امیروں کی بڑی بڑی نا جائز خواہشیں بھی پل بھر میں پوری
ہو جاتی ہیں، اور غریبوں کی جائز خواہشیں بھی پوری ہوتے ہوتے عمر گنوا دیتی
ہیں۔ امیر شخص یہ سوچتا ہے کہ میں پیدا ہی خوش نصیب ہوا ہوں، اور غریب پیدا
ہی بد نصیب ہوا ہے۔غریب آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ پیدا ہی بد نصیب ہوا ہے
اور امیر تو ہوتے ہی خوش نصیب ہیں۔ امیر آدمی دنیا کے ہر میدان میں جیت
جاتا ہے، غریب آدمی دنیا کے ہر امتحان میں ہار جاتا ہے۔
صبر اور شکر کرنے والا سوکھے نوالے پر بھی صبر اور شکر کر سکتا ہے۔ صبر اور
شکر نہ کرنے والا سونے کے نوالے کھلانے سے بھی راضی نہیں ہوتا۔ دنیا غریب
اور امیر دونوں کی برابر آزمائش گاہ ہے۔ خدا کے نزدیک اعزاز صرف نیک اعمال
کی ہے۔ جسے زیادہ دیا گیا اس کا حساب بھی اسی قدر سخت ہو گا۔ جسے جس قدر
ملا اُسے اِسی قدر فکر مند ہونا چاہیے، دنیا کا غریب سے غریب انسان، دنیا
کے امیر سے امیر انسان پر اعمال میں بھاری ہو سکتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے
لوگوں کو خدا نے بہت ہی زیادہ نوازا ہے، مگر ہماری خواہشات ہمیں اندھا کر
دیتی ہیں اور مزید سے مزید کی دوڑ میں دوڑاتی رہتیں ہیں۔
شائد جب ہم دوڑ دوڑ کر تھک جائیں تب ہمیں خبر ہو کہ اعمال کے لے دوڑنا
خواہشات کے لیے دوڑنے سے بہت آسان تھا۔ غریب تو بیچارہ دوڑتا ہی دو وقت کی
روٹی کے لئے ہے، اس کی تو دوڑ دھوپ بھی اس کے اعمال کا اولین حصہ ہے۔ اللہ
نے ہمیں ہر سہولت دی ہے، کسی چیز کا محتاج نہیں رکھا، ہمارے لیے سب سے آسان
کام نیک اعمال کمانا ہے! مگر ہم اکثر گھاٹے کے سودے کرتے ہیں اور خواہشوں
کو عزیز رکھتے ہیں۔
|