ٹی وی چینل بدلتے ہو ئے ریمورٹ
پر انگلیا ں ٹھہر گئیں ۔ منظر ہی ایسا جذ با تی تھا ۔ جی ہا ں ! ایک یتیم
خانہ جہا ں معصوم بچو ں کی پریڈ ہو رہی تھی کہ بے اولا د جو ڑے اپنے لیے
کسی بچے کا انتخا ب کر سکیں ۔ وہیں دوسری طرف یتیم بچے خیراتی سامان میں سے
اپنے لیے بہتر چیز حا صل کر نے کے لیے آپس میں دست و گریبا ں تھے۔ ایک
مسکین سے بچے کے ہا تھ کر کٹ کا ایک بلا لگتا ہے جس پر بھا رتی کر کٹر کپل
دیو کے دستخط ہو تے ہیں ( اس وقت احسا س ہوا کہ یہ بھا رتی چینل ہے! )یہ
بچہ اس بلے کو عقیدت سے چوم کر اپنا مذہبی منتر پڑ ھتا ہے جس کے بعد یہ اس
کے لیے خوش قسمتی کی علا مت بن جا تا ہے کہ اس کو ہا تھ میں لیتے ہی وہ نا
قا بل یقین شا ٹ لگا نے لگ جا تا ہے۔
اس موقع پر یہ جا ئزہ لینے کے لیے کہ انڈین چینلز پر آ خر کیا دکھا یا جا
تا ہے کہ لوگ مسحور ہو جا تے ہیں یہ فیچر فلم دیکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ یو
ں کہا جا ئے کہ میری دلچسپی اس تیرہ سا لہ یتیم بچے کرن KARAN میں سمٹ گئی
تھی جو پاک بھارت سیریز میں پا کستا ن کیخلا ف اپنا جو ہر آ زما نے جا رہا
تھا۔ جی ہا ں ! اس بلے کی بدو لت اپنی شاندار کار کر دگی کے با عث سیلیکٹرز
کی نظرو ں میں نما یا ں ہو کر وہ با لآخر بھارتی ٹیم کا حصہ بن کر اپنا
کیرئر شرو ع کر تا ہے۔
اگر میں ایماندا ری سے اپنے اسُ وقت کے جذ بات کا جا ئزہ لو ں تو جب وہ بچہ
اپنا منتر ’’ چین کلی من کلی ..............‘‘ دہرا تا ہوا بیٹنگ کا آغاز
کر رہا تھا تو میری ہمدردیا ں اسُ کے سا تھ تھیں ! دعائیں گڈ مڈ ہو رہی
تھیں ۔ میرا دل پا کستا نی ٹیم کے بجا ئے کرن کے لیے پگھل رہا تھا اور کیو
ں نہ ہو تا ؟ وہ اس فلم کا ہیرو جو تھا ! اس وقت شدت سے احسا س ہوا کہ ٹی
وی مؤثر ترین ذریعہ ہے جس میں جذبا ت نگا ری کے ذریعے تر جیحات کے دا ئرے
کو مخا لف سمت میں باآسا نی مو ڑا جا سکتا ہے ! اس بات سے قطع نظر کہ فلم
کا انجا م کیا رہا ؟ اس پو رے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں دورا ن فلم مختلف اشتہا
رات کے ذریعے بھا رتی ثقافت اور مذ ھب کا پر چا ر ہو تا رہا ۔ ٹی وی کا بٹن
آف کر تے ہو ئے غور کیا کہ یہ بچو ں میں بے حد مقبول چینل ہے!!یہ بھیا نک
خد شہ شدت سے دل و دما غ میں سرا یت کر گیا کہ جب پا کستا نی مسلما ن بچے
دن میں کئی کئی گھنٹے یہ سب کچھ اپنے اندر جذب کر تے ہیں تو ان کے جذ با ت
و احسا سات کس طر ح اپنے مذہب اور اقدار کے مخالف سمت میں باآسا نی مڑ جا
تے ہو ں گے؟؟؟
