آخروجہ کیا ہے ؟خرابی کہاں ہے؟محرکات کیا ہیں؟یہ سب کچھ
کیوں ہورہاہے؟آخرانسان ہی انسان کے لئے باعث ِذلت ورسوائی کیوں بنتا جا رہا
ہے؟ ظلم عام اورانسان بے خوف وخطردرندگی پراُترآیاہے۔کسی کی عزت محفوظ ہے
نہ جان ومال۔ معصوم بچے محفوظ، نہ صعیف العمر، مرد نہ ہی عورت،نہ دُنیاوی
علم،عہدے ومرتبے کا لحاظ،نہ ہی صاحب قرآن وحدیث اوردینی علم میں فضیلت کا
پاس۔معاشرے میں رحمدلی، ہمدردی،صلہ رحمی جیسے اوصاف کہیں نظرنہیں
آتے،اخبار،ٹی وی، ٹاک شوز،سوشل میڈیا،مسجد ومنبر،مدارس،سکول
،کالج،یونیورسٹی،شہر، گاؤں،بازار، محلہ ،بیٹھک،گھر ،محلہ ،قریہ قریہ،بستی
بستی ہرجاہ اورمقام پرنفرت وعداوت،ایک دوسرے کوکاٹ کھانے،ایک دوسرے
پرالزامات کی بے قابو آندھیاں انسانیت کوروندنے کے درپے ہیں ۔انسانیت مرے
جا رہی ہے۔
کچھ بھی کہہ لیں،ماضی کی نسبت علم واسباب اورمال ودولت کی کثرت کے
باوجودہرلمحہ بے چینی اوربدامنی پھیلتی جارہی ہے۔ہرطرف افراتفری کاسماں ہے،
ہر شخص پریشان،والدین اولاد کے ہاتھوں پریشان وبے توقیر،اولاد اپنے والدین
سے نالاں اورمطمئن نہیں،بھائی اپنے بھائی سے خائف،بہن کواپنے بھائیوں سے حق
تلفی کاشکوہ،رشتہ دار اپنے دیگررشتہ داروں کے مظالم کے قصے لئے پھرتے ہیں
توپڑوسی اپنے ہمسایہ کے شرسے خوفزدہ۔ عوام حکمرانوں کے خلاف شکایت کنندہ
توحکمران عوام کے طرف سے ناشکری، بغاوت ونافرمانی سے بے زار۔گلے شکوے ،
الزامات،بے انصافی،حق تلفی،ظلم وزیادتی،نفرت وعداوت کی داستانیں غریب کی
جھونپڑی سے لے کرامراء کے محلات تک پھیلی ہوئی ہیں۔
آج تمام طبقات کا مرکزومحور،ساری جستجو اورسعی کاحاصل روپیہ پیسہ ،دُنیاوی
مال ودولت اور دُنیا کی آسائشوں کاحصول بن گیا ہے۔حق تعالیٰ کی رضا جوئی کی
فکرسے بے نیاز ہوکرروپیہ پیسہ کے پیچھے لگے ہوئے ہوئے ہیں اورصرف دُنیا
کومحبوب بنالیا ہے۔حق تعالیٰ شانہ سے مضبوط تعلق استوارکرنے کی فکرکی، نہ
ہی کبھی خیال آیا۔ہم مال ودولت کی ہوس میں حلال وحرام کی تمیزسے بے نیاز
ہوتے جارہے ہیں۔نافرمانی اورسرکشی کابار ِگراں اُٹھائے نامعلوم سمت میں
سرپٹ بھاگے جارہے ہیں۔آنحضرت ﷺ نے تین بددعائیں فرمائیں،ایک ہلاکت وناکامی
کی،دوسری ذلت وخواری کی،تیسری یہ کہ اگران کوکوئی تکلیف پہنچے توخداکرے ان
کی یہ تکلیف زائل نہ ہو،اگران کے کانٹاچبھے توخداکرے ان کا وہ کانٹانہ
نکلے،بلکہ وہ ہمیشہ اسی تکلیف و عذاب میں مبتلا رہیں ۔ علمائے کرام لکھتے
ہیں کہ ان بددعاؤں کا سبب اورجرم یہ ہے کہ دُنیاداروں نے حق تعالیٰ شانہ
جومحبوب حقیقی ہے سے تعلق توڑ کردُنیا کومحبوب بنا لیا اورصرف اسی کے لئے
محنت وجستجوکرنے میں مگن ہوگئے۔سارے جھگڑے وفسادات حصول دُنیا کے لئے
برپاہیں۔
ہماری زبان کے شرسے کوئی جگہ ،کوئی مقام اورکوئی شخص محفوظ نہیں ہے۔ زبان
کودل کا ترجمان کہاگیا ہے۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
ارشادفرمایا"جب تک بندے کا دل درست نہ ہو،اس کا ایمان درست نہیں اورجب تک
اس کہ زبان درست نہ ہواس کا دل درست نہیں۔ " ( مسند احمد ، مسند المکثرین
من الصحابۃ:13048) حضرت یحی بن معاذرحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں"کہ دل کی مثال
ہنڈیا کی مانندہے،اس میں جوکچھ ہوتا ہے،جوش کھاتا ہے اور زبانیں اس کی کف
