کیاسرکاری افراد کی ایسی کاروائیوں کی وڈیو بنانا غلط جس
سے وہ سرکاری افراد قانون کی تادیبی کاروائی کی زد میں آ سکتے ہیں، ان کی
طرف سے کی جانے والی اپنے اختیار کی دھونس کے بل بوتے ایسی حرکات کی
فلمبندی، جن کا دفاع قانون نہیں کرتا، کیا غلط ہے؟
آئی جی پنجاب کی طرف سے پنجاب کے تمام تھانوں میں موبائل فون لے کر جانے پر
پابندی عائید کی گئی ہے۔تھانوں میں سمارٹ موبائل فون لیکر جانے پر پابندی
کے اس حکم نامے سے واضح ہوتا ہے کہ آئی جی پولیس بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں
کہ تھانوں میں عمومی ماحول اور روئیہ یہی ہوتا ہے کہ اس کی وڈیو سوشل میڈیا
پہ آجانے کی صورت قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروان و افسران کو
قانونی کی خلاف ورزی کے سنگین الزامات کی لپیٹ میں آنا پڑتا ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس کا یہ حکم اس صورتحال میں جاری کیا گیا ہے کہ جب یکے
بعد دیگرے پولیس اہلکاران ،افسران کے ہاتھوں غیر قانونی واقعات کی وڈیوز او
ر اطلاعات سوشل میڈیا میں شائع ہو گئیں۔سوشل میڈیا پہ اشاعت سے
محکمے،انتظامیہ،حکومت کی مجبوری بن جاتی ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کرائی
جائے۔اگر ایسے واقعات سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے نہ آئیں تو پولیس اہلکاران
و افسران اپنے اختیار کے ناجائز استعمال میں بے باک ہو جاتے ہیں۔یہ درست ہے
کہ ان واقعات میں تحقیقات کی جاتی ہے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ انصاف
ہوتا نظر آ رہا ہو۔ہر محکمہ اور ادارہ یہی کہتا ہے کہ اندرونی ' چیک' کا
نظام قائم ہے لیکن اس چیک سے ''پیٹی بھائیوں '' کی معاونت ہی ہوتی
ہے،شہریوں کو انصاف شاذ وناذر ہی ملتا ہے۔
پاکستان میں غاصبانہ حاکمیت کے رواج نے شہریوں کی آزادی اور حقوق کو متاثر
ہی نہیں بلکہ مغلوب کر رکھا ہے۔عوامی پالیمنٹ کو' ربڑ سٹیمپ' بنا دینے سے
اس بات کا تصور بھی محال ہو گیا ہے کہ شہری کسی بھی محکمے یا ادارے سے
متعلقہ افراد کی طرف سے اختیار کے ناجائز استعمال کے خلاف مناسب طور پر
فوری دادرسی حاصل کر سکیں۔پاکستان کی حاکمیت، حکومت،سیاست، معیشت ،اخلاقیات
کی انحطاط پزیری کی مستحکم صورتحال میں شہریوں کے احترام اورحقوق کا تحفظ
ایک بڑے اور سنگین مسئلے کے طور پر درپیش ہے۔
شہریوں کو جس حیثیت میں رکھا گیا ہے وہ ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے بھی
تباہ کن ہے کہ اس طرز برتائو سے شہری خود کو غلام،مظلوم ، بے بس بلکہ مفتوح
کی تصور کرنے لگتے ہیں۔پاکستان میں اس حقیقت کا اعتراف ناگزیر ہے کہ
پاکستان میں اداروں کی تقدیس نہیں بلکہ عوامی احترام اور عوام کو مقدم قرار
دینے میں ہی ملک کی بقاء ہے۔انتظامیہ،پارلیمنٹ،حکومت،سرکاری و خود مختار
ادارے و محکمے اور مسلح فورسز سمیت سب کا سرچشمہ عوام ہی ہیں،اس سے بڑا ظلم
کیا ہو گا کہ انہی شہریوں سے درج بالا شعبوں میں جانے والے افراد،اپنے اور
محکمے،ادارے کے مفاد کے لئے اپنے ہی لوگوں کے خلاف اختیارات کانا جائز
استعمال کریں اور ایسے ذرائع پر پابندیاں عائید کر دیں کہ جن سے شہریوں کے
خلاف سرکاری افراد،محکموں،اداروں کے اہلکاران و افسران کی ناجائز، خلاف
قانون کاروائیوں کو سب کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ظلم و زیادتی پر مبنی ایسے
روئیے سے محکمے ،ادارے اپنی رہی سہی ساکھ سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
|