ان میں دو خطرات ہیں : ایک تو ان کے رہن سہن کی نقا لی اور دوسرے ان کے مذ
ہبی عقائد سے اپنے ایمان کا متزلزل ہو نا !!اور یہ خطرات اس وقت اور شدید
ہو جا تے ہیں جب یہ احساس رہے کہ ان کی رنگ و زبا ن، رہن سہن ایک خطے کی
وجہ سے یکسا ں ہیں !!اس صورت میں ان کے متا ثر ہو نے کا امکا ن بہ نسبت
مغربی یا سیا ہ فا م اقوا م نہا یت قوی ہو تا ہے ۔ جب تنقیدی نگا ہ سے فلم
دیکھنے کے با وجود متا ثر ہو سکتے ہیں تو ایک کورے ذہن پر کیا نقش مر تب ہو
سکتے ہیں ؟؟
اس اضطرا بی سوچ کے ساتھ جب اپنے میڈیا کا جا ئزہ لیا تو’امن کی آشا ‘ اڑ
تی نظر آ ئی .............کئی چینلز تو با قا عدہ اس مہم پر لگے ہو ئے ہیں
کہ دو نو ں ملکو ں کے نقشے جدا کر نے والی وہ لکیر مٹا دی جا ئے جو لا کھو
ں مسلما نو ں نے اپنے خو ن سے کھینچی ہے۔ با قی چینلز اس کی نقا لی میں آگے
بڑ ھنے کی کوشش میں مصرو ف اور بھا رتی کلچر کی یلغا ر میں سر تا پا ڈو بے
ہو ئے ! انٹرٹینمنٹ کے نا م سے خبریں تک با لی وڈ سے شرو ع ہو کر بالی وڈ
پر ختم ہو تی ہیں گو یا بھا رتی ایجنڈے پر ہی کام ہو رہا ہے!! کبھی کبھا ر
کوئی واقعہ ہما ری قو می حمیت کو جھنجھوڑ ضرور دیتا ہے ( راحت فتح علی خان
کی گرفتا ری! ) مگر دینی حمیت تو ایسی سو ئی ہے کہ بیدار ہو نے کا نا م ہی
نہیں لیتی خواہ ضرب ہماری معا شرتی یا معاشی مفاد پر پڑے!!اقدار کا جنا زہ
نکلتا رہے!!
اس سلسلے میں سر کا ری ٹی وی کا کر دار اگر دیکھیں تو اس کے ٹا ک شوز اور
ڈرا مو ں میں تو بھا رت کو ازلی دشمن کے روپ میں ہی دکھا یا جا تا ہے مگر
اس میں جہا ں بھارتی کلچر اسکرین پر نظر آ تا ہے ،انتہا ئی متائثر کن
گلیمرائزڈ رہن سہن پکچرا ئز کیا جا تا ہے اور اسطرح وہ منا ظر بھی جذ با ت
کو پسندید گی کی طرف ما ئل کر تے نظر آ تے ہیں ۔ یو ں اس وقت پا کستا نی
میڈیا خصو صاً الیکٹرا نک میڈیا بھا رتی ثقا فت کی بر تر ی اور خو بصو رتی
سے نا ظرین کو متائثر کر نے کی مہم پر لگے ہو ئے ہیں ۔ اس کے فوری اثرات
محسو س ہو نا شرو ع ہو گئے ہیں جبکہ دیر پا اور مہلک نقصا نا ت کا اندا زہ
اور احا طہ بھی نہیں کیا جا سکتا !
مگر سیلا ب یا پھر طو فا ن کی سی تباہی بعید از قیا س نہیں جس میں ہماری
تما م اقدار خش و خا ک کی طرح بہہ جا ئیں گی خدا نخوا ستہ!! ہمیں اس یلغار
کے آ گے فو ری بند با ندھنے کی ضرو رت ہے ورنہ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جا
ئے اور اسپین کی طرح یہا ں سے بھی ہما را نا م و نشا ن تک مٹ جا
ئے......... |