (33) مختلف حالتیں مراد لی
ہیں، ان میں سے ایک شدید بھوک بھی ہے جو انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت
پر بہت حد تک اثر انداز ہوتی ہے اور اس کی فکر میں بےیقینی اور اضطراب پیدا
کرتی ہے۔
دانا لوگوں سے منقول ہے کہ اس شخص سے مشور طلب نہ کرو جس کے گھر میں کھانے
کو کچھ نہ ہو۔کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ مشورہ دیتے ہوئے اپنی معاشی
ضرورت کو سامنے رکھے اور مسلمان بھائی کے مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دے یا
بھوک اور افلاس کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو اور درست
مشورہ نہ دے سکے۔
معاشی ابتری انسان کو گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے پر بھی مجبور کردیتی ہے اور
انسان اپنی اولاد بلکہ اپنے آپکو بھی قتل کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ قرآن پاک
میں ہے۔
"اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث ، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق
دیں گے"_
یوں تو عام انسان دنیا میں بے تحاشا مسائل کا سامنا کر رہا ہے لیکن ان سب
سے اہم مسئلہ غربت ہے جس سے اور بھی بہت سے بھیانک قسم کے مسائل جنم لیتے
ہیں۔ ظاہری ترقی اور مصنوعی چکاچوند کے باوجود یہ پوری دنیا میں بتدریج
سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ غریب شخص ساری زندگی یاس و ناامیدی میں
گزار دیتا ہےاور یہ کیفیت اسے بہت سی دوسری بیماریوں میں مبتلا کر دیتی
ہے۔غربت سے ہی حسد، بغض، کینہ،کمینگی، لالچ، حرص، عصمت فروشی، لوٹ
مار،کرپشن جیسے سینکڑوں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔یہ غربت انسان کو مذہب و ملت
سے بغاوت پر آمادہ کر دیتی ہے۔
جان، صحت اور عزت سے بھی کھیلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ غربت کی وجہ سے بہت
سے لوگ مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یونیسف کے مطابق دنیا بھر میں 22000 بچے غربت کی وجہ سے مرجاتے ہیں ۔4.3
بلین لوگ خط غربت کی آخری لکیر سے بھی نیچے ہیں اور انہیں ایک وقت کی روٹی
بمشکل نصیب ہوتی ہے۔گویا دنیا کی آدھی آبادی کا مسئلہ اور روگ بدترین غربت
ہے۔
غربت کی وجہ سے غریب بذات خود ایک مسئلہ بن چکا ہے۔وہ بھوک اور افلاس اسے
کسی حد تک بھی لے جاسکتے ہیں۔ کسی دانشور کا قول ہے کہ"صابر اور مظلوم غریب
عوام کے غصے سے ڈریئے کہ کہیں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہو جائے۔ "
اخبارات، ٹیلی ویژن، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر آئے روز خودکشی، لوٹ مار،
چوری، ڈاکہ، دھوکہ دہی، اغوا برائے تاوان کی خبریں گردش کر رہی ہوتی ہیں۔
جنکے اور اسباب بھی ہیں لیکن غربت ان سب اسباب کی جڑ ہے۔
آج غربت و افلاس کی وجہ سے معاشرے میں عوام الناس بالخصوص نوجوان طبقے کے
جذبات میں سختی آرہی ہے۔خود غرضی اور لالچ و حرص بڑھتے جا رہے ہیں۔ایثار و
قربانی اور غمگساری جیسی اعلی انسانی قدروں میں زوال کا ایک سبب غربت و
افلاس بھی ہے۔
پاکستان پوری دنیا کی طرح غربت کا سامنا کر رہا ہے اسکی اکثریت عوام غریب
ہے اور اپنی غربت کا رونا رو رہی ہے۔
اگر ہم قریب سے دیکھیں اور انصاف سے فیصلہ کریں تو پاکستان میں اس وقت کسی
غریب کی کوئی زندگی نہیں‘ وہ اپنے آقاؤں کو خوش کرنے میں زندگی گزار دیتا
ہے، خود سکھ پاتا ہے اور نہ ہی اولاد سکھی ہوتی ہے، غریب کی اولاد کو اچھی
تعلیم کا حق حاصل ہے اور نہ ہی تربیت کے مواقع میسر ہیں۔بیمار ہو جائے تو
دوائی دارو کے لیے ہسپتالوں کے دھکے اسکی قسمت میں لکھے ہوتے ہیں، پیسے
جوڑتے جوڑتے باپ دنیا سے چلا جاتا ہے اور ماں لا علاج ہو کر گھر آجاتی ہے،
غریب کو تو ہسپتال کے کمرے میں پیدا ہونے کا بھی حق حاصل نہیں۔ بچے کی
پیدائش گاڑی میں ہوتی ہے یا ہسپتال کے برآمدے یا لان میں۔ بے چارہ خواب
دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
اگر کبھی خواب کو حقیقت کا روپ دینے کی جائز و ناجائز طریقے سے کوشش کرتا
ہے تو یہ خواب اسے جیل پہنچا دیتے ہیں۔
آج کل قانون امیر اور طاقتور کے سامنے ہاتھ جوڑ دیتا ہے اور اپنی بے بسی کا
ماتم کرتا ہے، رہا غریب وہ تو ہے ہی قانون کی تجربہ گاہ۔
غریب ہی طاقتور کو منتخب کر کے طاقت دیتا ہے لیکن پھر بھی کمزور اتنا ہے کہ
معاشرے میں آواز اٹھا سکتا ہے، نہ ہی کوئی رائے دے سکتا ہے۔ ہاں طاقتوروں
کے لیے اسے ہی آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔احتجاجی دھرنوں، ریلیوں
اور ہڑتالوں میں اسے فقط علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے
مضمرات و نقصانات کا سامنا پھر اسی غریب کو ہی کرنا پڑتا ہے۔جیل کی ہوا
کھانی ہو یا انتقامی کاروائیوں کا سامنا کرنا ہو غریب ہی مشق ستم ٹھہرتا
ہے۔
ریاست میں اسے کوئی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اپنے حقوق کا مطالبہ
کر سکتا ہے۔جب ملکی معیشت کو سنبھالنے کی بات ہوتی ہے تو "غریب کی جورو سب
کی بھابھی" کے مصداق غریب ہی پر ہوشربا ٹیکسوں کا انبار لگا دیا جاتا
ہے۔پھر غریب کے دودھ پر بھی ٹیکس لگتا ہے، پہننے کے لیے کپڑے پر بھی ٹیکس
ہوتا ہے اور علاج معالجے کے لیے دوائی پر بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اگر زندہ
رہنا ہے تو بھی اپنی محنت مزدوری کی کمائی سے ٹیکس دینا ہے اور اگر مرنا ہے
تو بھی کفن دفن پر ٹیکس۔پھر زبان سے یہی صدا آتی ہے ہائے کتنا لاچار بنا
دیتی ہے یہ غربت۔۔۔!!
###
|