صحرائے تھر کے قصبے نگر پارکر کا شمارسندھ کے ان علاقوں
میں ہوتا ہے جہاں وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے آثارجا بجا پھیلے ہوئے ہیں ۔
صحرائے تھر میں کارونجھر پہاڑیوں کے دامن میں نگر پارکر کا قصبہ ہے جو مٹھی
سے 150کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نگر پارکر جسے ننگر پارکر بھی کہا جاتا
ہے، یہاں جگہ جگہ جین مندروں کے کھنڈرات موجود ہیں اور یہ قصبہ درحقیقت
انہی مندروں کی وجہ سے معروف ہے جنہیں، جین دھرم کے ماننے والوں نے تعمیر
کرایا تھا۔ یہاں 1505ء میں بنائی گئی بھوڈیسر مسجد بھی نگر پارکر کےتاریخی
آثار کا حصہ ہے ۔اسے سلطان محمود بیگڑے نے اس مقام پر تعمیر کرایا تھا
جہاں سلطان محمود غزنوی نے اپنے قیام کے دوران ایک یادگار بنوائی تھی۔یہ
قصبہ جین مندروں کی وجہ سے ہندؤوں کے لیے متبرک مقام ہے جہاں دُرگا ماتا
مندر، گوڑ مندر اور آسرم کی عبادت گاہیں،سیاحوں کے لیے پرکشش حیثیت رکھتی
ہیں۔نگر پارکر کا قصبہ جنوبی سمت میں ہندوستانی سرحد سے 16 جب کہ مشرق میں
23کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
تایخی آثار کی کشش اور اہمیت اپنی جگہ لیکن نگر پارکرکی سیر کے لیے آنے
والےسیاحوں کی دلچسپی کامرکز ’’ریباری‘‘قبیلہ ہے جو گزشتہ 7صدیوں سے اپنی
قدیم سماجی وثقافتی روایات کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔ اُن کی خواتین گزشتہ
7 سو سال سے حالت سوگ میں ہیں اور سیاہ ماتمی لباس زیب تن کرتی ہیں اور یہ
بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ سوگ منانے کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا آرہا
ہے۔ کسی عزیز حتی کہ والدین یا اولاد کے مرنے کی صورت میں اس کی موت کا غم
چند روز یا زیادہ سے زیادہ چند ماہ تک منایا جاتا ہے ، لیکن ریباری افراد
یہ سوگ بجائے کسی قریبی عزیز کے، علاقے کے حکمراں کے قتل ہونے پر منا رہے
ہیں اور وہ بھی گزشتہ سات صدیوں سے۔
’’ریباری ‘‘قبیلے کے افرادکون ہیں اورکہاں سےآئے تھے؟۔اسً قبیلے کے لوگ اس
وقت بھارتی ریاست گجرات اور راجستھان کے علاوہ صوبہ سندھ کے نگر پارکر،
بدین اور عمر کوٹ اضلاع میں آباد ہیں۔ تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہےکہ
اس قبیلے کے افراد راجپوت نسل سےتعلق رکھتے ہیں اورہندوستان کے بادشاہ
علاؤالدین خلجی کے زمانے میں بھارت میں راجستھان کے علاقے گجرات میں رہائش
پذیرتھے ۔ریباری قبیلے کے افراد ، ریکاس اور دیواسی کے ناموں سے بھی معروف
ہیں۔ ان سے متعلق اساطیری داستانیں مشہور ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ
ہزاروں سال قبل ہندؤوں کے دیوتا ، شیواجی نے انہیں اس لیے دھرتی پر اتارا
تاکہ وہ پاروتی دیوی کے اونٹوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کریں، اس وقت سے
وہ راجستھان کے علاقے میں مقیم تھے۔ 1300ء میں جب علاؤالدین خلجی ہندوستان
کا حکمران تھا، وہ ایک روز شکارکھیلنے کے لیے نکلا۔ شکار کھیلتا ہواوہ دور
نکل گیا اور راجستھان کےشہر گجرات پہنچا۔ یہاں اسے ریباری قبیلے کی ایک
دوشیزہ پسند آگئی۔ اس نے لڑکی کے والدین اور ریباری قبیلے کے سرکردہ
افرادسے لڑکی کے رشتے کے لیے بات کی لیکن ریباری قبیلے کے افراد نے قبائلی
روایات کی وجہ سے انکار کردیا۔ بادشاہ نے ان پر ہر ممکن دباؤ ڈالا لیکن وہ
راضی نہیں ہوئے جس پر بادشاہ غضب ناک ہوگیا۔ اس سے قبل کہ قبیلے کے
افرادبادشاہ کے قہر و غضب کا نشانہ بنتے، وہ رات کی تاریکی میں اپنے گھر
بار چھوڑ کر راجستھان سے نقل مکانی کرکے رن کچھ اور نگر پارکر کے علاقے میں
