پچھلے دنوں اردو اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس
میں لکھنو سے تعلق رکھنے والی ایک ماں نے اپنے بیٹے کو حج پر لے جانے کے
لئے پوری تیاریاں کرلی تھیں ، عین احرام باندھنا تھا کہ بیٹا ماں کو چھوڑ
کر فرار ہوگیا ،مجبوراََ ماں کو بغیر کسی محرم کے حج پر جانا پڑا ، حج پر
محرم کے ساتھ جانا یا نہ جانا یہ الگ بات ہے ، لیکن اس معاملےمیں سب سے بڑی
اور بری بات یہ ہے کہ جو ماں اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ لے جارہی تھیں انہوں
نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنایا تھا اور اسکی پرورش میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی تھی باوجود اسکے بیٹا اپنی ماں کو حج پر لے جانہیں سکا وہ بھی
اپنی ماں کے ہی پیسوں میں !۔ایک اور واقعے میں 15 سالہ بیٹی نے اپنے باپ کو
محض اس وجہ سے قتل کردیا کہ باپ نے بیٹی کے پاس سے موبائل فون ضبط کرلیا
تھا کیونکہ وہ موبائل فون پر اپنے عاشق کے ساتھ ہمیشہ محو گفتگو ہوا کرتی
تھیں ،اس بچی نے غصے میں آکر اپنے باپ کو پہلے قتل کیا پھر اسکی لاش کو
گھر میں ہی جلاکر واردات کو چھپا نے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام
ہوئی اور گرفتار ہوگئی ۔ اس طرح کے حالات روز بروز دیکھنے اور سننے میں
آرہے ہیں کہ بچے اپنے والدین کے نافرما ن ہورہے ہیں ۔ دراصل ایسے واقعات
ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر تو پوری توجہ
دیتے ہیں ، انہیں اچھے اسکولوں میں پڑھانا اور انکی ہر فرمائش کو پورا کرنے
کو والدین اپنا فرض مانتے ہیں لیکن انکی اخلاقی تربیت کے تعلق سے جو لاپر
واہی برتتے ہیں اسی کی وجہ سے وہ اپنےماں باپ کی عزت و احترام کرنے سے گریز
کرتے ہیں۔ ہر مذہب میں والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم قرار دیا گیا
ہے خصوصََا اسلام میں تو والدین کی اطاعت کو فرض قرار دیا گیا ہے ،اسی طرح
سے بچوں کی پرورش کو بھی والدین پر فرض قرار دیا گیا ہے لیکن ہمارے یہاں
والدین آج کل یہ طئے کرچکے ہیں کہ اچھی اسکول میں داخلہ دلوانا اورانہیں
انگریز ی فر فر سکھانے کو ہی پرورش کا نام دیا جارہاہے جس کی وجہ سے بچوں
میں والدین کی اہمیت و عظمت باقی نہیں رہ رہی ہے ۔ جب تک والدین اپنے بچوں
کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت نہیں دیتے اس وقت ماں باپ کا حشر ایسا
ہی ہوتا رہے گا ۔ کچھ لوگ اُن بچوں و والدین کو پسماندہ اور پرانی سوچ والے
سمجھتے ہیں جو اپنے بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی
آراستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اسکولوں و کالجوں کے بعد مساجد و مدرسوں
میں انہیں تعلیم دلوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب کہ ماڈرن لائف کا نام دینے
والوں کی نظر میں یہ سب پرانی سوچ ہے اور وہ اپنے بچوں کو میوزک کلاسس ،
سوئمنگ کلاسس، آرٹ کلاسس کو ماڈرن لائف سے جوڑتے ہیں ۔ اللہ کے رسولﷺ نے
فرمایا ہے کہ تم اپنے بچوں کی تربیت اس طرح سے کرو کہ تمہارے اس دنیا سے
گزر جانے کے بعد انکے ہر اچھے کام کا ایصال ثواب تم تک پہنچتا رہے ، جس طرح
سے ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے بڑی بڑی اسکولوں میں داخلہ دلواتے ہیں اسی
طرح سے انکی تربیت کے لئے خود بھی وقت نکالیں اور مدرسوں و مسجدوں میں کچھ
وقت گزارنے کی انہیں تلقین دیں تو یقیناََ بچوں میں ایمانی سوچ پیدا ہوگی
اور انکی فکر اخلاقی فکر ہوگی ۔ ویسے بھی ہم ہر دن والدین کی نافرمانی کرنے
والوں کے واقعات سنتے رہتے ہیں ، اولڈ ایج ہومس کی تعداد بھی بڑھنے لگی ہے
جہاں پر بچوں کے ہوتے ہوئے بھی ماں باپ لاوارث بن کر زندگی گزار رہے ہیں ،
کچھ والدین کی اولادیں ہوتے ہوئے بھی وہ صرف اپنے ماں باپ کی املاک اور
جائیداد کا حساب رکھنے کے لئے محدود ہوچکی ہیں ، زندہ ماں باپ کی انہیں فکر
نہیں رہتی بلکہ انکی آمدنی و املاک کی فکر اچھی طرح سے رہتی ہے ایسے بچوں
کی پرورش میں اگر ماں باپ کی جانب سے کسی طرح کی کوتاہی ہوئی ہوتو ایسے دن
دیکھنے پڑھتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ جیسی کرنی ۔ویسی بھرنی ہے ۔ آج والدین
اپنے بچوں کی تربیت صحیح طریقے سے نہ کریں گے تو انہیں بعد میں اسکا خمیازہ
اٹھا نا پڑیگا ۔ آخرت میں یہ پوچھا نہیں جائیگا کہ تم نے اپنے بچوں کو
کونسی کالج و اسکول میں پڑھایا تھا اور نہ ہی یہ پوچھا جائیگا کہ اسٹیٹ
سلیبس پڑھایا تھا سی بی یس ای سلیبس پڑھایا تھا بلکہ یہ پوچھا جائیگا کہ تم
نے اپنے بچوں کی پرورش کو اسلامی تعلیمات کے مطابق کی تھی یا نہیں ۔ اس وقت
بچے بھی گواہی یہی دینگے کہ میرے ماں باپ نے مجھے دنیاوی علم تو سکھایا
لیکن دین سے جوڑنا شرم کی بات سمجھی تھی جس کی وجہ سے ہمیں دینی تعلیم نہیں
مل سکی ۔ اچھے کل کے لئے آج ہمیں اچھی تربیت دینے کی ضرورت ہے ورنہ کل
ہماری ہی اولاد ہمیں بھوکا پیاسہ مارے گی ، یہ وہی اولاد ہوگی جن کی تعلیم
کے لئے ہم بھوکے پیاسے رہ کر تربیت نہ دیتے ہوئے مغربی تہذیب سے جوڑنے کی
کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔
|