آہ ! اپنا بھی ٹائم آئے گا ۔۔۔۔۔ ریحان کی شرٹ پر لکھی
تحریر اور اس پر کیا جانے والا ظلم دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا
۔۔ شاید اس شرٹ کو پہنتے وقت پندرہ سالہ ریحان نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا
کہ گھر کی دہلیز سے قدم باہر رکھنے کے بعد کبھی ُاس کا ٹائم نہیں آئے گا
۔۔۔
|
|
کراچی کے پندرہ سالہ نوجوان ریحان کو چوری کے شبے میں کچھ مہذب ، تعلیم
یافتہ نوجوانوں نے برہنہ کر کے اور رسیوں سے باندھ کر بےہیمانہ تشدد کا
نشانہ بنایا لاتیں، ڈنڈے، گھونسے، کیا نہیں تھا جو اس نوجوان نے نہ سہا ہو،
کتنی تکلیف تھی جو اس نے سہی ہوگی ۔ مار تو سہی ہی سہی ،،لیکن اس سے بھی
زیادہ ظلم برہنہ کر کے ویڈیو بنانا تھا، اتنی ذلت ، اتنی رسوائی ، اتنی بے
بسی کہ الفاظ نہیں ! بے بس بچے پر اتنا تشدد کیا گیا کہ بالاآخر اس نوجوان
کی نازک ہڈیاں یہ درد ، تکلیف نہ سہہ سکیں اور وہ اپنا ٹائم آنے سے پہلے
ہی اس دنیا سے چلا گیا ۔
ہمارے معاشرے میں ماب لنچنگ یعنی ہجوم کے تشدد اور ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے
جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،بازاروں ، گلیوں ، چوراہوں پر کبھی کسی
کو دین کے نام پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی کو چور ڈکیت کہہ کر ، کبھی
کسی ہراساں کئے جانے کے الزام میں مار دیا جاتا ہے۔
ریحان کی خبر کو پڑھتے اور ویڈیو دیکھتے وقت میرے ذہن میں ایک بار پھر
سانحہ سیالکوٹ اور مشال قتل کیس کسی فلم کی طرح چلنے لگے ۔ 15 اگست 2010 کی
صبح اور رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور سیالکوٹ کے بھرے بازار میں قانون
کے پاسداروں کے سامنے دو بھائیوں کو چوری کے شبے میں سرعام مارا گیا ۔ لیکن
اس ہجوم میں کھڑے کسی انسان کو معلوم نہیں تھا کہ یہ افراد ان بھائیوں کو
کیوں مار رہے ہیں۔ مارے جانے والے بچے چور تھے یا نہیں اس سے کسی کو کوئی
فرق نہیں پڑ رہا تھا کیونکہ وہاں کھڑے لوگ تماش بین تھے، ویڈیو بنانے میں
مصروف تھے کسی کو فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ اس تشدد کے بعد کسی ماں کی گود
اجڑ جائے گی۔ تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ مارے جانے والے دونوں بھائی چور
نہیں تھے بلکہ ذاتی رنجش میں مارا گیا تھا۔ آخر کار قتل کے پانچ سال بعد
دونوں بھائیوں کو انصاف مل سکا ۔۔ لیکن کیا ان سب کو سزائے دینے کے بعد وہ
واپس آسکتے ہیں ؟ کیا ان کے والدین کو ان کا دکھ ، ان پر کیے جانے والا
ظلم بھول سکتا ہے ؟ میرا خیال ہے نہیں ۔۔
2017 میں مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں ذیر تعلیم نوجوان مشال خان
کو مشتعل ہجوم نے توہین رسالت کا الزام لگاکر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا
گیا ، وہی ظلم کی داستان دہرائی گئی ۔۔ ڈنڈے ،لاتیں، پتھر ، گھسیٹنا کیا
نہیں ظلم تھا جو اس پر کیا گیا ہو ، لیکن وہ کوئی چور ، ڈکیٹ یا رہزن نہیں
تھا بلکہ اس کا قصور اساتذہ کے نا حق مطالبات کے آگے ڈٹ جانا تھا، جن
انگلیوں سے وہ سچائی لکھتا تھا وہ توڑ دی گئیں ، جو زبان حق کے لئے بولتی
