قوموں کی ترقی کا راز معیاری تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ یہ
وہ واحد شعبہ ہے جس کے گرد دیگر شعبے ایسے گھومتے ہیں جیسا کہ نظام شمسی
میں تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ پس معاشرتی ، معاشی ، فنی ، سائنسی
، ثقافتی، نظریاتی ، الغرض ہر پہلو سے قوموں کی ترقی معیاری تعلیم ہی کے
ذریعے ممکن ہے۔اَب ضرورت اس امر کی ہے کہ شعبہ تعلیم کو بہتر سے بہترین
بنایا جائے تاکہ دیگر تمام شعبے جو اس کے گرد مدار میں گھوم رہے ہیں وہ
ترقی کے منازل طے کریں۔ یہ تب ممکن ہے کہ جب ہم شعبہ تعلیم میں ٹیچر
ایجوکیشن کے پروگرام کو صحیح سمت دے دیں کیوں کہ معیاری تعلیم کا حصول اسی
میں مضمر ہے۔ ٹیچر ایجوکیشن ہمیں اچھے اور بہترین استاد فراہم کرتی ہے ۔ اس
کی مثال یوں لی جا سکتی کہ یہ ادارے ملٹری تربیتی اداروں کی طرح ہوتے ہیں
جو ملک کو تربیت یافتہ جوان مہیا کرتے ہیں اور جن کا کام ملکی سرحدات کی
حفاظت کرنا ہوتا ہے جب کہ یہ ادارے ماہر اساتذہ پیدا کرتے ہیں جو ملک کی
نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس شعبے کو پچھلے ستر سالوں
میں نظر انداز کیا گیا ہے اور ہم اس آس پہ بیٹھے میں کہ ہمارا تعلیمی نظام
بہتر نتائج دے گا، یہ محض ہماری خام خیالی ہے۔ جب آپ کا استاد ہر لحاظ سے
مہارت کا حامل نہیں ہوگا تو وہ معماران قوم کی تعلیم و تربیت کیسے کر پائے
گا۔ تعلیم میں استاد ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیمی نفسیات ، تدوین
نصاب ، تحقیق ، جائزہ و پیمائش ، انتظام و انصرام ، تدریسی حکمت عملیاں اور
منصوبہ بندی وغیرہ تک کا آخری سرا استاد پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ایسے
استاد کے لئے صرف جنرل ایجوکیشن ہی کافی نہیں ہے بلکہ ٹیچر ایجوکیشن بھی
نہایت ضروری ہے۔ بیسویں صدی میں جن اقوام نے ترقی میں کمال حاصل کیا انہوں
نے ٹیچر ایجوکیشن کے پروگراموں پر خاصی توجہ مرکوز کی۔ اگر ہم اپنا جائزہ
لیں تو ہمارے ہاں یہ معاملہ اُلٹ نظر آتا ہے۔ 1972-80 کی تعلیمی پالیسی میں
بتایا گیا کہ اس وقت ملک بھر میں ٹیچر ایجوکیشن کے محض پچپن ادارے ہیں جب
کہ ضرورت چار ہزار اداروں کی ہے جنہوں نے تین لاکھ افراد کو تربیت فراہم
کرنا ہے ۔ کیا ہم نے پالیسی پر عمل درآمد کیا اور تربیتی ادارے قائم کئے۔
جواب ، نہیں۔آج تک ہم نے کسی تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد نہیں کیاہے۔ پانچ
سالہ منصوبہ 1983-88 میں ٹیچر ایجوکیشن کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کرتے
ہوئے اس کے لئے ساٹھ ملین سے زائد روپے رکھے گئے تھے لیکن یہ منصوبہ عمل
درآمد کے لئے ترستا رہا۔ یاد رہے کہ اُس وقت ہماری اولین ترجیح کولڈ وار
تھی۔ ہمارے ملک میں منصوبے اور پالیسیاں صرف کاغذوں میں زندہ رہتی ہیں اور
پھر بھی ہم ’’سب اچھا ‘‘ ہوجانے کی اُمید یں باندھ بیٹھے ہیں۔ یاد رہے کہ
ہم نے ٹیچر ایجوکیشن کو اتنا غیر اہم بنا دیا کہ نوے کی دہائی میں معاشرے
کے قابل افراد معلمی کے پیشے سے دور بھاگتے رہے۔ موجودہ دور میں ٹیچر
ایجوکیشن گوں ناگوں مسائل کا شکار ہے۔اُن میں سے چند ایک کا تذکرہ زیر قلم
لا رہا ہوں۔ اول ، اخباری بیانات کے مطابق ، خیبر پختون خوا حکومت صوبہ بھر
میں قائم ٹیچر ایجوکیشن کے علاقائی اداروں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ صوبائی
اسمبلی میں حزب ِ اختلاف کے رہنما محمد اکرم خان درانی نے ان اداروں کو ختم
