تحریر:بینش طارق، اوکاڑہ
ارے یہ کیا میجر صاحب پندرہ دن کی چھٹی آئے تھے آپ اور تیسرے دن ہی جا رہے
ہیں۔ ہم خوش تھے کہ عید ہمارے پاس گھر پہ کر کے جائیں گے۔ عالیہ نے برا سا
منہ بناتے ہوئے کہا۔
میری جان کیوں غصہ کرتی ہو بس ابھی جانے دو عید سے پہلے آ جاؤں گا دل چھوٹا
مت کرو میجر ارتضیٰ نے عالیہ بیگم کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا اور اپنا
بیگ اٹھا کر کمرے سے نکل گئے۔
بابا آپ جا رہے ہیں؟4 سالہ حسان نے بہت معصومیت سے پوچھا۔
جی بابا کی جان۔ بابا جارہے ہیں جلد ہی لوٹیں گے۔
بابا آپ عید سے پہلے آپ جائیں گے نا؟حسان کا بھولا پن میں پوچھا گیا سوال
میجر ارتضیٰ کی آنکھوں میں آنسو لے آیا اور انہیں ماضی میں کہیں دور۔۔۔۔
بہت دور لے گیا۔
ابو آپ عید سے پہلے آ جائیں گے نا؟
جی میری جان ابو کوشش کریں گے
یہ کیا بات ہوئی بھلا آپ ہمیشہ ایسے کرتے ہیں میرے سب دوستوں کے ابو ان کے
ساتھ عید مناتے ہیں اور پتا ہے وہ چاند رات کو شاپنگ پر بھی لے کر جاتے ہیں
اور میرے ابو کو دیکھو انہیں کوئی پروا ہی نہیں ہے میری۔ اس معصوم سے بچے
نے غصیلے انداز میں کہا اور جا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
اوہو میرا راجہ ناراض ہوگیا ہے مجھ سے؟ یہ کہتے وہ قدم بڑھاتے صوفے پر اس
کے پاس بیٹھ گئے۔
اوہ تو میری جان ناراض ہے ابو سے چلو دیکھتے ہیں کب تک ناراض رہتی ہے یہ
کہتے وہ اسے گدگدانے لگے اور پھر گود میں بیٹھا لیا وہ بھی ہنستے ہوئے ان
کے گلے لگ گیا۔
ارے عائشہ بیگم کہاں رہ گئی ہیں آپ مجھے دیر ہو رہی ہے۔
جی جی میجر صاحب بس آگئی یہ کہتے عائشہ بیگم چائے کی ٹرالی سمیت کچن سے
باہر آئیں۔ میں نے سوچا چائے کہ ساتھ سموسے اور کٹلس بھی فرائی کر لوں اس
لئے دیر ہو گئی۔
ارے واہ بیگم یہ بہت اچھا کیا پھر پتا نہیں کبھی نصیب ہو گی بھی۔۔۔۔ ارے
ارے یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں میجر صاحب۔انھوں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔ سفر پر
جانا ہے ایسی باتیں بولنا تو کیاسوچنا بھی نہیں چاہیے یہ کہتے ہی عائشہ
بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
ایک تو آپ عورتیں رونا بہت جلدی شروع کر دیتی ہی۔ عائشہ بیگم آپ ایک آرمی
آفیسر کی بیوی ہیں دل بڑا اور مضبوط رکھیں یہ کہتے میجر صاحب نے ان کے آنسو
پونچھے۔
چلیں چائے پی لیں اس سے پہلے کہ ٹھنڈی ہو۔ عائشہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میرا بیٹا سموسہ کھائے گا یا کٹلس؟
نہیں پہلے وعدہ کریں کہ عید سے پہلے آ جائیں گے میں نے عید آپ کے ساتھ
منانی ہے۔
اچھا میری جان میں حلف لیتا ہوں۔۔۔
امی عید میں بس کچھ ہی دن رہ گئے ہیں ابو کو فون کر کے پوچھیں نا کہ وہ کب
آ رہے ہیں۔
میری جان میں نے فون کیا تھا کہہ رہے تھے بس ایک دو دن میں آ جائیں گے چلو
ہم شاپنگ پر چلتے ہیں۔ میں اپنے بیٹے کو عید کے لئے بہت سے چیزیں لے کر دوں
گی۔
اس دفعہ عید کے کپڑے ابو کے ساتھ جا کر لوں گا۔ وہ بھی چاند رات کو ہی۔اس
نے پر جوش انداز میں کہا۔
میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ ملک کے حالات خراب ہیں اور ایسے میں تمہارے ابو
کا آنا بہت مشکل ہے۔اﷲ انکا حامی و ناصر ہو۔ عائشہ بیگم نے دل ہی دل میں
سوچا اور آنسوؤں کے اٹھتے طوفان کو پی گئیں۔
کیا ہوا امی آپ اداس کیوں ہیں؟ اوہ اچھا تو ناراض ہو گئی ہیں آئی ایم سوری
امی میں آپ کو ناراض کرنا
نہیں چاہتا تھا وہ بس باقی دوست اپنے ابو کے ساتھ۔۔۔۔۔ اتنا کہتے اس نے سر
جھکا لیا۔
ارے نہیں میری جان میں آپ سے کبھی ناراض نہیں ہوتی ادھر آؤ میری بات سنو۔
یہ کہتے عائشہ بیگم نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔
دیکھو میرے بچے! آپکے ابو دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہیں وہ اس ملک کی حفاظت
کرتے ہیں اگر آپ کے ابو آپ کے پاس نہیں ہیں تبھی تو باقی سب آرام سے اپنے
بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
کیا مطلب امی؟؟؟
آپ کے کارٹون میں ہوتا ہے نا ایک سپر ہیرو سب کی حفاظت کرتا ہے کیا نام ہے
اس کا؟
Superman اس نے پرجوش انداز میں بتایا۔
ہاں سوپر مین آپ نے دیکھا ہے کہ وہ دن رات اپنے شہر کی حفاظت کرتا ہے اس
لیے اس کے شہر کے لوگ اچھی زندگی گزارتے ہیں بالکل آپ کے ابو بھی ایسے ہی
ملک کی حفاظت کرتے ہیں تا کہ ملک کے لوگ اچھی زندگی گزار سکیں۔
واؤؤؤ مطلب میرے ابو سوپرمین ہیں؟
جی بالکل اور اب میرے سپرمین کا بیٹا میرے ساتھ شاپنگ پر جائے گا.
