ٹیکسلا کا سبق

ٹیکسلا پاکستان کا وہ شہر ہے جوقدیم تہذیبوں کے آثار کا امین ہے۔اس شہر میں موجود پرانی تہذیبوں کے آثار دیکھ کر انسان پر ایک عجیب سی ماورائی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ چشم تصور خودبخود فعال ہو کر دیکھنے لگتی ہے کو یہ کھنڈرات کبھی جیتی جاگتی انسانی بستیاں ہوںگی ۔ان میں بسنے والے انسانوں نے اپنے شہروں کے خوبصورت سے نام رکھے ہوں گے جن سے انتساب پر انھیں فخر ہوتا ہوگا۔مختلف تہواوروں پر یہ لوگ بھی اپنی بستیوں کو اسی طرح سجاتے ہوں گے جیسے ہم آج اپنے جدید شہروں کی آرائش کرتے ہیں۔یہ اجڑی ہوئی عبادت گاہیں کبھی پرجوش مذہبی جذبات کا مسکن رہیں ہوں گی ۔ان میں اس دور کے عالم مذہبی مسائل پر نت نئی مو شگافیاں کرتے ہوں گےاور یہ مسائل اس وقت ان کی نظروں میں اسی طرح اہم ہوتے ہوں گے جس طرح کہ ہمارے آج کے علماء بعض مسئلوں کو کفر و ایمان کی کسوٹی قرار دیتے ہیں۔ان کھنڈرات میں موجود ویران گلیاں بازار کبھی بھر پور تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کے مرکز ہوتے ہوں گے۔سرمایہ دار لوگ ان بازاروں میں گردنیں اونچی کرکے چلتے ہوں گےاور غریب لوگ ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے کچھ کچھ ویسی ہی باتیں سوچتے ہوں گے جیسی آج کے عہد میں سوشلسٹوں کے ذہن میں آئیں۔یہ شکستہ قلعے کبھی ان قوموں کی دفاعی صلاحیتوں اور عسکری شجاعتوں کی علامت کہلاتے ہوں گےاور ان کے فوجی سپہ سالار خم ٹھونک کر کہتے ہوں گےکہ قوم کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہےاور مخالف قوم انھیں جارحیت کا نشانہ نہیں بنا سکتی ۔

یہ ٹوٹے پھوٹے برتن خانہ دار خواتین نے بڑی چاہت سے خریدے ہوں گےاور انھیں گھر میں ایسی جگہ سجایا ہوگا جہاں پڑوسی عورتوں کی حسد بھری نظریں پڑتی رہیں۔ان پرانی بستیوں کی منہدم دیواروں کے اندر کبھی زندگی سے لبریز چاردیواری کی دنیا آباد ہوگی جس میں ایسی ہی جذباتی داستانیں جنم لیتی ہوں گی جیسی ہم آج ڈائجسٹوں میں پڑھتے ہیں ۔

اس قدیم سماج میں بھی مردخوبصورت عورتوں کا دل جیتنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتے ہوں گے اور عورتیں آپس میں بیٹھ کر شکایتیں کرتی ہوں گی کہ مرد ہرجائی ہوتے ہیں اور عور توں کو آزادی نہیں دیتے!

ان قدیم تہذیبوں کے شہریوں کو بھی اپنے حکمرانوں سے ایسے گلےشکوے ہوتے ہوں گے کو یہ صرف اپنی تجوریاں بھر تے ہیں اور ان کے دل غریب عوام کے دکھ درد سے ناآشنا ہیں۔

مگرآج یہ سب لوگ اپنی تہذیب ، اپنی معشیت ،اپنی عسکری طاقت اور اپنے تعمیراتی شاہکاروں سمیت نابود ہوچکے ہیں۔ اپنے وقت میں انھیں اپنا تمدن اور اپنی دنیا ایک زندہ حقیقت محسوس ہوتی ہوگی ، مگر آج ان کا جہاں اور ان کی معاشرت ایک بے جان افسانہ بن چکے ہیں۔وہ جو کچھ کل تھے، وہی کچھ آج ہم ہیں۔کوئی زلزلہ،کوئی طوفان،کوئی ناگہانی آفت ان کی طرح ہمیں بھی آثارِ قدیمہ میں تبدیل کرسکتی ہے۔پھر مستقبل کے ماہرینِ آثارِقدیمہ ہمارے تباہ شدہ مکانوں کے اندر دبی پڑی اشیاء کے ذریعے ہمارے رہن سہن کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے پھر رہے ہوں گے۔یہ تباہ شدہ تہذیبیں دراصل اپنے اندر ہمارے لیے بہت قیمتی رہنمائی لیے ہوئے ہیں کہ اس محدود مہلت میں زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سمیٹ لینا کتنا ضروری ہے۔