تھی بند کردیا گیا ۔۔ اور وہ بھی اپنا ٹائم آنے سے پہلے اس ظالم دنیا سے
چلا گیا ۔ قتل کے بعد مقدمہ چلا تفتیش شروع ہوئی اور معلوم ہوا کہ توہین
رسالت کا مورد الزام ٹھہرائے جانے والے نوجوان مشال کو باقاعدہ منصوبہ بندی
کے بعد قتل کیا گیا تھا جس کے بعد مرکزی ملزمان اب تک فرار ہیں ۔
کتنے مظالم ہیں جو لکھتے لکھتے شاید ہاتھ تھک جائیں یا ذہن بھی لیکن ان
داستانوں کی تعداد ختم نہیں ہوگی۔ بہرحال ان تمام کیسز میں دو چیزیں اہم
ہیں جن پر ہم سب کو بحیثیت انسان سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک
ہجوم میں کھڑے افراد کی اندھی تقلید اور لاشعوری ہے اور دوسرا سوشل میڈیا
کا غلط استعمال ۔ سانحہ سیالکوٹ ہو، مشال قتل کیس یا کراچی کا ریحان ان
تمام واقعات میں کھڑے کسی بھی فرد کو ان کے مجرم کے ہونے یا ہونے کی تصدیق
نہیں تھی اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ تشدد کرنے والے افراد کیوں تشدد کررہے
ہیں۔ وہ تو بس اندھی تقلید کے فارمولے پر عمل پیرا تھے، اندھے ، گونگے ،
بہرے لوگ ۔۔۔
دوسرا کیا کبھی ہم نے سوشل میڈیا پر ان ظلم کی تصاویر اور ویڈیوز شئیر کرتے
وقت کبھی سوچا ہے کہ متاثرہ خاندانوں پر کیا بیتے گی، کیا کوئی ماں ، کوئی
باپ ،یا کوئی بہن یا بھائی اپنے پیاروں پر کیے جانے والے اس ظلم کو دیکھ
پائے گا؟؟ کیا اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد کسی میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ
ظلم کے بعد ایک اور ظلم سہے گا۔۔خدارا اپنا انسان ہونے کا حق ادا کریں لیکن
بول کر، لکھ کر ، آواز بن کر لیکن اس قسم کی ویڈیوز اور تصاویروں کو شئیر
کرنے سے اجتناب کریں ،۔۔ یقین جانیں بہت تکلیف دہ ہے یہ سب ۔۔۔
|
|
سوشل میڈیا پر خبر پھیلنے کے بعد پولیس نے قتل کرنے والے نوجوانو ں کو
گرفتار کرلیا ہے جبکہ کچھ افراد فرار ہوگئے ہیں۔ اور تفتیش کا عمل جاری ہے
۔
میں ریحان کی حمایت نہیں کرتی اور نہ کہتی ہوں کہ ریحان چور یا ڈاکو نہیں
تھا ،لیکن اگر وہ چور تھا یا ڈاکو تھا تو کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم
قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیں ؟کیا ہمیں بحیثیت مسلمان یہ زیب دیتا ہے کہ
ہم کسی کی اس طرح سے جان لیں ؟کیا ہمارے ایمان اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ ہم
کسی پر ہونے والے ظلم پر صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ کی مثال بن جائیں ۔ کیا
معاشرے میں ہونے والی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے صرف ویڈیو بنا کر شئیر
کرنے سے ہم اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں ۔
بہرحال اس واقعے کے ملزموں کو سزا ملتی ہے یا نہیں یا شفاف تحقیقات ہوتی ہے
یا نہیں ۔۔ یہ وقت بتائے گا لیکن مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے
لئے ہمیں اپنی آنکھیں ، دماغ اور کان کھلیں رکھنے ہیں اور اندھی تقلید سے
اجتناب کرنا ہے ۔ ورنہ شاید ان سب سے دوری کسی ریحان ، مشال اور معاز جیسے
نوجوانوں کا اپنا ٹائم آنے سے پہلے کھو دیں گے ۔۔!
|