پاکستان اپنی تاریخ میں کئی مشکل ادوار سے گزرا ہے جن میں
ایک بدترین دور حالیہ دہشتگردی ہے جو ختم ہوکر بھی کئی بار سر اٹھاتی ہے
اور پاک فوج آگے بڑھ کر قربانیاں دے کر ان مشکلات سے قوم کو نکال لاتی
ہے۔صرف دہشتگردی ہی کیا قدرتی آفات ہوں یا بڑے حادثات ہر موقع پر اُس نے
قوم کو مصیبت سے نکالنے کو اپنا فرض سمجھا ہے اور اپنی جانوں اور خاندانوں
کی پرواہ کئے بغیر ہر مشکل سے مقابلہ کیا ہے لیکن ایک عجیب طبقہ اور اس
طبقے کا ناقابل فہم رویہ اکثر ادوار میں ملک میں موجود رہا ہے۔فوج کے خلاف
ہرزہ سرائی کو اپنی دانشوری پر ایک مہر سمجھتا ہے اور کوئی موقع ہاتھ سے
جانے نہیں دیتا کہ فوج کے خلاف اپنی منفی رائے کا اظہار اور پرچار نہ کرے۔
مجھے اس بات سے ہر گز اختلاف نہیں کہ فوج کاکام حکومت نہیں حفاظت ہے لہٰذا
مارشل لاء نہیں لگنا چاہیے لیکن تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ ہر بار حالات کو
اس نہج پر زبردستی پہنچایا گیا کہ فوج کو مداخلت کا موقع ملے اور پھر
سیاستدانوں کا ایک گروہ مٹھائی بانٹ کر مبارکبادیں وصول کرتا ہے حکومت میں
شریک ہوتا ہے لیکن وہ دور گزر جانے کے بعد اُن کے خیالات میں تبدیلی آتی ہے
اور وہ فوجی دور بلکہ فوج کے مخالف بلکہ کچھ تو شدید ترین مخالفت پر اُتر
آتے ہیں۔حال ہی میں سوشل میڈیا پر جنرل ایو ب خان سے متعلق ایسی ہی خبریں
پھیلائی گئیں کہ قائد اعظم، جب وہ بریگیڈیئر تھے انہیں عہدے سے ہٹانا چاہتے
تھے بلکہ انہوں نے اس حکمنامے پر دستخط بھی کئے اوریہ سب کیبنٹ ڈویژن کے
انتہائی محفوظ دستاویزات میں کہیں محفوظ ہے جس نے کبھی دن کی روشنی نہیں
دیکھی۔ ہوسکتاہے ایسا ہو لیکن طویل سرکاری نوکریوں میں ایسے اتار چڑھاؤ آتے
ہی رہتے ہیں اور اگر ایسا ہے تو اسے ایوب خان کی ذات تک محدود رکھا جائے نہ
کہ اسے فوج سے منسوب یا منسلک کیا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایوب خان
کا کیریئر جنرل بننے کے لئے کافی نہیں تھا کیونکہ تقسیم سے پہلے اُنہیں ان
کے افسروں نے اچھی سالانہ رپورٹ نہیں دی تھی۔ عین ممکن ہے ایسا ہو کیونکہ
طویل ملازمت میں یہ خارج از امکان نہیں ہوتا اور ایسا کئی دیگر جرنیلوں کے
ساتھ بھی ہوا ہوگا لیکن انہیں عہدے پر ترقی سول حکو مت کے سربراہ نے دی تھی
اور کئی دیگر جرنیلوں کی سینیارٹی کو بائی پاس کرکے دی تھی لیکن آخر کیا
وجوہات ہوتی ہیں کہ ایسا کئی بار کیا جاتا ہے کہیں حکمرانوں کی کوئی کمزوری
تو اس کا باعث نہیں ہوتی لہٰذا اسکا الزام بھی انہی کو دیا جانا چاہیے نہ
کہ فوج کو۔ اس وقت میری دلچسپی ایوب خان کی ذات میں نہیں یہ اور بات ہے کہ
اُن کے دور میں ہونے والی ترقی کی میں معترف ضرور ہوں بلکہ میرا اعتراض اُن
لوگوں پر ہے جو اپنے ملک کے اداروں کو بدنام کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور
لگانے میں لگے رہتے ہیں اور فوج اپنی تمام تر قربانیوں کے باوجود ان لوگوں
کے خاص نشانے پر رہتی ہے اور ہمیشہ کی طرح میں یہی کہوں گی کہ شہرت کمانے
کا سب سے آسان نسخہ بھی یہی ہے کہ اپنے محافظوں کو بُرا بھلا کہو اور انہیں
گالی تک دو اور پھر بیرونی دنیا کے چہیتے بن جاؤ یہاں تک کہ مالا مال کر
دیے جاؤ۔ہمارے ایسے ہی کچھ لوگ آج بھی امریکہ اور یورپ کی آنکھ کے تارے بنے
ہوئے ہیں۔ جناب حسین حقانی امریکہ اور واجد شمس الحسن جیسے لوگ برطانیہ میں
