صحافیوں کا معاشی قتل بند کرو

گزشتہ دنوں ایک بڑے نجی چینل کی جانب سے ۱۰۰ سے زائید میڈیا ملازمین کو بغیر کسی وجہ کہ برطرف کر دیا گیا، خبر سن کر دل بہت رنجیدہ ہو گیا کہ صحافت جیسا عظیم اور مقد س پیشہ جسے ریاست کا اہم ستون گردانا جاتا ہے آخر زوال کا شکار کیوں ؟ میڈیا جس دور سے گزر رہا ہے اس میں نئے آنے والوں کےلئے جگہ تو دور کی بات جو موجودہ لوگ کام کر رہے ہیں انکو اپنی نوکری کے لالے پڑے ہوے ہیں ، میڈیا ملازمین بیروزگار ہو رہے ہیں ، ۳ ۳ ماہ تک تنخواہ نہیں دی جاتی اور انکا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے آخر انکا قصور کیا ہے ؟ اس معاشی بحران کا ذمہ دار کون ہے ؟ اشتہارات کی تعداد میں کمی کرنے والی حکومت ؟ ملٹی نیشل کمپنیز جو مختص کی گئی اشتہارات کی ریشو کے مطابق کم اشتہارات دیتے ہیں ؟ یا میڈیا مالکین ؟ ذمہ دار جو بھی ہو لیکن پِستے صرف میڈیا ملازمین ہی ہیں ، جو کئی کئی مہینے تنخواہ نہ ملنے کہ باوجود صرف اس سوچ کہ ساتھ کام کرتے رہتے ہیں کہ شائید اب حالات بہتر ہوں کہ اب مگر بے سود ۔

اور اگر کئی مہینے بعد تنخواہ آبھی جائے تو یا تو آدھی آتی ہے یا َکٹ لگ کر جیسے کام کی اجرت نہیں بلکے خیرات دے رہے ہوں اور اگر ملازمین ایک چینل چھوڑ کر دوسرے میں جائیں تو بھی کوئی فائدہ نہیں سب بھیڑ چال چل رہے ہیں ایک دوسرے کہ دیکھا دیکھی ملازمین کا استحصال کررہے ہیں۔

اور سب سے افسوسناک بات یہ کہ میڈیا پر اس خبر کو چلایا ہی نہیں جاتا، روز رات کو ہر چینل پر ٹاک شوز کا ایک اتوار بازار لگا ہوتا ہے جس میں حکومتی کارکردگی سے لیکر معاشی پالیسیوں تک، مذہب سے لیکر وکالت تک اور کاروبار سے لیکر عالمی تعلقات تک ہر چیز کو زیرِبحث لایا جاتا مگر نہیں لایا جاتا تو میڈیا مالکین کی خد غرضی اور میڈیا ملازمین کہ ساتھ ہونے والی نا انصافی کو زیرِبحث نہیں لایا جاتا اور آخر لائیں بھی تو کیسے قمیض اٹھانے سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے ، دنیا کو خبر دینے والے صحافیوں کی خبر دینے والا کوئی نہیں بارش ہو یا آندھی ہو ، ہو سویرا ہو یا رات کی تاریکی اپنی جان اور آرام و سکون کو خاطر میں لائے بغیر صحافی حضرات اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں مگر بدلے میں ملتا کیا ہے بھوک بیروزگاری اور ذہنی تشدد۔

صحافی حضرات کہ گھر والوں کو یہ شکوے رہتے ہیں کہ گھر اور بچوں کو وقت نہیں دیتے سارا وقت دفتر کو دیتے ہیں مگر افسوس کہ اب وہ وقت بھی گیا ہاتھوں سے افسوس کہ اب وہ وقت آیا ہے جو تمہاری خدمت سے نظریں پھیر کر تمہاری برترفی کا تحفہ لایا ہے ۔

خبر کہ پیچھے مرمٹنے والو آج تم ہی خبر بن بیٹھے ہو مگر اس خبر کو دینے ولا کوئی نہیں۔

گزشتہ ایک سال میں میڈیا ملازمین کی تنخواہوں میں بےجا کٹوتیاں اور کئی کئی مہینے تنخواہ نہ دینا میڈیا مالکین کا معمول بن چکا ہے اور اب تو سینکڑوں ملازمین کو ایک ساتھ بغیر کسی وجہ کہ بیروزگار کیا جا رہا ہے اور ابھی اطلاعات کہ مطابق مزید سینکڑوں میڈیا ورکرز کو بیروزگار کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں مگر یاد رکھیں کہ یہ سیکڑوں ملازمین نہیں بلکہ سینکڑوں خاندان ہیں۔

ہمارے معاشرے میں فوج پولیس ڈاکٹرز اور دوسرے ایسے شعبے جو تعطیلات میں بھی کام کرتے ہیں، انکو بہت سراہا جات ہے اور سراہنا بھی چاہیئے مگر ہم نہ جانے کیوں میڈیا ورکرز کو یکسر بھول جاتے ہیں جبکہ میڈیا ملازمین بھی دن رات بغیر وقفہ کے آپ تک خبریں پہنجاتے ہیں مگر پھر بھی انکو نہ تو تنخواہ ملتی ہے اور نہ ہی عزت آخر کیوں ؟

(نوٹ: اس کالم کا اطلاق ان نام نہاد اینکرز اور (سینئر)تجزیہ کاروں پر نہیں ہوتا جو خد تو لاکھوں تنخواہ وصول کرتے ہیں مگر میڈیا ملازمین کے حق میں بولتے وقت انکے منہ میں آبلے پڑ جاتے ہیں یہ زبانیں گنگ اور ہونٹوں پر تالے لگ جاتے ہیں)
 

Muhammad Umar Bilal
About the Author: Muhammad Umar Bilal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.