پاکستان میں سوشل میڈیا سے شہرت پانے والی ماڈل قندیل
بلوچ کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ان کے دو بھائیوں کو قندیل کے والدین نے
معاف کرکے اُن کی رہائی کی درخواست کی ہے۔
|
|
ماڈل کورٹ ملتان میں جمع کرائے گئے ایک حلف نامے میں قندیل کے والد عظیم
بلوچ نے کہا کہ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو معاف کر دیا ہے اس لیے کیس کے
مرکزی ملزمان وسیم اور اسلم شاہین کو رہا کر دیا جائے۔
قندیل بلوچ کو تین سال پہلے پندرہ جولائی کے روز سوتے میں گلا گھونٹ کر قتل
کر دیا گیا تھا۔ قندیل کے ایک بھائی نے شروع میں یہ کہہ کر اس کے قتل کا
اعتراف کیا تھا کہ ان کی بہن خاندان کی بدنامی کا سبب بن رہی تھیں۔ تاہم
بعد میں ان سمیت دیگر تمام ملزموں نے صحت جرم سے انکار کر کیا۔
|
|
عدالت میں قندیل کے والد نے موقف اختیار کیا کہ یہ کیس غیرت کے نام پر قتل
کا نہیں۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے قوانین میں ترامیم کر کے اسے
سخت بنایا گیا ہے تاکہ با اثر ملزمان قصاص کے شرعی قانون کی آڑ میں مقتول
یا مقتولہ کے خاندان پر دباؤ ڈال کر یا انہیں لالچ دے کرقانون کی گرفت سے
نہ بچ پائیں۔ لیکن قندیل کے والد کا موقف ہے کہ یہ ترامیم اُن کے بیٹی کے
قتل کے بعد متعارف کرائی گئیں اس لیے ان کا اطلاق اس کیس پر نہیں ہوتا۔
قندیل کے والد اس سے پہلے بھی پچھلے سال عدالت میں ملزموں کی رہائی کی کوشش
کر چکے ہیں۔
|
|
کیس کے ابتدائی مہینوں میں قندیل کے والد نے قتل کی ذمہ داری اُس وقت رویت
ہلال کمیٹی کے رکن اور معروف مذہبی شخصیت مفتی عبدالقوی پر ڈالی تھی۔ قندیل
کے والد کے بقول ان کی بیٹی کے قتل کے لیے ان کے بیٹوں کو مبینہ طور پر
مفتی قوی نے اکسیا تھا۔ اس وقت صحافیوں کے سامنے انہوں نے دعوٰی کیا تھا کہ
وہ اس ظلم کا حساب لے کر رہیں گے۔
قتل سے ایک ماہ پہلے قندیل بلوچ نے مفتی قوی کے ساتھ ہوٹل میں ملاقات کی
اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کی تھیں۔ ان تصاویر اور وڈیوز سے قندیل نے
بظاہر 'شرافت کا درس دینے والے شخص کا اصل چہرہ‘ دکھانے کی کوشش کی۔ مفتی
قوی کے ساتھ قندیل بلوچ کی یہ سیلفیاں کافی وائرل ہوئیں، جس سے مفتی قوی کو
خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پاکستان میں بعض حلقوں نے قندیل کو فرسودہ سماجی روایات کے خلاف آواز
اٹھانے پر ایک بہادر لڑکی قرار دیا تو دوسری طرف مذہبی اور قدامت پسند
حلقوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ سستی شہرت کے لیے نوجوانوں کو گمراہ کر
رہی تھیں۔
|
|
قندیل کا تعلق غریب گھرانے سے تھا اور وہ اپنے کام سے جو کچھ کماتی تھیں،
اس سے اپنے گھر والوں کی مدد کرتی تھیں۔
قندیل کے قتل کے بعد ان کی زندگی پر پاکستان میں کتاب لکھی گئی اور دستاوزی
فلمیں بھی بنیں۔ قندیل بلوچ کا قتل عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بنا۔
قندیل بلوچ کے والدین کے موقف میں تبدیلی پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر
ردعمل سامنے آیا ہے۔ صحافی سمیرا ججہ نے کہا ''بیٹی زندہ ہو یا مردہ، اُس
کی اوقات ایک ہی ہوتی ہے۔ اگر اہمیت ہوتی ہے تو صرف بیٹوں کی۔‘‘
|
|
سندھو عباسی نے لکھا، '' جانے دو بیٹی، بڑا بھائی ہے۔‘‘
|
|
مہوش اعجاز نے کہا، ''اپنی بہنوں کا قتل کرتے رہو، کیونکہ تمہارے باپ تمہیں
معاف کرتے رہیں گے۔‘‘
|
|
Partner Content: DW |