کرنے کے معاملے پر حزب ِ اختلاف کے اراکین کے ساتھ حکومت کو ایسا قدم
اُٹھانے سے منع کیا اور اسمبلی کے فلور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا۔ ہمیں
چاہیے تو یہ تھا کہ ان اداروں کی تعداد میں اضافہ کرتے اور موجود اداروں کی
حالت زار پر رحم فرماتے اور ان کی بہتری کے لئے مناسب اقدامات کئے جاتے۔
کہتے ہیں کہ حکومت ان اداروں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے توکیا ان اداروں
کو ختم کرنا اس کا حل ہے؟ جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں کہ بیسیویں صدی میں
جن ممالک نے کمال ترقی حاصل کی انہوں نے ٹیچر ایجوکیشن پروگراموں پر توجہ
دی اور اپنے عوام کو بہترین استاد مہیا کئے۔ التجا ہے کہ ٹیچر ایجوکیشن کے
اداروں کو ختم نہ کیا جائے بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور وسائل
سے لیس کیا جائے۔ جہاں ایک طرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے تو دوسری طرف
معاشرے کو اچھے اساتذہ مہیا ہوں گے۔ دوم ، خیبر پختون خوا حکومت نے اپنے
گزشتہ پانچ سالوں میں پچاس ہزار سے زائد اساتذہ کو بھرتی کیا۔ بقول ِ وزیر
تعلیم ابتدائی و ثانوی تعلیم ، صوبہ بھر میں ستر ہزار مزید اساتذہ بھرتی
کیے جائیں گے ۔امسال سترہ ہزار اساتذہ بھرتی کرنے کا پروگرام ہے۔ ان اساتذہ
کو بھرتی کرنے کے لئے اہلیت کا معیار جنرل ایجوکیشن کو رکھا گیا ہے اور
بھرتی ہونے والے اساتذہ کے لئے پری سروس تربیت کا اہتمام بذریعہ ٹیکنالوجی
کیا گیا۔ محرمان رازو اسرار کہتے ہیں کہ صرف و صرف پیسوں کا ضیاع تھا،
کروڑوں روپوں کے ٹیبلٹس خریدے گئے، تربیت کے دوران گھنٹوں بجلی نہ ہونے کی
بدولت سارا تربیتی نظام ٹھپ رہتا تھا ، ہر پندرہ روز بعد آن لائن امتحان
لیا جاتا (جس کا نتیجہ آج تک نہیں نکالا جاسکا )، مواد بہت بہترین تھا لیکن
حالت سنگین تھے ، ہر وقت یہ خوف سر پر سوار ہوتا کہ کہیں ٹیبلیٹ کو خراش نہ
لگ جائے کیوں کہ ایسا ہونے کی صورت میں چوبیس سے تیس ہزار روپے ٹرینی کو
اپنی جیب سے ادا کرنے ہوتے اور وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام حقائق سے معلوم ہوتا
ہے کہ ہم نے پچاس ہزار افراد کو روزگار فراہم کیا لیکن معاشرے کو معیاری
تعلیم کے حصول کے لئے ٹیچر ایجوکیشن کے لنگڑے لولے افراد مہیا کئے۔ سوم ،
یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اَب ان اساتذہ کی اِن سروس تربیت کیسے ہوگی ؟
کیا یہ تربیت بھی ٹیکنالوجیز کے سہارے کی جائے گی ؟ میری ذاتی رائے کے
مطابق اگر یہ ٹیکنالوجیز علاقائی ٹیچر ایجوکیشن کے اداروں کو دی جاتیں تو
نتائج اچھے سامنے آتے۔ چہارم ، گزشتہ چند برسوں سے اِن سروس تربیتی پروگرام
فنڈز کی کمی کے باعث بدترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ حالاں کہ یہ پروگرام
اساتذہ کی مہارتوں میں اضافے کے لئے ناگزیر ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں
کالج اساتذہ کی تربیت کے حولے سے صرف ایک اکیڈمی موجود ہے جو بیک وقت اسّی
تا سو افراد کی تربیتی کرواسکتی ہے ( اگر فنڈز دستیاب ہوں )۔ دل چسپ بات یہ
ہے کہ کالج اساتذہ کی اگلے گریڈوں میں ترقی اس اکیڈمی سے تربیت کے بعد کی
جاتی ہے۔ پس فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اساتذہ کی ترقیاں ہمیشہ لٹکی
رہتی ہیں۔ ٹیچر ایجوکیشن کے حوالے سے یہ چند ایک مسائل ہیں جن کا سد باب
وقت کی ضرورت ہے۔ |