کچھ خیال کرو!!!!یہ حق کس نے تمہیں دیا

زندگی اپنی رفتار سے آگے بڑھتی چلی جارہی ہے ۔کبھی صبح کبھی شام،کبھی گرمی کبھی سردی !!لیکن ان لمحوں میں کروڑہا انعامات ربّانی کے باوجود ہم نافرمانیوں اور گناہوں کے مرتکب ٹھہر جاتے ہیں ۔دانستہ و نادانستہ نہ جانے کتنے گناہوں کے کام روز مرہ کی زندگی میں ہورہے ہوتے ہیں کہ غفلت کی وجہ سے ہمیں خبر تک نہیں !!
ایک نہایت گھناؤنا فعل !!جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کی ساکھ کو تباہ کرتاچلاجارہاہے ۔!!!معاشرے میں اس برائی کی وجہ سے زندگیاں تباہ اور سکون برباد ہورہاہے ۔۔۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے آخر وہ قابل گرفت اور قابل مذمت عمل ہے کیا!!
قارئین نہایت توجہ سے پڑھیے جو ہم کہنا چاہتے ہیں !!!
وہ فعل ،وہ عمل تہمت لگاناہے ۔کسی کو اس کے ناکردہ عمل کا سزاوار گننا ہے ۔یہ گناہ انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے وہ تہمت ہے اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر تہمت لگاتا ہے تو وہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کرتا ہے۔
قارئین ذی قدر!!
اب سوال یہ ہوتاہے کہ آخر تہمت ہے کیا ؟ تہمت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی کی طرف ایسے عیب کی نسبت دے جو اس کے اندر نہ پائے جاتے ہوں ۔ تہمت گناہِ کبیرہ ہے اور قرآن کریم نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئےاس کے لئے سخت عذاب کاذکر کیا ہے۔
آئیے حدیث مبارکہ کی روشنی میں بہتان کے متعلق جانتے ہیں :
سرکارِ مدینہ قرارِقلب وسینہ ،صاحب معطر پسینہ، باعث نزول ِسکینہ ،فیضِ گنجینہ ، شہنشاہ ِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے غیبت کے بارے میں سوال کیا گیا: غیبت کیا ہے ؟تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ـ:غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس میں پائے جانے والے کسی عیب کا تذکرہ کرو اور اگر تم کسی ایسے عیب کو اس کی طرف منسوب کرو جو اس میں نہ ہوتو بے شک تم نے اس پر بہتان لگا دیا۔۔۔(جامع الترمذی،کتاب البروالصلۃ،باب ماجاء فی الغیبۃ،رقم۱۹۴۱،ج۳،ص۳۷۵)
قارئین:
تہمت معاشرے کی سلامتی کوجلد یا بدیرنقصان پہنچاتی ہے اور اجتماعی عدالت کو ختم کردیتی ہے ، حق کو باطل اور باطل کو حق بناکر پیش کرتی ہے ، تہمت انسان کو بغیر کسی جرم کے مجرم بناکر اس کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیتی ہے ۔ اگر معاشرے میں تہمت کا رواج عام ہوجائے اور عوام تہمت کو قبول کرلیں اس پر یقین کرلے تو حق باطل کے لباس میں اور باطل حق کے لباس میں نظر آئے گا۔
یادرہے :
وہ معاشرہ ، جس میں تہمت کا رواج عام ہوگا اس میں حسن ظن کو سوء ظن کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اورلوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد و بھروسہ اٹھ جائے گااور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا یعنی پھر ہر شخص کے اندر یہ جرات پیدا ہوجائے گی کہ وہ جس کے خلاف ، جو بھی چاہے گازبان پر لائے گااوراس پر جھوٹ ، بہتان اور الزام لگا دے گا۔
جس معاشرے میں تہمت و بہتان کا بہت زیادہ رواج ہوگا اس میں دوستی و محبت کے بجائے کینہ و عداوت زیادہ پائی جائے گی اور عوام میں اتحاد اور میل و محبت کم اور لوگ ایک دوسرے سے الگ زندگی بسر کریں گے۔کیونکہ ان کے پاس ہر صرح ای دولت ہونے کےباوجود محبت جیسی نعمت سے محروم ہوں گے اور ہر انسان اس خوف و ہراس میں مبتلا ہوگا کہ اچانک اس پر بھی کوئی الزام عائد نہ ہوجائے۔تہمت کے بےشمار فردی اور اجتماعی برے اثرات موجود ہیں۔
تہمت لگانے والے شخص کے دل سے ایمان کے رخصت ہونے کی وجہ یہ ہےکہ ایمان ہمیشہ سچائی کے ساتھ رہتا ہے اورحقیقت یہ کہ تہمت دوسروں پر جھوٹا الزام عائد کرتی ہے لہذااگر کوئی شخص دوسروں پر بہتان اور تہمت لگانے کا عادی بن جائے گا تو صداقت وحقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہوگا اور اس طرح دھیرے دھیرے دوسروں پرتہمت و بہتان لگانے والے کا ایمان ختم ہوجائے گا اور اس کے قلب میں ذرہ برابربھی ایمان باقی نہیں رہےگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
