یورپ میں ہندوستانی مصالحہ
جات کی اہمیت اتنی کیوں بڑھ گئی اس سلسلے میں عبد العزیز محمد الشناوی رقم
طراز ہیں کہ : اس کا سبب یہ تھا کہ اس زمانے میں جب کہ ریفریجیٹر اور چیزوں
کو ٹھنڈا کر کے جما دینے والی بڑی چیزیں معروف نہیں ہوئی تھیں گوشت کو
محفوظ رکھنے کے لئے ان مصالحہ جات کی سخت ضرورت محسوس ہوتی تھی ، اس زمانے
کے یورپ کی آسائش اور خوشحال زندگی میں کھانا مشرقی مصالحہ جات کو ملائے
بغیر نہیں کھایا جاسکتا تھا ، اس پر مزید یہ کہ لونگ اور ادرک کا حکیمی
نسخوں میں استعمال ہونے لگا تھا ، یورپ کی عورتوں میں مشک و عنبر اور آب
گلاب کی ضرورت بڑھ گئی تھی ، یہ ضرورت اب کلیسا والوں کو بھی ہونے لگی تھی
، انہیں بھی دھونی دینے کے لئے بخورات ، عطر یات، ہندوستانی جڑی بوٹیوں ،افیم
، کافور وغیرہ کی ضرورت پڑنے لگی تھی ، جبکہ دوسری اشیاء، کافی ، قیمتی
پتھر ، ہاتھی دانت ، غالیچے ،ریشمی کپڑے ، یورپی معاشرے میں اظہار مفاخرت
اور دولت کے اظہار کے ذریعے بن گئے تھے ۔
(۱) ان ہندوستانی مصنوعات کی تجارت سے تاجروں کو جو منافع حاصل ہوتا تھا اس
کی تفصیل شہر وینس کے مورخ چارل ڈیل نے یوں بیا ن کی ہے : ایک کوئنٹل ادرک
کی جو قیمت اسکندریہ میں گیارہ کروزاڈو (Crusados ستر برطانوی سنٹ کے برابر
قدیم پرتگالی سونے کا سکہ) لگائی جاتی تھی ۔کالیکٹ میں اس کی قیمت چار
کروزاڈو تھی ، ایک کوئنٹل کالی مرچ کی جو قیمت ڈھائی تا تین وینسی سکہ (ڈوکیٹ
Ducat ۴۹۴،۳ گرام سونے کا وینس اور خلافت عثمانیہ میں رائج سکہ ) یہ مرچ
اسکندریہ میں (۰۸) سے کم پر ملنا مشکل تھا ۔۔۔ باوجود اس کے تاجروں کے لئے
یہ تجارت بہت منافع بخش تھی ۔۔۔ ۳۰۵۱ ءمیں واسکوڈی گاما ہندوستان سے اپنے
جہاز پر ساڑھے تین ہزار کوئنٹل کالی مرچ ، دارچینی ، ادرک ، اور جوز الطیب
لاد کرلایا ،جواہرات اور قیمتی پتھر ان کے علاوہ تھے ، ان کی قیمت ایک ملین
ڈوکیٹ لگائی گئی ۔ جب کہ اس مہم کے اخراجات دولاکھ ڈوکیٹ سے زیادہ نہ تھے ،
ا س مہم میں مال لگانے والوں کو ملنے والا منافع بھی اسی نسبت سے زیادہ تھا
، لسبن کے دوہزار ڈوکیٹ لگانے والے ایک گھر کو پانچ ہزار کا فائدہ ہوا (۲)
انہی صلیبی جنگوں کے جگر سے اطالوی بحری جمہوریتوں خصوصا جنوہ اور وینس کی
نیو پڑی جنہوں نے روایتی راستوں سے مشرق کی پیداوار کو شام کے راستے یورپ
لانا شروع کیا، اور وینس کے بحری بیڑوں نے مشرق کی محصولات کی یورپ درآمد
شروع کی،دوسری جانب انہوں نے جنگجوؤں اور ان کے راشن اور یورپین زائرین کو
