جب یونيورسٹی سے لوٹتے وقت شہر کے مختلف چوراہوں اور
سڑکوں پر کراچی کو پانی دو اور کراچی واٹر بورڈ کے خلاف احتجاجی بینر دیکھے
تو پھر سے میرا جرنلسٹ بھوت جاگ گیا اور میں نے کراچی واٹر سپلائی کے
ناکارہ نظام پے غور و فکر کر کے ایک رپورٹ تیار کی جس کے لیۓ میں نے شہر کے
مختلف علاقوں میں جاکر تحقیق کی کہ اصل مسائل کی جڑ کیا ہے .جب میں متاثر
علاقوں کے لوگوں کی رائے پوچھ رہا تھا تو کوئی ( ppp ) پے ٹوٹ پڑا تو کو ئی
(PTI) پے کسی نی کسی ادارے کے بارے مین الٹی سیدھی رائے دی تو کسی نے سب کو
ملا کر ایک مافیا کا نام دیا.بس لوگوں کو جیسے اپنی مخالف سیاسی تنظیم یا
کسی ادارے کے خلاف بھڑاس نکالنے کا لائسنس ملا ہوا تھا . لوگوں کی بہت سی
باتیں کسی حد تک درست بھی تھی.مگر یہ حقیقت ہے کہ پانی کے ناکارہ نظام کا
ذمہدار وہاں کے لوگ تھے . اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پورے شہر
مین واٹر سپلائے کے پائیپون کا مکمل جال بھی بچھا ہوا ہے جس پے ظاھر سی بات
ہے حکومتوں اور اداروں نے اربوں روپے خرج کیے ہونگے مگر جب یہاں کسی کے گھر
پانی کا تھوڑا سا بھی مسئلا پیدا ہوتا ہے تو وہ میونسیپل یا واٹر بورڈ سے
تعاون کرنے کے بجائے اپنی من مانی پے اتر آتے ہیں اور اپنے گلی محلے کی
سڑکوں اور راستوں کو کھودنے میں لگ جاتے ہیں اور نتیجے میں ہم ہماری سڑکوں
کے ساتھ ساتھ ڈرینج لائینوں اور واٹر سپلاۓ لائینوں کو بھی توڑ پھوڑ کے
رکھتے ہیں اور آھستہ آھستہ پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے مینے کئی ایسی
جگہیں بھی دیکھیں جہاں بڑی شہراہوں کے ساتھ کنسٹرکشن کے کاموں کی وجہ سے
پانی کی بڑی بڑی لائینیں ڈیمج ہوجاتی ہیں جن کا ہزاروں لیٹر پانی گٹروں میں
ضائع ہو جاتا ہے . اگر ہمیں واقع بھی پانی کے مسائل کا حل چاہیے تو ہمین
خود سنجیدہ ہوکر کسی بھی مسئلے کی صورت میں میونسپل اور واٹر بورڈ سے تعاون
کرنا پڑے گا -
|