اسلام نے ایک جانب توتہمت کو حرام قرار دیا ہے اورہمیں حکم دیا ہےکہ ایک دوسرے کے ساتھ سوء ظن سے پیش نہ آئیں اور معتبر دلیل کے بغیر کسی پر بھی الزام عائد نہ کریں۔اور دوسری جانب انھیں حکم دیا ہے کہ اپنے کو بھی معرض تہمت میں نہ ڈالیں اور ایسی گفتگو اور عمل سے پرہیز کریں جو سوء ظن کا سبب بنے۔
اسی وجہ سے روایتوں میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے کہ مومنین کو چاہئیے کہ گناہگاروں اورفاسقوں کی ہمنشینی سے پرہیز کریں کیونکہ ان کےساتھ نشست و برخاست کی بناءانکی عادتوں کا خصلتوں کا اثر بھی باقی رہے گا۔
قرآن مجید فرقان حمید میں بھی بہتان لگانے والوں کی مذمت فرمائی ہے ۔
وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا(سورۃالنسا ،آیت ۱۱۲)
ایک اور آیت مبارکہ پڑھیے اور یہ جان لیجئے کہ بہتان کی عادت کس قدر دینی اور دنیاوی اعتبار سے نقصان دہ ہے ۔
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ۔۔تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۲۲۲)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :کیا میں تمہیں بتادوں کہ کس پر اُترتے ہیں شیطان۔۔اُترتے ہیں ہربڑے بہتان والے گناہگار پر(سورۃ الشعرأ ،آیت:۲۲۲،۲۲۳)
اسی طرح ایک اور مقام پر بہتان کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(سورۃ النحل ۔آیت ۱۰۵)
ترجمہ ٔ کنزایمان :جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے(ف۲۴۲)اور وہی جھوٹے ہیں
دیکھا آپ نے !!
توپھر سوچ لیں !!!بہتان جیسے قبح اور شنیع کام میں ملوث تو نہیں !!
اپنی روزمرّہ زندگی کا محاسبہ کیجئے !!اور سوچیے !!کہیں یہ برباد کرنے والا عمل آپ کی ذات کا حصہّ تو نہیں ؟
یادرکھیں !!!!!!!!!!!
٭کسی پر بہتان لگانا اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ملائکہ مقربین کی ناراضگی کا باعث ہے۔
٭بہتان تراشی سے ایک اچھا خاصہ بہترین معاشرہ فساداور برائی میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔
٭لوگوں پر بہتان لگانے والے کوسماج و معاشرے میں نا پسندیدہ اور بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔
٭بہتان ایک مسلمان کی شان سے بہت بعید ہے یہ تو منافقین کا شیوہ و عادت ہے۔
٭بہتان تراش شخص اپنی نظروں میں گر جاتا ہے، نیک بختیوں اور سعادتوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔
٭بہتان حق کو باطل اور باطل کو حق کے ساتھ غلط ملط کرنے کی کوشش کرتا ہےاور بے گناہ اور معصوم شخص کو مجرم و گناہ گار اور مجرم کو بَری ثابت کرنے کی مذموم اور ناکام کوشش میں لگا رہتا ہے۔
قارئین:
کیا آپ چاہتے ہیں یہ تمام نقصانات اور برائیاں آپ کی زندگی میں آئیں !!
یقیناََ آپ کا جواب نفی میں ہوگاکہ ہر گز نہیں ۔۔۔ہم بہتان نہیں لگائیں گے !!ہم بہتان سے بچیں گے !!
ہمارا بھی آپ کو یہی مشورہ ہے !!!ہم بھی آپ سے یہی مدنی التجاکرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہتان گناہ ہے ۔!!!!بہتان لگانا کسی طور پر بھی نفع بخش عمل نہیں !!!
تو پھر خدارا!!!!ایسا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل کی رضااور اپنی آخرت کی بہتری کے لیے ہرگز ایسا نہ کریں
خدارا!!ایسا نہ کریں !!! خدارا!!ایسا نہ کریں
نوٹ: آپ کی خیرخواہی ہمارا عز م۔۔۔آن لائن ٹیوشنز اور کونسلنگ اور طبی و شرعی رہنمائی کے لیے آپ کے لیے ہماری سروس ہمہ وقت حاضر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ وٹس ایپ 0311/2268353یا پھر اس نمبر 0346\2914283پربعد نماز عصر تا رات ۱۲بجے تک رابطہ کرسکتے ہیں ۔۔نیز [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں ۔

 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593862 views i am scholar.serve the humainbeing... View More