عورتوں کے حقوق اور سماجی اداروں کا کردار

ہماری معاشرتی تقسم بھی بہت عجیب ہے،ناانصافی کا آغاز ہم اپنے گھر سے ہی شروع کرتے ہیں،ہمارے ہاں اب بھی کئی ایسے گھرانے موجود ہیں، جہاں بچیوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا،جو بچوں کو دیا جاتا ہے۔اور یہی بچی جب عورت کا روپ اختیار کرتی ہے، تو معاشرے میں بھی اسے اسی قسم کی تفریقات سے گزرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اپنے معاشرے میں یہ باتیں عام کی جائیں، کہ رحمت عالم نے بچیوں کی تربیت کی کتنی فضیلت بیان کی ہے،اور سب سے پہلے عورتوں کو ان کے حقوق دلائے۔قرآن نے ایک فقرے میں ساری بات کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے "ان کے بھی اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان کے فرائض ہیں" ۔اسلام ہی کی بدولت عورتوں کو دنیا میں عزت ملی، اور اپنے حق میں بولنے کی آزادی ملی،ماں، بہن، بیٹی جیسے مقدس رشتوں کے نام ملے۔جبکہ اسلام سے پہلے یہی عورت غلام تھی، کوئی حیثیت، کوئی مقام نہیں تھا،پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا، بیوہ ہونے کے بعد زندہ جلا دیا جاتا،یا ساری عمر کے لئے قید کردیا جاتا،الغرض طرح طرح کے مظالم ان عورتوں پر کئے جاتے۔اسلام کے آنے سے انہیں آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع ملا۔ لیکن آج بھی ہمارے موجود معاشرے میں اسلام سے پہلے جیسے مظالم کئے جارہے ہیں،صرف ان کی ظاہری شکل تبدیل کردی گئی ہے۔بچیوں کو تعلیم جیسی دولت سے محروم رکھنا، ان کی تربیت کا خیال نہ کرنا بھی درحقیقت انہیں زندہ دفن کرنے کے مترادف ہے۔طرح طرح کے مظالم، سماجی ناانصافی،اور معاشرتی تفریق کے ذریعے ان کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے ۔

ہمارے معاشرے میں گھریلو تشدد، عورتوں کا زندہ جلا دینا،مار پیٹ کے ساتھ ساتھ انہیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھنا،معاشرے میں مردوں کے مقابلے میں کم اہمیت دینا، یہ تمام وہ بنیادی مسائل ہیں،جن کا شکار آج ہماری عورت ہے،اور یہی تمام چیزیں اسلام سے پہلے عورتوں کے حالات کی عکاسی کرتی ہیں۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے،دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ آپ کے پاس مہمان ہیں،شادی کے بعد انہوں نے آگے کسی اور گھر چلے جانا ہے، خدا جانے انہیں کیسے ساس، سسر ملیں؟،اور اس کے ساتھ ہی ساتھ خدا جانے ان کا میاں کیسا ہوگا؟ اور ہمارے معاشرے میں اکثر حضرات انسانیت سے عاری ہوتے ہیں جو معاشرے میں بے پناہ انداز سے خواتین پر ظلم کرتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان عورتوں کا اپنا زندگی میں کوئی تصور نہیں ہے، ان کا کوئی اپنا نظریہ زندگی نہیں ہے، لہٰذا خاوند جو کچھ فرما دیں وہ قرآن کی آیت اور وہی حدیث ہے۔ معاشرے سے اس چیز کو ختم کرنا ہوگا۔ لہٰذا ہمیں مل کر ان کے حقوق کو عام کرنا چاہیے۔تشدد، عورتوں کو زندہ جلانا، مار پیٹ جیسے مظالم کی روک تھام کے لئے مثبت کردار ادا کرنا ہے۔ ایسے ادارے اور تنظیمیں قائم کرنی ہوں گی جو عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے،اور مظالم کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکیں۔

پاکستان میں گھریلو تشدد اور خواتین پر مختلف قسم کے ظلم کرنا بہت اہم مسئلہ ہے،اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اگست2009میں ایک بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، اور اسے قانونی شکل دینے کے لئے سینٹ میں بھیجا گیا تھا، بدقسمتی سے کچھ وجوہات کی بنا پر یہ بل منظور نہ ہوسکا تھا۔اس سلسلے میں26فروری2011کو اگست2009کے بل کی منظوری اور نفاذ کے عمل کو متحرک کرنے کے لئے سول سوسائٹی تنظیموں کی جانب سے سنگھڑ ٹاﺅن راولپنڈی میں پرامن ریلی کا انعقاد ہوا۔اس ریلی میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے شرکت کی، ان شرکاء میں طلباء ماہر تعلیم، سماجی کارکن، گھریلو خواتین، وکلاء اور میڈیا کے نمائندگان شامل تھے۔ان تنظیموں میں کاوش ڈویلپمنٹ فاﺅنڈیشن اور سکھ ہومن ڈویلپمنٹ فاﺅنڈیشن ،راولپنڈی کا کردار بہت اہمت کا حامل ہے۔شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ اگست2009کوسینٹ میں پیش کیا گیا بل فوراً منظور کیا جائے،اب اس میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا قومی اسمبلی اور سینٹ کو اس بل کو قانونی شکل دے دینی چائیے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرکاء نے صوبائی اسمبلیوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھی مقامی سطح پر گھریلو تشدد کے خاتمے کے بل کی منظوری کے لئے پیش رفت کریں۔مس نوشابہ عارف جو کاوش ڈویلپمنٹ فاﺅنڈیشن کی پراجیکٹ آفیسر ہیں، اور مسز نورین حمید جو کہ سکھ ہومن ڈویلپمنٹ فاﺅنڈیشن ،راولپنڈی کی صدر ہیں،نہایت ہی پُرزور انداز میں اس بات پر زور دیا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین سے ہر طرح کا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، اور انہیں ذہنی ونفسیاتی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ہماری خواتین کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے۔ہمارے معاشرے میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں رہی، جہاں عورت محفوظ ہو، یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو گھر میں بھی محفوظ نہیں سمجھتی۔مزید یہ کہ پاکستان میں اس وقت تشدد کے متعلق تو قوانین موجود ہیں،تاہم گھریلو تشدد پر ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔اور آئے دن اخبارات، ٹی،وی چینلز پر اس قسم کے تشدد کے واقعات کا پتہ چلتا رہتا ہے۔آج عورتیں جلائی جا رہی ہیں، ان کے چہروں پر تیزاب پھینک کر ان کے چہرے مسخ کردیے جاتے ہیں، جہیز کم ملنے پر شوہر کے ہاتھوں قتل ہورہی ہیں،مار پیٹ کر ہاتھ پاﺅں توڑے جارہے ہیں،الغرض نِت نئے انداز سے انہیں ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے،اور کئی ایسے بھیانک واقعات ہمارے معاشرے میں ہوئے ہیں، جس سے انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔ لہٰذا جہاں ہمیں جہاں انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا، وہاں ہمیں ان اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا، جو ان مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ہم سب مل کر خواتین پر تشدد کے خاتمے کے بل کی منظوری کے لئے حکومت اور قانون ساز اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس قانون کو جلد از جلد لاگو کرنے میں ہر ممکن کوشش کریں۔
Shazad Ahmad
About the Author: Shazad Ahmad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.