بے حیائی کی ترقی پر کیوں کر قدغن لگایا جائے ...؟!

سوال یہ کہ کیا علم، اخلاق سے جدا شے ہے یا پھر جدید علوم کا انسانیت سے جھگڑا ہوگیا ہے؟

آج مختلف اکیڈمک علوم نے خاطر خواہ ترقی کرلی ہے مگر اخلاقیات پاتال کی جانب دھنسے جا رہے ہیں۔ معاشرے سے کردار کا تصور دھندلا ہوتا جارہا ہے، لوگ ایک دوسرے کا احترام کرنا فراموش کرتے جا رہے ہیں ۔والدین اپنی اولاد سے خوف کھاتے ہیں جبکہ والدین کی اطاعت بہر صورت واجب ہے۔ اسلام کہتا ہے اف تک نہ کہو جبکہ مسلم ریاست سمیت مختلف مقامات پر انہیں اپنے سے الگ کرنے کو بہتر تسلیم کیا جاتا ہے۔

عقل کہتی ہے کہ اپنی عفت کی پاسداری کی جانی چاہیے مگر آج کے ماحول میں عریانیت شہرت پکڑ رہی ہے۔ شاہراہوں پر بھی یہ نظارہ عام ہورہا ہے،سڑک پر چلنا دشوار ہوا جا رہا ہے، جدھر دیکھو، آوارگی سیر کر رہی ہے، نظر اٹھانا تو درکنار، خم بھی نہیں کرسکتے، ورنہ زمینی ٹکراؤ کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ابھی کل کی بات ہے،ایک متحرک دوشیزہ سے نظروں کا ٹکراؤ ہوا تو پورا جسم حرکت میں آگیا اور حیا بھی شرما گئی کہ اب تو حد ہوگئی، بالکل ہلکا اور لچکدار لباس اور نہایت چست جنس، اس طرح کی کہ سارے اعضاء ابھر ابھر کے دعوت نظارے دے رہے تھے، تجزیاتی مطالعہ کے مطابق یوں بھی ہندوستان کی آبادی کا تقریباً 50 فیصدی طبقہ 25 برس کی عمر سے کم کا ہے۔

آپ کسی روز بازار کے لیے نکل آئیے اور تماشا دیکھیے، حسن کا بازار گرم ملے گا، جسموں کی نمائش میں ہر کوئی خود کو سب سے زیادہ جدیدیت سے قریب کرنا چاہتا ہے، فیشن کا مطلب تو سمجھتے ہیں نا آپ، جتنی بے حیائی، اتنا بڑا فیشن اور روشن فکری...!

یہ نظریہ کہاں تک درست ہے، اس کی تائید ملک میں عصمت دری کے روز افزوں واقعات بتائیں گے۔

یہ ذکر تھا ہمارے آزاد ملک کا، مغربی ممالک میں تو کئی ایسے مقامات موجود ہیں جہاں انسان کو ننگا سیر کرنے کی مکمل اجازت ہے۔ اسپین، فرانس، نیدر لینڈ، جرمنی، کروئیٹیا،فلوریڈا، اور برطانیہ قابل ذکر ہیں۔

اب ذرا آئیں، اسلامی ممالک کی جانب ایک نظر ڈالتے ہیں۔ تحقیقات بتاتے ہیں کہ ان ممالک میں بھی اخلاقی باختگی روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے، یہ الگ بات کہ دیگر ممالک کے مقابل بہت ہی کم،ایک خبر اڑتے اڑتے آئی تھی کہ اب سعودی عرب میں حجاب سے پابندی ہٹا لی گئی ہے، لیکن اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔
سعودی عرب میں گذشتہ چند برسوں سے کافی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں ،اس وقت سینماؤں پر عائد پابندی کو ہٹاتے ہوئے فلموں کی نمائش کی اجازت دیدی گئی ہے۔ رواں برس ہی وہاں کے تاریخی مقام پر میوزیکل فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا تھا جبکہ شہر جدہ میں نائٹ کلب کھولے جانے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں، ادھر چند دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ فحش پرفارمنس کی ملکہ نکی مناج جدہ میں پرفارم کرنے آرہی ہے، لیکن تازہ خبر کے مطابق اس نے اپنے ہم جنس پرست شائقین کو رائے کو تسلیم کرکے سعودی عرب کے شاہزادہ کی بات ٹھکرادی ہے۔

صرف سعودی عرب ہی کیوں دوسرے ممالک میں بھی غیر اخلاقی تبدیلیاں نماں طور پر نظر آرہی ہیں۔
اسلامی ممالک میں فی الحال ایران سب سے بہتر ہے، حالانکہ وہاں بھی سب کے سب معصوم نہیں بستے، وہاں بھی عریانیت بڑھ رہی ہے۔

مولانا شہنشاہ حسین نقوی صاحب پاکستان سے سوال کیا گیا جسے انہی کی لفظوں میں صفحہ قرطاس کے حوالہ کیا جارہا ہے۔'فرمارہے ہیں کہ کیا شب عاشور وہ جو میچ ایران میں ہوا ہے کربلا....کے ساتھ اس کی کوئی ہماہنگی... ؟