مملکت شام بھیجنا شروع کیا،جس کی وجہ سے تجارت اور جہاز رانی کو ایسا ابھار
ملا جس کی نظیر رومن ایمپایر کے بعد نہیں ملتی،اور یورپ کے بازار وں کی
دکانیں ریشمی کپڑوں شکر مصالحہ جات جیسے کالی مرچ ادرک لونگ اور الائچی
وغیرہ کے ڈھیر سے بھر گئے،اور یہ اشیاء گیارہویں صدی عیسوی کے یورپ میں
سامان تعیش شمار ہونے لگیں (۳) لیکن مشہور واقعہ حطین ۳۸۵ھ ۷۸۱۱ء اور بیت
المقدس کی مسلمانوں کے ہاتھوں میں سقوط (اسی سال بحر اوسط کے مغرب میں
مملکت پرتگال وجود میں آئی) اور پھر عکا ۰۹۲۱ءکا سقوط اور تدریجی طور پر
ایوبیوں کے بعد آنے والے ممالیک (خاندان غلامان) کے دور میں دیار شام سے
صلیبیوں کو نکال بھگانے کی وجہ سے اطالوی جمہوریتوں کے معاشی حالات کو سخت
زک پہنچی اور یہاں کے بہت سارے مشہور کاروباری خاندان افلاس کا شکار ہوگئے
(۴) یہاں سے تیرھویں صدی عیسوی کے اواخر میں جنوہ والوں نے فارس (ایران )
کے منگولوں کے ساتھ باہمی تعاون اور افہام تفہیم سے ہندوستان کے بری راستے
سے خلیج عرب (فارس) تک پھر یہاں سے بحر اوسط کی مشرقی بندرگاہوں تک مصالحہ
جات کی درآمد کا خاکہ بنایا،حالانکہ یہ سوچ نافذ العمل نہ ہوسکی، لیکن اس
کے نتیجے میں مصالحہ جات کے علاقوں تک نئے راستے کی تلاش کی ان کی خواہش
تیز تر ہوگئی،اس مسابقت کے نتیجے میں جنوہ اور وینس میں متعدد جنگیں چھڑ
گئیںاور جنوہ کو بھاری تجارتی نقصان اٹھانا پڑا اور بحر اوسط کی کئی ایک
بندرگاہیں اس کی بالادستی سے نکل گئیں(۵) لیکن وینس نے صلیبی جنگوں کے بعد
شام میں ہونے والے نقصانات کی بھرپائی مشرق کی درآمدات کے دوسرے تجارتی
شہروں قاہرہ اور اسکندریہ سے کی، جب کہ یہ دونوں شہر ہندوستان چین ملقا اور
انڈونیشی جزیروں سے یورپ کے لئے آنے والے سامان تجارت کے اہم ٹرانزٹ پورٹ
بن گئے،ان کی اہمیت مصر میں سلطنت فاطمی کی دور ہی سے ہونے لگی تھی،وینس نے
اپنے تعلقات مصر شام اور حجاز کے ممالیک سلاطین سے مضبوط کئے اور بحر احمر
اور خلیج عرب (فارس) کے راستے آنے والے مشرقی سامان تجارت پر اپنی مونوپولی
مضبوط کی ،اس غرض سے وینس نے اپنے چھ بحری بیڑے تیار کئے جن کی مدد سے
پندرھویں صدی میں اس نے بے تحاشہ منافع کمایا جس سے ان جمہوریتوں کو بحر
اوسط کے اطراف اپنی چودھراہت قائم کرنے میں مدد ملی۔ (۶) یہاں سے وینس اور
جنوہ کے تاجر قاہرہ اسکندریہ اور شام کے تاجروں کی دلالی میں دب سے گئے،اور
ان کی حیثیت ممالیک سلاطین کے ماتحت شام و مصر کی سرزمین سے گزرنے والے
