تعلیم یا اخلاقیات

تعلیم ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت تو شاید بڑے بڑے علماء،سکالر،مشائخ ہی بتا سکتے۔ یا پھر وہ شخص جو شوق کے باوجود حاصل نہ کر سکا۔ تعلیم ہی ملک اور قوم کی تقدیر سنورنے میں بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔تعلیم ہی انسان کو ہر میدان میں ترقی دے رہی چاہیے وہ طب کا میدان ہو یا پھر انسان کا چاند پہ قدم رکھنا، ہر جگہ تعلیم اپنا لوہا منوا رہی ہے۔کوئی بھی معاشرہ ہو یا ملک وہاں سب سے زیادہ زور تعلیم کے حصول پر دیا جا رہا۔ اسلام میں بھی تعلیم پر بہت زور دیا گیا اور اُس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا کہ " تعلیم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے " اور"' ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔ اگر دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے دیکھا جائے تو تعلیم پر بہت زور دیا گیا ہے۔

اب کچھ بات ہو جائے اخلاقیات کی ، دیکھا جائے تو اخلاق ایک ایسی چیز ہے جو ایک اَن پڑھ کو تعلیم یافتہ سے بہتر بناتی ہے۔ آج ہم سائنس کے چھ باب تو پڑھ لیتے ہیں مگر اخلاق کا ایک سطر تک نہیں پڑھ پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ تو بہت ہیں لیکن اخلاقی یافتہ بہت کم ہیں۔ ہم نے تعلیم کو زندگی بنانے کے لئے تو پڑھ لیا مگر زندگی گزارنے کے لئے نہیں۔ تعلیم صرف پڑھ کر نمبر لے لینے کا نام نہیں بلکہ عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ " تعلیم جب انسان کے اندر جاتی تو وہ سادگی اختیار کر لیتا مگر جب اوپر سے گزر جاتی تو وہ ماڈرن بن جاتا ہے۔ اخلاق ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو مٹی سے سونا بنانا دیتی۔ لیکن جب اخلاق کا دامن ہاتھ سے چُھوٹ گیا تو اسی معاشرے کے پڑھے لکھے نوجوان نے والدین کو گھر سے دھکے دے کے نکال دیا ، شاگرد کا ہاتھ اُستاد کے گریبان تک جا پہنچا ،اور معاشرے کے کم عمر کی گفتگو میں نازیبا الفاظ کی فراوانی ملنے لگی۔ اور یہی وجہ تھی کہ " پڑھے لکھے جاہل "' جیسے الفاظ کی بھی تخلیق ہوئی۔

آج ہم مسلمان ہو کر اخلاق کو چھوڑ گئے۔ اسلام نے تعلیم پر تو زور دیا مگر کبھی اسی اسلام کو پھیلانے والوں کی طرز زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو انھوں نے کبھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے پیارے نبی کی زندگی میں ملتی جنہوں نے اپنے اخلاق سے پتھر جیسے دل بھی موم کی طرح نرم کر دیا اور پوری دنیا میں اسلام پھیلا۔

اخلاق سے دوری کی وجہ شاید اسلام کی تعلیمات کو بھلانے کا ہی نتیجہ ہے۔ ہم مغرب کی طرز معاشرت میں ایسے مگن ہو گئے کے اپنے دین کو ہی بھول بیٹھے۔ آگر مغرب کی بات کی جائے تو وہ اسلام کو مانتے تو نہیں لیکن کچھ حد تک اس کے مطابق ضرور چلتے ہیں۔ اگر میں جاپان کی بات کروں تو وہاں دس سال کی عمر تک بچوں کو صرف اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے تو ڈاکٹر علامہ اقبال نے بھی کہا تھا "' میں جب مغرب میں جاتا ہوں تو مجھے اسلام نظر آتا ہے مگر مسلمان نہیں"'

کہنے کا مقصد ہے کہ تعلیم تو ضروری ہے مگر اخلاق اس سے بھی زیادہ ضروری ہیں۔ اس معاشرے میں فساد آور بے سکونی کی جڑ میں صرفاخلاقیات کی کمی کم سمجھتا ہوں۔ کوشش کریں کےاخلاقیات کو خود بھی اپنایا جائے اور آنے والی نسلوں کو بھی سکھائیں۔ تاکہ اُن کا اور اس معاشرے کا مستقبل روشن بنایا جا سکے۔
 

M.Noman Khan
About the Author: M.Noman Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.