نہیں مذمت ہے، ہم نہیں پسند کرتے،ایران کوئی ہمارے لیے.... پیشوا تو نہیں ہے، ایران ہمارے لیے کوئی رہنما نہیں ہے، مرجعیت کے ہم پابند ہیں، ایران کے اندر جو کام ہورہے ہیں سارے وہ کیا صحیح ہورہے ہیں؟ تہران میں تو عریانیت پھیل رہی ہے، اصفہان میں آپ جائیں تو آپ کو شرم آئے گی جاتے ہوئے، شیراز میں آپ جائیں تو آپ کو شرم آئے گی جاتے ہوئے، ایران ہمارے لیے آئیڈیل تھوڑی ہے، ایران کے سارے کام ہم نے لیے بھی نہیں ہیں ، ہمیں تو فارسی بھی اردو میں بولتے ہیں ہم تو، ہم نے ایران سے تو کوئی...،ہمارے مرجعیت کا مسئلہ ہے، ہمارے یہاں ولایت فقیہ...کا مسئلہ ہے،ہم ان کے پابند ہیں، وہ بھی دعا کریں ظہور ہوجائے تو ہم ان الجھنوں سے بچیں، تقلید جو ہے، ہاں! ہاں! میں جو کہہ رہا ہوں، اسے سمجھیے گا، میں اپنے بچوں سے میں گذارش کر رہا ہوں، تقلید جو ہے وہ الجھن ہے میری، مشکل ہے، پریشانی میں ہوں، مجبور ہوں میں کہ تقلید مجھے کرنا پڑ رہی ہے اور اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں، جو نہیں کرتے وہ اور بیچارے تھوڑے سے بے وقوف ہیں، ان کے پاس چارہ ہی نہیں تقلید کرنے کے علاوہ،مگر یہ مشکل ساری ظہور غیبت کی ہے، دعا کریں کہ ظہور ہوجائے، ہم ڈائریکٹ اصلی چشمے سے وابستہ ہوجائیں، یہ جو تالابوں کے پانی سے اور جو ہم ٹینکوں کے پانی سے استفادہ کر رہے ہیں، زندگی تو گذارنی ہے نا؟ بات میری روشن ہے یا نہیں، ناراض ہورہے ہیں آپ؟ ہم جو استفادہ کر رہے ہیں وہ. ..ہم وہ جمود والے پانی سے ہے وہ ہم پانی سے، زندگی تو گذارنی ہے؟ مگر جو چشمہ ہے وہ ہے امام... ۔'
مولانا کے مکمل بیان کو ان کی زبانی پیش کیا گیا، اب تجزیہ آپ کے حوالے ہے، بس سیاق و سباق ملحوظ خاطر رہے۔

میرا اپنا ذاتی نظریہ ہے کہ ان اخلاقی مشکلات کے باوجود اسلامی ممالک میں ایران سب سے بہتر ہے، آپ چاہیں میرے بات سے اتفاق کریں یا اختلاف، یہ آپ کا اپنا نظریہ ہوگا۔

گویا بے حیائی اور عریانیت نے ہر جگہ اپنا قبضہ بٹھا لیا ہے، اس کے وجوہات کیا کیا ہوسکتے ہیں...! ؟

ہماری دادی اماں' اللہ ان کی مغفرت فرمائے' کہا کرتی تھیں کہ یہ ٹی وی ایک طرح سے شیطان کا گھر ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے نوجوانوں کے ہاتھوں معاشرتی فسادات نہایت خوشنما فیشن کے طور پر پیش کیا ہے۔

فی الحال مرد و زن میں عینک کا فیشن تیزی سے چل پڑا ہے، اس کے نتائج کیا ہوں گے؟

یہ وقت ہی بتائے گا لیکن اتنا تو واضح کہ آنکھوں پر اس کا منفی اثرات تو ضرور مرتب ہوں گے، آنکھوں کا انتخاب در اصل کسی خاص مخفی کمیٹی کی جانب اشارہ ہے کیونکہ آنکھ اور سہ کونی شکل ان کی خاص علامت ہے۔
بے حجابی کی ریشہ دوانیاں کیوں کر اتنی تیزی سے پھیل رہی ہیں؟
اس سلسلے میں حقیر کی معلومات بہت کم ہیں۔

مولانا کلب جواد نقوی امام جمعہ آصفی مسجد، لکھنؤ نے خطبہ نماز جمعہ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ معاشرہ میں پھیلتی بے حجابی اور بے حیائی میں بیوٹی پارلر کا اہم رول ہے۔

در حقیقت، یہ انٹرنیٹ کی کرشمہ سازی ہے جس نے اچھے اچھے کے کردار کو داغدار کردیا اور برے برے کو راتوں رات مشہور کردیا۔ اب تو یہ ہماری زندگی سے ایسے منسلک ہوچکا ہے کہ گویا جسم و جان ہے۔
معاشرے میں پھیلے ان فسادات کا قلع قمع تو نہیں لیکن اس میں کمی لانے میں پردے کی پابندی لازم کرنی ہوگی، نوجوانوں کی تربیت پر خاص توجہ دینا بھی ضروری ہواجاتا ہے، انہیں گمراہ کن فلمیں اور ڈراموں سے بہرحال دور رکھنا ہوگا، بر وقت شادی کرنا بھی بہت سی مشکلات کو ختم کردیتا ہے اور ذکر الہی و استعفار تو بہرحال ضروری ہے ۔
اللہ ہم سب کی ہدایت فرمائے!
آمین...!