گیر ہیں ـ" یعنی دل میں جوبھی تلخ وشیریں چیزہوگی کف گیر( زبان) پرآجائے
گی۔اس طرح دل میں جوکچھ ہوگا،اس کا ذائقہ اس کی زبان سے معلوم ہوجائے گا۔
ایسے انسان بھی ہیں جو گناہوں،بدکاری،بددیانتی اوردیگربرائیوں جیسے حرام
کھانے،ظلم وزیادتی،چوری،شراب نوشی،رشوت لینے سے اپنے آپ کوبچانے کی کوشش
کرتے ہیں،لیکن زبان کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتے ،زبان پرقابونہیں اور
بدکلامی سے باز نہیں آتے۔زبان بغیرسوچے سمجھے بے پرواہی سے چلتی رہتی
ہے۔نیک وبد کی برائی، زندوں ومردوں کی غیبت،بظاہرکسی نفع ونقصان کے لالچ کے
بغیربس جوسامنے آیا،جس کا خیال ذہن سے گزرااُس کی برائی اورآبروریزی شروع
کردی۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بے احتیاطی میں انسان کی زبان سے ایسے الفاظ
نکل جاتے ہیں، جواﷲ عزوجل کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں۔جس کی وجہ اسے اس
مقام سے اتنادورپھینک دیتا ہے جس کا فاصلہ مشرق ومغرب کی طرح ہوتاہے۔
ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالی عنہ سفرمیں رسول پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم کے ساتھ تھے۔انھوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ یا رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم ،وہ کونسا عمل ہے جومجھے جنت میں داخل کردے اورجہنم سے
دورکردے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خاص خاص اصولی چیزیں ارشادفرمانے کے
بعدفرمایا:"کیامیں تمہیں ان تمام پرحاوی چیزنہ بتلادوں؟" حضرت معاذ بن جبل
رضی اﷲ تعالی عنہ نے عرض کیا،کیوں نہیں ، ضرور بتائیں ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے اپنی زبان پکڑی اورارشادفرمایا"اسے اپنے قابومیں رکھو!" حضرت معاذ بن
جبل رضی اﷲ تعالی عنہ ؓ نے عرض کیا:"کیا ہم جوبات کرتے ہیں،اس کا بھی کوئی
مواخذہ ہوگا؟"آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"معاذ تم پرتمھاری ماں
روئے(یہ کلمہ تنبیہ کے لیے یاواقعہ کی عظمت کوبتانے کے لیے ہے۔مرقاۃ)،لوگ
اپنی زبان ہی سے منہ کے بل جہنم میں پھینکے جاتے ہیں یافرمایاناک کے بل
اپنی زبانوں کے کرتوت سے"(ترمذی ابواب الایمان:2616)
آج ہم خود دیکھ لیں کہ روزانہ ہمارے اخبارات میں لگنے والی خبریں،شہہ
سرخیاں،ٹی وی پرپیش کئے جانے والے پروگرام، ٹاک شوز (چاہے مزاحیہ ،سیاسی یا
سنجیدہ ہوں)میں منتخب کردہ موضوعات اورشخصات کے بارے میں مہمانوں کے
کلمات،سوشل میڈیا پرہماری پوسٹس اور ٹویٹس،مسجد ومنبر کے ذریعہ عوام تک
پہنچائے جانے والے بغض وعداوت بھرے پیغامات۔ہمارے مدارس،سکول
،کالج،یونیورسٹیزمیں شعورکے بغیردی جانے والی تعلیم۔ہمارے شہر، گاؤں ،
بازار،محلہ،بیٹھک،گھر،قریہ قریہ،بستی بستی ہرجاہ اورمقام پرکی جانے والی
گفتگو اوربحث ۔کیا ہم ہروقت اورہرجگہ نفرت وعداوت،ایک دوسرے کوکاٹ
کھانے،ایک دوسرے کی رسوائی کے لئے الزامات کی بوچھاڑنہیں کررہے؟روز
بروزحالات بدترین ہوتے جارہے ہیں،مگرافسوس زبان پرقابواورکنٹرول نہ ہونے
اورزبان کے استعمال میں احتیاط نہ برتنے کی وجہ سے پھیلتی اس تباہی وبربادی
کے طوفان کے رکنے اورتھمنے کے کہیں دوردورتک نشان اوراثرات نظرنہیں آرہے۔
|