ذرا فرض کر لیجیے کہ ایسی ہی تباہ حال قدیم تہذیب کے سب سے دانا فرد کو روحانی طور پر پھر اس دنیا میں حاضر کر لیا جائے اور اسے اپنی دنیا کے ویران کھنڈروں پر لے جاکر پوچھا جائے : ’’ایسی ہولناک تباہی کے نتیجے میں فنا ہو جانے کے بعد اب تم کیا سمجھتے ہوکہ تم لوگوں کا طرز ِتمدن کیسا ہونا چاہیئے تھا؟‘‘ تو وہ بڑے حسرت بھرے لہجے میں گویا ہوتا:’’ اگر ہمیں ذرا بھی پتا چل جاتا کہ ایسی بربادی ہماری گھات میں ہے تو ہم اپنے سوچنے کا انداز اور طرززندگی بالکل بدل لیتے۔پھر ہم کبھی اپنی اجتماعی مسرتوں کو آپس کے تنازعوں اور باہمی کشمکش میں کھو دینے کو حماقت کرتے۔ہم مذہبی اختلافات میں الجھنے کی بجائے مذہب کی تعلیمات کے نفسیاتی ثمرات اور سماجی فوائد کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھاتے۔ہم اپنے ہاں کے معاشی عدم توازن اور امارت و غربت کے فرق کو خوشگوار مصالحت کے ذریعے دور کرنے کی تدبیریں کرتے۔ اپنے مالی وسائل کو جنگ وجدل میں جھونکنے کی بجائے لوگوں کیلئے زندگی کی بہتر سہولتوں کی فرہمی پر صرف کرتے۔اپنی جذبانی توانیاں نفرت ،حسد اور تصادم میں ضائع کرنے کی بجائے اپنائیت،خلوص اور دوستی کی قدروں کو فروغ دیتے۔ہم مرد و زن ایک دوسرے سے شکوے شکایتیں کرنے کی بجائے ان خوبصورت رشتوں کو مضبوط کرنے کی فکر کرتے جن میں ہم باہم منسلک تھے مثلاً باپ بیٹی،ماں بیٹا،بہن بھائی اور میاں بیوی۔ہم چھوٹے چھوٹے مسائل پر کڑھنے کی بجائے تمدنی زندگی کا زیادہ سے زیادہ لطف اٹھاتے!!!!!!!!!!!!!‘‘

یہ حقیقت ہے کہ ہم انسان اس کرۂ ارض پر بہت ہی محدود وقت کے لیے موجود ہیں۔لیکن ہم زیادہ تر اپنی اجتماعی زندگی کو بدگمانیوں اور غیر ضروری سنجیدگی سے بوجھل بنائے رکھتے ہیں۔حال میں حاصل مسرتوں کو نظر انداز کرکے مستقبل کی مفروضہ خوشیوں کے سپنے دیکھتے رہتے ہیں ۔جب وقت کا ایک حصہ گذر کر ماضی بن جاتا ہےتو ہم اس کی خوبیوں اور شادمانیوں کی مالا جپنے لگتے ہیں۔حالانکہ اگر یوں سوچ لیا جائے کہ موجودہ وقت بھی کبھی ماضی ہوگا جسے ہم مستقبل میں خوشگوار انداز میں یاد کیا کریں گے، تو ہمیں زمانۂ حال اور اس میں دستیاب رشتوں ناطوں،قربتوں اوردوستیوں کی قدر آجائے!

ٰIrfan Mehmud
About the Author: ٰIrfan Mehmud Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.