سامان تجارت پر ٹیکس دے کر مال چھڑانے والے تقسیم کنندگان کی سی ہوگئی، (۷)
یہ ٹیکس کبھی کبھار چیزوں کی اصل قیمت سے تین گنا زیادہ بڑھ جاتا تھا، لہذا
پندرھویں صدی میں یورپ کا اصل ہد ف عرب اور مسلمانوں کی سرزمیں سے بغیر
گزرے اور ان کی وساطت کے بغیر براہ راست مصالحہ جات کے اصل علاقوں تک رسائی
ہو گیا تھا۔
یورپ کے جغرافیائی انکشافات کی تحریک کا آغاز اس سے ایک صدی پیشتر
مارکوپولو جیسے سیاحوں کے انفرادی طور پر کئے گئے اسفار اور مہم جوئیوں سے
ہوگیا تھا (۸) ایک دوسرا سفریوگولینو دی فالڈو Ugolino de Vivaldo نے سنہ
۱۹۲۱ءمیں ہندوستان پہنچنے کی غرض سے جنوہ سے جبل الطارق اور مشرقی ساحل
افریقہ کا کیا تھا ، لیکن بعد میں اس کے نتائج معلوم نہ ہوسکے (۹) پھر
حکومتوں کی جانب سے مصالحہ جات اور سونے کی سرزمینوں تک رسائی کے لئے
کوششیں شروع ہوگئی، اس کے ساتھ ہی ۰۰۳۱ء۔ ۰۰۵۱ءکے دوران یورپ کی نشات ثانیہ
نے جسے اس وقت یورپ کی پیدائش نو کا نام دیا گیا تھا ان انکشافات میں کمک
کا فیکٹر ثابت ہوئی ، خاص طور پر جب سے یورپ کے اہم شہروں میں سرمایہ دار
طبقہ نے جنم دیا جس سے یورپ کی اقتصادیات کی ترقی میں مدد ملی،اس منفعت کے
تبادلہ میں اس سرمایہ دار طبقہ نے جغرافیائی انکشافات کی مہموں کو آگے بڑھا
یا جس سے ظاہر ہوگیا کہ آنکھوں سے اوجھل چیزیں اپنے ساتھ دولت لے آتی ہے،اس
پر آپ دور وسطی میں یورپ کی نشات ثانیہ میں اثرانداز ہونے والے ان تہذیبی
مراکز پر نگاہ دوڑائیں:
۔ جزئرہ نمائے ایبریا (اندلس)
۔ جزیرہ سسلی اور جنوب اٹلی
۔ دیار مشرق عربی (شام و مصر) صلیبی جنگوں کے دوران (۰۱)
حالانکہ اٹلی کے سمندری شہروں جیسے وینس اور جنوہ نے مشرق سے تجارت اور اس
کی یورپ میں مونوپولی کے طفیل اقتصادی خوشحالی کا مزہ اٹھایا تھا، لیکن
یورپ کی نشات ثانیہ کے نشانات اٹلی کے دوسرے شہروں فلورنس وغیرہ میں بھی
نظر آنے لگے تھے،ان شہروں نے مشرق کی عربی اسلامی تہذیب سے خوب خوشہ چینی
کی جس سے یہاں علم اور دانشوروں کی تحریک پھلی پھولی، لہٰذا یہ تہذیب میں
یورپ کے دوسرے شہروں پر بازی لے گئے۔
اٹلی کے ان شہروں خصوصا جنوہ کے لوگوں نے چودھویں صدی میں اقتصادی حالات
خراب ہونے پر یہاں سے اسپین اور پرتگال اور جزیرہ نمائے ایبیریا کو ہجرت کی
، اس وقت یہ مملکتیں اسپین سے مسلمانوں کے وجود کو نیست و نابود کرنے اور
اس جزیرہ نما سے اسلام کے نام لیواؤں کو ختم کرنے پر تلی ہوئی تھیں اور اس
غرض سے یہاں کی مسلم مملکتوں کے ساتھ جنگیں اپنے عروج پر تھیں اویہ ان کی
