او ریمنڈ سنو ۔۔۔ کہا چلے گئے ہو
پلیز مجھے بھی قتل کر جاؤ ، اس جیسے ملک میں اب رہ ہی کیا گیا ہے ، ایک وقت
کی روٹی تو میسر نہیں ، نوکری کے لئے میرے پاس بڑے صاحب کی سفارش نہیں ،
بجلی اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے کام بھی نہیں ملتا، گھر لوٹوں تو بیمار
بیوی اس بیچارگی سے دیکھتی ہے کہ تھکاوٹ میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ، بچے
میری راہ تکتے ہیں کہ میں ان کے لئے کچھ چیزیں ، کھلونے لیکر آؤں لیکن ان
کی اداس آنکھیں مجھے اندر اندر سے نگل رہی ہوتی ہیں ۔ میں تو ان کو ایک
وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتا پھر کھلونوں کا ذکر کہا ں؟
مکان کا کرایہ بھی 4 ماہ سے نہیں دیا ، اب تو مالک مکان کی باتیں سن سن کر
بے غیرتی کا احساس ایسا ہو گیا ہے کہ اب شرمندگی بھی نزدیک نہیں پٹھکتی ،
بلکہ محلے لوگوں نے جو میرے نام ڈالے ہیں ان پر غصہ کی بجائے ہنسی آتی ہے
کہ کہیں ان سے ناراضگی مول لیکر مجھے کوئی ادھار پیسے دینے سے انکار نہ کر
دے ، آخر گزارہ بھی تو کرنا ہے۔
بیمار بیوی جس کے گردے فیل ہوگئے جس کو بڑی چاہ کے ساتھ بیاہ کر لایا تھا ،
جس کے ساتھ میں نے حسین خواب دیکھے تھے وہ چارپائی پر لیٹی اپنی بے جان
نظروں سے جان نکل جانے کی منتظر ہے ۔
افسوس میں ان کے لئے کچھ نہ کر سکا ، میں محنت کرنا چاہتا ہوں ، میں مزدوری
کرنا چاہتا ہوں لیکن اس وطن کے قانون میری مدد نہیں کرتے ، مجھے ہر جگہ
دھدکار دیا جاتا ہے ، میرے پاس سفاش کا پرچہ نہیں ، میری رشتہ داری کسی ایم
این اے ، ایم پی اے یا کم از کم کسی ناظم سے نہیں ۔ ایک آس تھی کہ میں ایک
باعزت ملک میں رہتا ہوں لیکن اب تو اس کا گلہ بھی دور ہو گیا ، پیٹ میں کچھ
نہ ہو تو کم از کم عزت کے نام پر جو جیا جا سکتا ہے لیکن اب تو سر بازار وہ
بھی نیلام ہو گی ۔
او ریمنڈ سن میری بات سن مجھے بھی قتل کر جا ، میری زندگی میں شاید میرے
بیوی بچے وہ سکھ نہ پاسکے جو ان کو میرے مرنے پر کروڑوں روپے کے ساتھ ملے
گا ، سن مجھے موت کے گھاٹ اتار جا ۔۔۔ میرے بیوی بچوں کو میری ، عزت یا
غیرت کی پروا نہیں اب ۔ ان کو اب بہتر مستقبل چاہئے ۔۔۔ اور ان کو اپنے
ساتھ امریکہ لے جا ۔ غیرت کا جنازہ تو نکل گیا لیکن ان کی جان تو نہ نکلے
نا۔
سن او ریمنڈ مجھے بھی گولی مار جا۔۔۔۔۔
(ایک غریب پاکستانی کے احساسات) |