زندگی رشتوں کی مالا ہے اور یہ
مالا جب تک موتیوں سے بھری رہتی ہے تو زندگی ہشاش بشاش اور خوبصورت رہتی ہے
مگر جب کبھی ان موتیوں میں سے موتی گر کر ٹوٹنے لگیں تو زندگی کی چاشنی
نامکمل سی ہو جاتی ہے ،زندہ دلی دل کے کسی کونے میں چھپ سی جاتی ہے اور پھر
عمر بھر ہم اُن موتیوں کو ڈھونڈتے رہتے ہیں مگر وہ قیمتی موتی ہمیشہ کے لیے
ہم سے جُدا ہو جاتے ہیں ۔ بزرگ ہماری زندگی کا وہ قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جس
کی قیمت انمول ہوتی ہے مگر جب یہ ہمارے قریب ہوتے ہیں تو نہ جانے کیوں ہم
ان دور سے ہو جاتے ہیں ہمیں یہ بوجھ اور ناکارہ سے لگتے ہیں اور ہم اپنی
خود غرضی کی دلدل میں اتنے ڈوب جاتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ ان بزرگوں کی
دعاﺅں سے ہم زندگی کی مشکلات سے آسانی سے نکل جاتے ہیں ۔میرا آج دل بے
اختیار ایسے ہی اپنے کسی بزرگ کے بارے میں لکھنے کو چاہا مگر یہ بزرگ صرف
میری ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر ایک گھر میں ایسے بزرگ موجود ہوتے ہیں
مگر ہم اُن کی محبت سے ناآشنا ہوتے ہیں اُن کی خدمت کے فرض کو انتہائی بے
دلی سے سر انجام دیتے ہیں اور یہی گمراہ سوچیں ہمارے وجود میں جنم لے رہی
ہوتی ہیں کہ کب ہم اس فرض سے فارغ ہو ں گئے اور عجیب سی اُکتاہٹ محسوس رہتی
ہے مگر جب یہ بچھڑ جائیں تو پھر اُن کی یادوں میں آنسو بہا کر اپنے ضمیر کو
صاف کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں مگر ایک ضمیر ہی تو ہوتا ہے جو اپنی گھٹی
گھٹی آواز میں ہمیں پکارنے کی کوشش کرتا ہے اور ہم اُس کی آواز کو نظر
انداز کر کے اپنی من مرضی کرتے ہیں ۔
ہم لفظوں کی محبت میں گھرے ہوئے ہیں اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لیے ہم یہی
کہتے ہیں ہم تو اپنے بزرگوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں مگر محبت صرف کہنے سے
نہیں ہو جاتی بلکہ عمل مانگتی ہے ۔ہمارے مشرق میں آج بھی بڑے بڑے فیصلے گھر
کے بزرگ ہی کرتے ہیں مگر نہ جانے کیوں جدیدت کا جو بھوت ہم پر سوار ہوا ہے
اس کے نشے میں ہم اپنی اقدار کو بھول چکے ہیں چھوٹے بڑے کا احترام رفتہ
رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔آج میڈیا کا دور ہے سب کچھ ہمیں پتا چلتا رہتا ہے
مگر میڈیا نے کبھی کوشش نہیں کی کہ سیاست سے ہٹ کر بھی کچھ دکھا دے ،کیا آج
ہمارے معاشرے کو ایک اور اشفاق احمد کی ضرورت نہیں ہے کیا؟
کچھ خاص رشتوں سے دوری زندگی کا وہ کٹھن مرحلہ ہوتا ہے جس لمحے اپنے سلگتے
جذبات پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔مگر یہی تو زندگی کے لوازمات
ہیں جو ہمیں کبھی ہنساتے ہیں تو کبھی رُلاتے ہیں کیونکہ یادیں ہی تو زندگی
کی واحد جیون ساتھی رہ جاتی ہیں جو ہمیں ہماری پیارے رشتوں کی یاد دلا کر
اُن کے لیے دل میں نرم اور میٹھے احساس کو اُجاگر کرتی رہتی ہیں ، زندگی کی
بہاریں اور خوشیاں ان بزرگوں کی دعاﺅں کا ثمر ہوتی ہیں خدارا ان کی ٹھنڈی
چھاﺅں کا احترام کرو ۔ان کی خدمت کو ہر اول مصروفیت سمجھو اگر آج ان کا
احساس نہیں کرو گے تو پھر زندگی بھر شرمندگی اور ندامت سانپ بن کر ڈسے گی ۔ |