کل رات میں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ میں ایک چھوٹا سا سوال
لکھا کہ ہماری کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟
صبح تک کچھ دوست احباب نے انگوٹھا دبا کر لائک کیا تھا، کچھ نے انگوٹھے سے
ہی "لو" والا نشان دبا دیا، معلوم نہیں سوال پسند آیا یا میں؟
چند دوستوں نے اپنی انگلیاں چلا کر اپنی قیمتی آراء کاذکر کرکے اپنی دلچسپی
کا اظہار کیا،
جناب ریاض حسین کے خیال میں"ہم محنت نہیں کرتے، سوچ منفی ہے، ایک دوسرے کی
ٹانگیں کھینچنا، غلط اور نا مناسب راستے۔۔۔ اور کچھ اور باتیں
عابد رسول صاحب نے لکھا کہ" جبر اور خوف"
خرم سلمان کا خیال ہے کہ" بھروسے اور اعتماد کی کمی"
سید حامد حسین نے فیصلہ نہ کرنا یا صحیح فیصلہ نہ کرنا کامیابی میں رکاوٹ
قرار دی،
قراۃالعین مسعود کا خیال ہے کہ ناکامی کا خوف اور صحیح سمت کا تعین نہ کرنا
ہمیں لے ڈوبتا ہے،
خاور عباس نے ناکا می کو ہی کامیابی میں رکاوٹ قرار دیا،
سید اسد اشرف کا خیال ہے "درکار محنت سے گھبراتے ہیں ۔ توکل کو پیچھے
چھوڑکر اپنے زورِبازوپر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں وہ سیلف میڈ ہے جبکہ
ہر چیز اللہ میڈ ہے"
اسد کا خیال ہے کہ کتاب " الکیمسٹ"ضرور پڑھنی چاہیئے۔ محترم آسیہ زیدی کے
خیال میں بددیانتی، نوید قطبی اور خواجہ مظہر صدیقی کے خیال میں ناکامی کا
خوف، اشرف شاہ کے خیال میں مایوسی، سید کاظمی کے خیال میں رسک نہ لینا،
سدرہ فاروقی کے خیال میں کامیابی کا سوچتے ہی نہیں، سید اسحاق شاہ نے 4
رکاوٹوں کا ذکر کیا. 1،متعلقہ شعبوں میں کام نہ ملنا2، کام کا معاوضہ کم
ملنا، 3،کام میں عدم دلچسپی، 4،متعلقہ شعبوں میں مہارت کی کمی. لطیف خان
نےمحدود سوچ، کرن ندیم نےاپنے آ پ پر اعتماد نہ کرنا، شبیر صاحب نے
ہڈحرامی، عبدالوحید نےسیکھنے کے عمل کا رک جانا، ملک الطاف نے اقرباپروری،
عائشہ ساجد نےایمان کی کمی کو رکاوٹ قرار دیا. روبینہ ارشد کا خیال ہے کہ
کوئی رکاوٹ نہیں. ، ،
اوپر ذکر کی گئی آراء سے یہ تو اچھی طرح اندازہ ہواکہ اللہ کے فضل سے ہمیں
احساس ہے کہ رکاوٹ ہے کہاں؟
اگر ان ساری باتوں کا خلاصہ ہم قرآن پاک سے تلاش کریں توبڑا توانا پیغام
ملے گا، اللہ کا فرمان ہے : اھد ناالصراط المستقیم۔۔۔"اے اللہ ہمیں سیدھا
راستہ دکھا"
یہ دراصل صحیح سمت والی بات ہے ۔موثر زندگی صحیح سمت سے ہی ممکن ہو سکتی
ہے۔اس کے لئے ہم خدا کے حضور دعا کریں اور دوا کے لئے بھرپورکوشش۔اپنی درست
سمت میں کوشش کریں گے تو وہی ملے گا اور غلط سمت جائیں گے تو بھٹک جائیں
گے۔ان دو مختصر پیغامات میں بہت کچھ ہے۔
سورۃ العمران میں: فَاِذاعزمَت فتوکل عَلی اللہ اِن اللہ ٰ یحب
المٰتوکلین۔۔۔(پھر جب کسی کا عزم کر لیں تو اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔بےشک
اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتاہے)
اس سے اگلی آیت کا مفہوم ہے کہ "اگر اللہ تمہاری مدد کر دے تو پھرکوئی بھی
تمہارے اوپر غالب نہیں آسکتااور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو
تمہارا ساتھ دے؟ایمان والوں کو چاہیئےکہ وہ صرف اللہ ہی پربھروسہ کریں"
میرا خیال ہے ، انہی آیات میں فیصلہ سازی، اس پر عمل کرنا، اللہ سے ہونے کا
یقین، اللہ پر بھروسہ، توکل، اپنے آپ پر یقین، اللہ کی مدد۔۔۔سب کچھ شامل
ہے۔
جب ہم ارادہ کر لیں تو محنت کریں گے،
محنت کریں گےتو کامیابی کے راستے ملیں گے۔ محنت کریں گے تو دوسروں کی
ٹانگیں کھینچنےکا وقت نہیں ملے گا۔ محنت اور اللہ پر بھروسہ کرنے والا کبھی
خوفزدہ نہیں ہوتا۔ توکل دراصل اپنے اللہ پر یقین اور اپنے آپ پر اعتماد ہے۔
بھرپور کوشش ہے۔ اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہے۔ اپنی ذہنی ،
جسمانی اور روحانی طاقت کا بھرپور مظاہرہ ہے۔ ہاتھ پہ ہاتھ رکھنا اور بیٹھے
رہنا توکل قطعاََ نہیں۔
محترمہ آسیہ زیدی نے بددیانتی کو کامیابی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تو
مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالٰی کا جو فرمان ہم پہلے ذکر کر چکے کہ" ایمان
والوں کو چاہیئے کہ وہ اللہ پر بھروسہ رکھیں"
ایمان والاتو کبھی بد دیانت نہیں ہو سکتا۔کامیابی میں رکاوٹ ہمارا "کن "پر
یقین نہ کرنا ہے۔ہم اس بھروسے پر کام کریں کہ ہم زمین پر اللہ کے خلیفہ کے
طور پر کام کر رہے ہیں۔ اللہ ہمیں دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا دیکھنا
چاہتا ہے۔ وہ تو صرف "کن" کہتا تو جو وہ چاہتا ہے ہو جاتا ہے۔ہم اس کی چاہت
کو جسم و جان کا حصہ بنا لیں تو کیا وہ نہیں چاہے گا جو ہم چاہتے ہیں ؟ "
● وہ یقیناََ ایسا چاہے گا۔ ہم پختہ ارادہ کر لیں ، پتھر ریت بن جائیں گے۔
|