بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
تمام عالم روحانیت (اسلام، یہودیت، عیسائیت، ہندو، بدھ، زرتشت وغیرہ) میں
بھی یہ روایات موجود ہیں کہ آخری زمانے میں ایک نورانی شخص کے ذریعے دنیا
سے ظلم و جور کا خاتمہ کیا جائے گا اور دنیا اخلاق و تہذیب اور امن کا
گہوارہ بن جائے گی۔ تاریخی تناظر میں تدریجاً انسانی شعور کو بلندی عطا
ہوئی اور انسان نے اپنی دنیوی فلاح کیلئے بے انتہا محنت و جدوجہد کی اور
مشکلات و پریشانیوں کو اپنی ہمت و صلاحیتوں سے کم کیا نیز سائنسدانوں،
فلسفیوں یا انبیاء نے چاہے قدیم ہوں یا جدید ہمیشہ سے انسانی مادّی فلاح
،نظریاتی فلاح اور روحانی و اُخروی فلاح (پیار ، محبت اور امن) کی کوشش کی
وہیں بہت سے ایسے افراد بھی تھے جو ٹیکنالوجی اور صنعت کی ان نعمتوں کو
لالچ کے تحت صرف اپنے پاس جمع کرنے کے خوگر رہے۔ قدیم زمانوں میں یہ قبیلوں
کے سرداروں پھر جاگیر داروں اور آج سرمایہ داروں میں یہ صفت نمایاں نظر آتی
ہے۔ ہر دور میں ان تین طبقات (سرداروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں) نے
ہر قسم کےعلماء کا استحصال کیا اور علم کو انسانی استحصال کا ذریعہ بنایا
نیز سائنس، فلسفہ اور روحانی علوم کے ماہروں نے بھی جب جب دنیا کی لذتوں پر
توجہ کی یا دین کی طرف راغب افراد پر سختی و جبر کیا تو معاشرے کے دیگر
طبقات اور خود ان کی اپنی گمراہی کا بھی موجب ہوا۔ آج اکیسویں صدی میں جب
علم اپنے جوبن پر ہے تو خصوصا یہ تین واضح استحصالی طبقات (سرداروں، جاگیر
داروں اور سرمایہ داروں) پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کے مصداق کے مطابق ہر
درجے پر انسانی استحصال میں اپنا کردار اداکررہے ہیں۔ ان کی قوت کی ایک وجہ
خود کمزوروں کی آرام طلبی، عیش کوشی، غیر سنجیدگی، راحت طلبی بھی ہے۔
خداوند تعالیٰ نے ہر زمانے میں اسی استحصال سے نکالنے کیلئے انہی کمزور
انسانوں میں سے بلند ہمت، بلند حوصلہ خداپرست، سنجیدہ ، ذمہ دار مہربان اور
رحم دل قسم کے انسانوں کو اپنی رسالت عطا کی دنیوی زعامت کی صلاحیتوں سے
نواز کر انسانوں کو اس ظلم و جور سے نکالنے کیلئے اپنی طرف سے منتخب کیا۔
کبھی آدم اپنے ہی بیٹے کی طرف سے اذیت کا شکار نظر آتے ہیں، کبھی موسیٰ
فرعون کے مدمقابل، کبھی عیسیٰ جھوٹ، دھوکے کے خلاف محاز آرا، ابراہیم اور
کبھی محمد رسول اللہ فکری اور مادّی استحصال کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہیں۔
نبوت کے بعد آل محمد اسی محبت، امن ، پیار، مہربانی و رحم دلی کے نفاذ کی
خاطر اس نظام کے مخالفین سے رزم و جہاد کا پیکر نظر آتے ہیں۔ انسانی شعور
میں مرکزیت کی اہمیت کا احساس اور معاشرے کی انتظامی قوت و حکومت کا شعور
پیدا ہونے کے ساتھ جابروں اور ان کے مددگاروں نے بھی حکومت کی جدوجہد شروع
کی اور دینداروں نے بھی۔ فرق یہ رہا کہ جابر ، توحید کے انکار کے ساتھ ہر
لذت اور دنیا اندوزی خاطر اس حکومت کے حصول کیلئے ہر طرح کے وسیلے اختیار
کرنے لگا جبکہ دینداروں نے حکومت کومعاشرے سے ہرج و مرج دور کرنے، ظلم و
فساد سے روکنے اور کمزوروں کے حقوق کی ادائیگی کے ذریعے صداقت، دیانت اور
امانت کو اپنا بنیادی اصول قرار دیا۔ آج بھی جب دنیا میں یک طرفہ ترقی اور
تہذیب کی بات کی جارہی ہے تو دوسری طرف 98٪ انسانی طبقات 2٪ سرمایہ داروں
کے رحم و کرم پر ظلم و سفاکیت کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ عالمی امن کے ادارے
ہوں، یا عالمی معاشی و اقتصادی ادارے ہوں، تعلیم و فنون و ہنر و ابلاغ کے
میدان ہو، سیاسی معاملات ہوں یا مذہبی رسومات۔ ہر طرف شیطان پرست سرمایہ
دار نے اپنی دنیوی لذت اندوزی کیلئے ہر سطح اور جگہ پر استحصال کا بازار
گرم کیا ہوا ہے۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ کمزور اپنی کم ہمتی، کم حوصلگی
، آرام طلبی، عیش کوشی کو ختم کرنے کے بجائے، ظلم و سفاکیت کو مٹانے کے
بجائے انتہائی کم قیمت پر اپنی خداداد صلاحیتوں کو سرمایہ داروں کی صنعتوں
میں پیدا ہونے والے مال کے بدلے بیچ رہا ہے۔ دین جو بلند ہمت انسانوں کی
طرف سے معاشرے کو ہر طرح کی نفسیاتی الجھنوں اور مادّی جکٹر بندیوں سے نجات
دینے آیا تھا اُس کو اسی کمزور معاشروں نے صرف رسومات کا مرقع بنا دیا۔ خدا
کی طرف سے آخری نمائندہ اسی سبب ظاہر نہیں ہورہا ہے کہ ہم 98 ٪ اس دنیا کی
عوام اگر اپنے حقوق اور آزادیوں سے آگاہ بھی ہیں تو کم ہمت ہیں، کم حوصلہ
ہیں، آرام طلب و عیش کوش اور راحت طلب ہیں اور اسی سبب ہمارے پاس جدید
زمانے کے مطابق جدید شیطان سے لڑنے کیلئے جدیدوسائل و ذرائع ہی نہیں ہیں جس
سے ہم اس سرمایہ پرست شیطان کو زیر کرسکیں۔ ہمیں ہر شعبے میں ماہرین بنانے
ہوں گے تاکہ اس آخری ہادی و حاکم کیلئے ٹیم تشکیل دے سکیں۔اپنے فروعی
اختلافات کو بھلا کر، دنیاپرستی اور لذت اندوزی کو ترک کرکے بلند اہداف
کیلئے جدوجہد کرنی ہے۔لہذا خود کو نہایت سنجیدگی ، سخت کوشی اور دوسروں
کیلئے رحم دلی ، نرم دلی کے ساتھ اپنی محدود زندگی کو بامقصد بنانا چاہیے
ایسی معاشرتی منصوبہ بندی جس میں اہل دانش و دیندار قائد کی محبت و اطاعت
سے معاشرے کو آخری حجت خدا کیلئے تیار کرسکیں۔ انشاءاللہ المستعان
|