اقتصادی شریانوں کو شمال افریقہ اور مشرق عربی سے کاٹنے کے لئے کوشاں تھیں
(۱۱) تو ان سائنس دانوں کے جنہیں اسلامی تہذیب وثقافت کے سرچشموں سے
جغرافیائی اور فلکی معلومات دستیاب ہوئی تھیں ان کے ساتھ ملنے سے اس
جغرافیائی انکشافات کی تحریک کو آگے بڑھانے میں زبردست مدد ملی، اس کے
نتیجے میں بروبحر اور کرہ ارضی اور اس کے اطراف سفر و سیاحت کے بارے میں
روشن افکاروخیالات اکٹھا ہونے لگے ( یورپ میں جدید دو ر یورپ والوں کے نقطہ
نظر سے ۷۵۸ھ۳۵۴۱ءسے شروع ہوتا ہے جب قسطنطینیہ پر عثمانیوں کا قبضہ ہوا تھا
اور مشرقی یورپ میں اسلامی عثمانیوں کی یلغار شروع ہوئی تھی )،یہاں تک کہ
نئے یورپ کے دور کے آغاز میں یہ بات عام ہوگئی کہ مشرقی ایشیاء کا آخری سرا
چین جاپان اور مصالحہ جات کے جزیروں پر ختم ہوتا ہے۔ (۲۱) جس چیز نے عملی
طور پر مصالحہ جات کے سرچشموں کی تلاش میں مہم جوئی اور جغرافیائی انکشافات
کی تحریک کے آغاز کے بارے میں غور وفکر کرنے پر مجبور کیا وہ یورپ کی نشآت
ثانیہ کے اہم تہذیبی پہلو جیسے علمی اداروں کا قیام (اکیڈمیاں کتب خانے اور
اسکول وغیرہ) تھے جو کہ اغریقی یونانی لاطینی تحقیقات کی سرپرستی کرتے تھے
اور علم آثار اور تاریخ کا اہتمام کرتے تھے،اور نئی ایجادات جیسے طباعت کے
آلات اور بارود کی ایجاد تھی جس نے جنگی سسٹم میں زبردست انقلاب برپا کی
تھی،اور متعدد فلکی آلات تک ان کی رسائی تھی جس نے علم بحار اور سمندری
معلومات میں بڑا کردا ر ادا کیا،جیسے اسطرلاب قطب نما ، متحرک گیر وغیرہ ،
ان سب نے جہاز رانی کے مفہوم کو وسعت دی اور قدیم بوسیدہ دیومالائی خرافاتی
افکار وخیالات کو نکال باہر پھینکا،ایک نامعلوم کی تلاش میں یورپ کی
جغرافیائی انکشافات کی تحریک کے راستے سے روڑے ہٹائے اور مشرق کے پانیوں تک
پرتگالیوں کو پہنچنے کی راہ ہموار کی۔(۳۱)
حوالہ جات
(۱) (اوروبا فی مطلع العصور الحدیثہ ، ۱۰۲)
(۲) ( البندقیہ : جمہوریة ارستقراطیہ ۔ ۶۴۱)
(۳) (قصة الحضارة ج۴ مج ۴ (۵۱) صفحہ ۸۶)
(۴) (تطور الفکر الجغرافی ص ۱۵)
(۵) ((Panikkar p 23)
(۶) (اثر تحول التجارة العالمیة الی راس الرجاء الصالح علی مصر و عالم
البحر المتوسط ص ۷۲)
(۷) (تطور الفکر الجغرافی و ۱۵)
(۸) (( Boies Penrose 10.11
(۹) ((Panikkare p 32,Boies Penrose p 17
(۰۱) (اوربا فی مطلع العصور الحدیثہ ص ۱۰۲)
(۱۱) (تاریخ غرب افریقیا ص ۷۰۱)
(۲۱) (تاریخ اوربا العصور الوسطی ص ۳۶۴)
(۳۱) (الغزو البرتغالی للجنوب العربی والخلیج ۵۔۲۱) |