آگئے اور وہاں کے سومرا حکمراں، دودو سومرو کو اپنی بپتاسنائی۔ دودو سومرو
نے انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا جس کے بعد وہ یہاں سکونت پذیر ہوگئے۔
علاؤالدین خلجی، ریباری قبیلے کے افراد کا پیچھا کرتا ہوا نگر پارکر پہنچ
گیا، لیکن یہاں اس کی نظر دودوسومر کی بہن باگھل بائی پرپڑی۔ وہ دودو سومرو
سے ملا اور اس سے باگھل بائی کا رشتہ مانگا ۔دودوسومرونے صاف انکار کردیا
جس پر طیش میں آکرعلاؤالدین خلجی نے نگر پارکر پر حملہ کردیا۔ دودو سومرو
نے شاہی افواج کا پامردی سے مقابلہ کیا ۔ ریباری قبیلے نے اس جنگ میں دودو
سومرو کا بھرپور ساتھ دیا اور اس کے ساتھ مل کر علاؤالدین خلجی سے جنگ کی۔
لیکن دودو سومرو کو شکست ہوئی اور وہ میدان جنگ میں مارا گیا۔ اپنے محسن کے
مرنے کا ریباری قبیلے کی خواتین کو اتنا صدمہ ہواکہ انہوں نے اس کے غم میں
سیاہ ماتمی لباس پہن لیا، جس میں وہ آج بھی ملبوس نظر آتی ہیں اور وہ
گزشتہ 7 سو سال سے دودو سومرو کے مرنے کا غم منا رہی ہیں اور یہ سلسلہ پشت
ہا پشت سے جاری ہے۔ ریباری خواتین سیاہ گھاگھرہ اور رنگین چولی پہنتی ہیں
جب کہ اس پر سیاہ چادراوڑھی جاتی ہے۔ دودو سومرو سے ان کی عقیدت کا یہ عالم
ہے کہ اس کےغم میں شادی بیاہ کے موقع پر دلہنوں کو بھی سیاہ لباس پہنایا
جاتا ہے۔ مرد لنگوٹ اور اس پر چھوٹی قمیض یا واسکٹ پہنتے ہیں جس کے کناروں
پر لیس لگی ہوتی ہے، اسے جھلوری کہا جاتاہے۔
نگر پارکر کے علاوہ میرپور خاص اور بدین میں بھی ریباری برادری کے لوگ
موجود ہیں لیکن وہ سیاہ لباس نہیں پہنتے۔ 1970 میں راجپوت اور سومرا خاندان
نے ان علاقوں میں ریباری قبیلے کا صدیوں پراناسوگ ختم کرا دیا تھا، لیکن
نگر پارکر کے ریباری ابھی بھی اپنی قدیم روایات پر کاربند ہیں۔وہاں رہنے
والے لوگوں کا کہنا ہے کہ بیراجی علاقوں میں جو ریباری رہتے ہیں انھوں نے
اپنا لباس تبدیل کر لیا ہے لیکن ہم ابھی بھی حالت سوگ میں ہیں۔نگر پارکر کے
پہاڑی علاقوں میں ریباری قبیلے کے تقریباً دس گاؤں آبادہیں۔ ان میں
12نوجوان میٹرک تک تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں سے صرف ایک سرکاری ملازم ہے جو
محکمہ ڈاک میں چپڑاسی کی حیثیت سے کام کرتاہے۔
ایک غیرملکی جریدے کے مطابق کارونجھر کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ایک
گاؤںکی رہائشی خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں چالیس گھر ہیںاور ہم
کالے کپڑے طویل عرصے سے پہن رہے ہیں۔ہماری دادی بھی کالے کپڑے پہنتی تھیں،
ہم ریباری ہیں تو یہ کالے کپڑے ہماری مذہبی روایت اور ثقافتی شناخت کا حصہ
ہیں۔ شادی میں دلہن کو کالے کپڑے پہناتے ہیں مگر وہ ریشمی ہوتے ہیں۔ شادی
شدہ یا سہاگن خواتین ہاتھوں میں چوڑیاںاور کڑے پہنتی ہیں جب کہ بیوہ عورتوں
کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں۔بچیاں رنگین کپڑے پہنتی ہیں، شادی ہونے پرسیاہ رنگ
لباس کا حصہ بن جاتا ہے۔ شادی سمیت ہر خوشی میں سیاہ لباس ہی پہنا جاتا
ہے۔گردن میں کالا کنٹھا، کانوں میں بھاری کانٹے ڈالے یہ خواتین جادو ٹونے
سے بچنے کےلیے ہاتھوں پر سانپ اور بچھو سمیت مختلف ٹیٹوز بنواتی ہیں۔مقامی
افراد کے مطابق ایک مرتبہ مختلف سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنےوالے چند لوگ
اس علاقے میں آئےاور ہم سے کہا کہ اب یہ سوگ ختم کرو اور لباس تبدیل
کرو،لیکن ہم نے ان کی باتوں پر کان نہیں دھرے۔ ریباری افراد کا کہنا ہے کہ
یہ ٹیٹوزہماری بزرگ خواتین بنواتی تھیں اور ہمارے دور تک بنتے رہے لیکن اب