لاڈ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔عاصمہ جہانگیر ایک عرصے تک انسانی حقوق کی تنظیموں
کی ہیرو بنی رہی ہیں۔یہی حال نیوی کی نوکری سے سمجھ بوجھ حاصل کرنے والی
عائشہ صدیقہ کا بھی ہے کہ بھارت نے اُس کی کتابیں چھپواکر اُسے کچھ نہ کچھ
مشہور لوگوں کی فہرست میں ڈال دیا۔ بیرونی دنیا کے ساتھ ساتھ کچھ ہمارے
اپنے لوگ، گروہ، خاص کر میڈیا گروپس اور ان کے چینل ایسے لوگوں کو دانشوروں
کی صف میں لاکھڑا کرکے انہیں دانش کے سرچشمے بنانے کی کوشش کرتے ہیں یہ
خواتین و حضرات جن وجوہات کی بنا پر فوج کی مخالفت کرکے نام کماتے ہیں ان
میں سے ایک یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بتاتے ہیں جن میں دہشت گردوں کے
خلاف کاروائی میں ان کی موت کو بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی گردانا جاتا
ہے لیکن ان کی آنکھیں اُن بیس بائیس سالہ نوجوان فوجیوں کی شہادت پر کبھی
نم نہیں ہوتیں نہ ان کے کان اُن معصوم بچوں کی سسکیوں کو سنتے ہیں جو اپنے
باپ کو کھونے سے نکلتی ہیں اور نہ وہ بوڑھی آہیں ان کے دل کو نرم کرتی ہیں
جو جوان لخت جگر کی شہادت پر آسمان تک کو چیر دیتی ہیں فرق نہیں پڑتا تو
سول سوسائٹی کی موم بتی پارٹی کو اور یہی وہ لوگ ہیں جو فوج کوبدنام کرنے
کے لئے قبل ازقیام پاکستان کی فوج کے ناپسندیدہ معاملات بھی پاک فوج کے
کھانے میں ڈال دیتے ہیں اور اس سے بھی گریز نہیں کرتے کہ قائداعظم کو بھی
فوج کا مخالف بنادیں جیسا کہ انہوں نے زیر تذکرہ معاملے میں کیا جبکہ ایک
نوزائیدہ مملکت کے معاملات سنبھالنے میں مصروف اُس وقت کی پوری سول اور
فوجی مشینری میں شاید ہی کسی کو اتنی فرصت ہو کہ وہ یہ سب کچھ کرے اور اُس
زمانے میں جو سیاسی جوڑ توڑ کی گئی اُس میں بھی فوج کا نہیں بلکہ اُس وقت
کے سیاستدانوں کا ہاتھ تھا۔ دو سال میں چار حکومتوں کو فارغ کرنا کسی فوجی
جنرل کی وجہ سے نہیں تھا۔ پاکستان میں سیاسی وفاداریاں بدلنااور خود کو کسی
نہ کسی طرح حکومت کے ایوانوں تک پہنچانا اور صرف خود کو ہی حکومت چلانے کا
اہل سمجھنے سے ہی معاملات تب بھی خراب ہوتے تھے اور آج بھی، اور یہ
افراتفری قائد اعظم کی وفات کے بعد ہی شروع ہوئی اور قوم کا المیہ ہی یہ
تھا کہ اس کا عظیم لیڈر بہت جلد اس کا ساتھ چھوڑگیا ورنہ تو شاید ہم بہت
بہتر حالات میں ہوسکتے تھے۔ تاہم ان خود کو دانشور کہنے والے گروہ کو اب
بھی یہ احساس ہوجائے کہ قومی یکجہتی اور خاص کر اہم ترین اداروں کے درمیان
ہم آہنگی قومی ترقی اور عزت و وقار کے لئے انتہائی ضروری ہے لہٰذا اپنے
ذاتی مفادات اور تسکین کے لئے قومی مفاد اور وقار کو داؤ پر مت لگایئے۔ یہ
بھی درست ہے کہ ماضی میں کئی بار فوج کو کارِ سرکار میں مداخلت کرنا پڑی ہے
اور کئی بار اس کو ہاتھ میں لینا بھی پڑا ہے اور اگرچہ اُس کی وجوہات پیدا
کی گئی تھیں تاہم پھر بھی یہ خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اگر اب
فوج اپنے کام سے کام رکھ رہی ہے تو اس کو ہدف تنقید بنانا کسی بھی طرح جائز
اور مناسب نہیں بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اس کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے
اسکی حوصلہ افزائی کی جائے اور ایسا ہے بھی کہ عوامی سطح پر فوج کو انتہائی
عزت و توقیر دی جارہی ہے لیکن ان مخصوص عزائم کے حامل لوگوں کی عوامی سطح
پر سرزنش اور جواب دہی ضروری ہے تاکہ ملک میں ایک خوشگوار اور مثبت تبدیلی
لائی جاسکے۔
|