پھر آپ مجھے عید کے کپڑوں کے سوپر مین کا کاسٹیوم بھی لے کر دیں گی نا؟؟
ہاں ہاں لے لینا۔
ابو نے وعدہ کیا تھا وہ عید سے پہلے آ جائیں گے اب تو عید کا چاند نظر آنے
والا ہے۔دیکھیں میں سوپر مین بن گیا۔ ابو آ کے بہت خوش ہوں گے۔وہ سوپر مین
کا کاسٹیوم پہنے کھڑا تھا۔
کتنا پیارا لگ رہا ہے میرا بیٹا۔ اﷲ نظر بد سے بچائے۔ آمین
چلیں ابھی اوپر چل کر چاند دیکھتے ہیں
ہاں چلو۔اور وہ اوپر کی جانب چل دئیے۔
اتنے میں چاند نظر آگیا کا شور ہونے لگا اور وہ بھاگ کر باہر کے دروازے کے
پاس بیٹھ گیا۔
امی چاند کو آئے آدھا گھنٹہ ہو گیا ہے تو ابو کہاں رہ گئے؟
اتنے میں باہر کی گھنٹی بجی۔ لو آ گئے تمہارے ابو۔وہ وعدہ خلافی نہیں کرتے۔
یہ کہتے وہ دروازہ کھولنے کی غرض سے آگے بڑھیں۔
اور آگے سچ میں میجر صاحب ھی تھے مگر سبز اور سفید پرچم میں لپٹے ہوئے۔
یہ منظر ان لوگوں کے لئے قیامت سے کم نہ تھا۔ایک سپاہی نے ایک کاغذ اس
معصوم بچے کی طرف بڑھایا۔
میں میجر علی احمد خان یہ حلف لیتا ہوں کہ اس عید سے پہلے اپنے پیارے بیٹے
میجر مرتضیٰ علی احمد خان کے پاس ہوں گا۔بھلا کسی بھی حالت میں کیوں نہ
ہوں۔
آج سے کچھ دن پہلے کیا ہوا وعدہ مجھے اچھے سے یاد ہے میری جان دیکھو میں نے
وعدہ پورا کیا۔
میرے بچے جب تم چھوٹے تھے نا تب سے ہی میں تمہیں میجر ارتضیٰ کہتا تھا۔ اسے
میری آخری خواہش سمجھ کر اس نام کو حقیقت کا رنگ ضرور دینا جب میں تمہیں
میجر ارتضیٰ کہتا تھا تب میری چھاتی فخر سے چوڑی ہو جاتی تھی مجھے یقین ہے
میرے بیٹے پر۔ میرا بیٹا سوپرمین ہے۔وہ میرا خواب ضرور پورا کرے گا۔
میں یہ سب تمہیں خود کہنا چاہتا تھا مگر حالات بہت ناساز تھے اس لیے اس خط
میں لکھنا پڑا۔
میری جان پریشان مت ہونا اور میرے بعد اپنی ماں کو تنگ مت کرنا اسکا خیال
رکھنا۔ میں مرا نہیں ہوں بس شہید ہوا ہوں۔اور شہید مرا نہیں کرتے ہیں۔میں
ہمیشہ تمہارے آس پاس رہوں گا۔ بس مجھے محسوس کرنا
فقط تمہارا۔
میجر علی احمد خان شہید
میں آج آپ کو خود میں محسوس کر رہا ہوں ابو۔میں آج آپ کو خود میں محسوس کر
رہا ہوں ابو۔۔میجر ارتضیٰ کے لب دھیرے دھیرے ہل رہے تھے۔ بتائیں بابا آپ
عید سے پہلے آ جائیں گے نا؟؟؟میری جان بابا عید سے پہلے ضرور آئیں گے بھلا
کسی بھی حالت میں کیوں نہ آئیں بابا وعدہ خلافی نہیں کرتے۔میں میجر ارتضیٰ
علی احمد خان یہ حلف لیتا ہوں کہ اس عید سے پہلے اپنے پیارے بیٹے میجر حسان
ارتضیٰ علی احمد خان کے پاس ہوں گا۔بھلا کسی بھی حالت میں کیوں نہ ہوں۔اسنے
یہ کہتے ہوئے پنے آنسو صاف کئے اور حسان کے بال سنوارنے لگا۔ پھر سب سے مل
کر باہر نکل گیا۔
|