ان کا استعمال بھی متروک ہوتا جارہا ہے، انہیں اب کوئی نہیں بنواتا۔پہلے
ریباری مرد بھی سفید لباس پہنا کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
کچھ عرصے قبل تک یہ لوگ مال مویشی کا کاروبار کرتے تھے، دودھ، دہی، مکھن کے
علاوہ جانوروں کی کھال، بھیڑوں کی اون کی خرید و فروخت کرتے تھے۔لیکن گزشتہ
عشرے سے جنگلات کی تعداد میں کمی اور تھر کے خطے میں مسلسل خشک سالی سے ان
کے زیادہ تر مویشی ہلاک ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے وہ یہ کاروبار چھوڑنے پر
مجبور ہوگئے ہیں۔ اب انھوں نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دوسرےپیشے
اختیار کر لیے ہیں۔پہلے مردوں کا سفید لباس ، ان کی خواتین گھروں میں تیار
کرتی تھیں لیکن آج کی خواتین کو یہ لباس بنانا نہیں آتا۔صرف چند بزرگ
خواتین ہی ایسی ہیں جو اس قسم کا لباس بنا سکتی ہیں۔اس لیے زیادہ تر مردوں
نے روایتی لباس پہننا ترک کردیاہے۔ نگر پارکر کے دس گاؤں کی آبادی میںصرف
تین افراد ابھی تک اس قدیم روایت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ قبیلے کے بعض نوجوانوں
کا کہنا ہے کہ وہ اس لباس کو پہننا پسند نہیں کرتے اور شلوار قمیض پہنتے
ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے وقت کے دھارے کے مطابق خود کو ڈھال لیا ہے، لیکن
ہمارے بزرگ ابھی بھی اسی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں، وہ ابھی بھی لنگوٹ
پہنتےہیں۔اس گاؤں کے بزرگ افراد کا کہنا ہے کہ یہ لباس ان کے آبا و اجداد
پہنتے تھے،وہ اب کیسے چھوڑدیں جب کہ موت کے دہانے پر سانس لے رہے ہیں۔
ریباری خواتین گھرگرہستی کے کاموں میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ کڑھائی کرتی
ہیں، جو چادروں، تکیوں کے علاوہ کھڑکی کے پردوں پر بھی نظر آتی ہے۔ باورچی
خانے کی سجاوٹ سے لے کر کھڑکیوں پر کچی مٹی گوندھ کر نقش و نگار بنائے جاتے
ہیں۔
ریباری خواتین کے زیورات بھی مخصوص ڈیزائن کے ہوتے ہیں جس میں موتیوں کے
بجائے خالص سونا اور چاندی استعمال ہوتی ہے، یہ اس قدر بھاری ہوتے ہیں کہ
کئی بزرگ خواتین کے کان لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ایک بزرگ خاتون کا اس بارے
میں کہنا ہےکہ شادی بیاہ کے موقع پر پہلےایک سے ڈیڑھ کلو چاندی اور حسب
حیثیت سونا دیا جاتا تھا لیکن گزشتہ چندسالوں سے مسلسل قحط سالی کی وجہ سے
ان کے مال مویشی مرگئے جس کی وجہ سے ان کا آمدنی کا ذریعہ ختم ہوگیا۔ اب
جہیز میں بہ مشکل کپڑے ہی دیے جاتے ہیں۔
ریباری قبیلے کے افراد نے اب تک خود کو قبائلی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے
اور وہ سخت پردے کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں وہ اس قدر سخت ہیں کہ شادی میں
بھی صرف مرد ہی دولہا کے ہمراہ جاتے ہیں جب کہ رخصتی کے وقت دلہن کے ساتھ
ماموں یااس کا بھائی آتا ہے جو لڑکی کو چھوڑ کر واپس چلا جاتا ہے۔ بچپن
میں ہی لڑکی ، لڑکے کو منگنی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہےان کے جوان
ہوتے ہیں رخصتی کر دی جاتی ہے۔میر پور خاص اور بدین میں ریباری قبیلے کے
افراد نے خود کو جدید طرز زندگی کے مطابق ڈھال لیا ہے اور ان کی خواتین و
مردوں نے قدیم سوگ سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنا لبادہ تبدیل کرلیا ہے۔
زیادہ تر ریباری خواتین سیاہ لباس کی جگہ سفید و رنگین ملبوسات میں نظر
آتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نگر پارکر کے ریباری افراد ا پنی صدیوں قدیم
ثقافت کو کب تک برقرار رکھ کر خود کو معدوم ہونے سے بچاتے ہیں ۔ |