دعا یا بد دعا……!

ماہِ ستمبرمیری ماں کی43 ویں برسی کامہینہ!اس دفعہ بھی یہ ماہ ودن لندن میں خاموشی سے گزرگئے،پہلے یہ دن اپنے آبائی شہرفیصل آبادمیں گزرا کرتےتھے گھرکے وسیع صحن میں جہاں میری ماں خیرات کی دیگیں اورقربانی کاگوشت بانٹا کرتی تھی وہی پراب اس کی برسی کی دیگیں محلہ میں برتائی جاتی ہیں۔سامنے برآمدہ میں محلہ کی عورتیں قرآن خوانی اور کھجور کی گٹھلیاں پڑھتی ہیں اوربعدمیں دعاکے بعدکھانے کے دوران میری ماں کی بے شمارنیکیوں کے ذکرکے ساتھ ایک لمبی آہ بھرکرایک اورسال گزرجانے کااعلان ہوجاتاہے۔میں صبح سویرے قبرستان میں اپنی والدہ محترمہ اور دوسرے عزیزواقارب کی قبروں پرپھولوں کی چادریں چڑھاکرگویااپنے دل کی تسلی کیلئے ہرسال یہ عمل دہراتاتھا اورواپس آنے سے پہلے اس خاموش مٹی کی ڈھیری کے پاس کچھ وقت کیلئے بیٹھ کراپنی تمام دل کی باتیں کرنے بیٹھ جاتاتھا۔ میں اسے اب بھی اپنے ارد گردڈھونڈتاہوں،چپکے چپکے پکارتاہوں مگروہ مجھے کہیں نظرنہیں آتی،پیر وارث شاہ نے کیاسچ کہا:
ہیرآکھیاجوگیاجھوٹھ آکھیں کون رٹھرے یارمناوندائے
ایہاکوئی نہ ملیامیں ڈھونڈتھکی جیہڑاں گیاں نوں موڑلیاوندائے
بھلاموئے تے وچھڑے کون میلے اینویں جھوٹرالوک دلاواندائے
پہلے نہیں مانتاتھامگرآج چاردہائیوں کے بعدمیں اس حقیقت کومان چکاہوں کہ موئے اوروچھڑے کبھی نہیں ملتے ان کاانتظار، انہیں ڈھونڈنااوران کی ہمہ وقت آس رکھنافضول ہے مگرعجیب بات کہ اس حقیقت کودل آج بھی نہیں مانتا۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال ستمبرمجھے میرے تنہااوربے دعا ہونے کااحساس دلاتاہے۔مجھے محسوس ہوتاہے کہ اب وہ ہستی اورمحترم شخصیت میری دنیاسے اٹھ گئی جس کے ہوتےہوئے دنیابھی میری اور دنیا کے یقین بھی میرے تھے اب میری پشت خالی ہے جس پر مفادات اورلین دین سے بھرے رشتوں کے تازیانے برستے رہتے ہیں میں گھبراگھبرا کر اسے یادکرتاہوں جس کے ہوتے ہوئے میں بھی سلامت تھااورمیری شناخت بھی!

میری ماں جس نے مجھے اپنی محبت کے مکتب میں اسباق زندگی اوررموزِزندگی کی آگہی وشعوردیا،جس نے انسانوں سے محبت میری گھٹی میں ڈالی خلقِ خدامیری تربیت کاحصہ بنائی انسانوں کوجانچنے اورپرکھنے کامعیارجاہ وحشم نہیں اعلیٰ انسانی صفات کوٹھہرایا۔حلال وحرام کے درمیان فرق کی وضاحت سمجھائی،رشتوں کی اہمیت اورتعلقات کونبھانے کاطریق میری فطرت کاجزوبنایاجوقدم قدم پرمیری رہنماومعاون رہی۔تمام عمرمیں اس کی انگلی تھام کرچلتارہااوروہ مجھے چلاتی رہی ۔وہ جوغریب وپسما ندہ رشتہ داروں بوڑھی میلی مائیوں اورحاجت مندوں کوہتھیلی کاچھالہ بنائے رکھتی تھی وہ جسے عزت کرنے اورکروانے کاسلیقہ آتاتھاجس کی ہمدردطبیعت ہمیشہ خدمتِ خلق کے بہانے ڈھونڈتی تھی جب وہ دنیاسے رخصت ہوئی توسرخ گلابوں کے رنگ کالے ہوگئے،دعائیں ناتواں ہوگئیں،حروف سہم سے گئے،رشتے بے وجوداورشرمندہ دکھائی دینے لگے اورشناختیں نامعتبرہونے لگیں وہ درودیوارجہاں قدم قدم پراپنے ہونے کی گواہیاں ملاکرتی تھیں اجنبی لگنے لگے اور فیصل آبادجس کی گلیاں سڑکیں اورفضائیں زندگی کاناگزیرحصہ تھیں،غیرہونے لگیں مجھے لگاکسی نے مجھے اچانک زور داردھکادیکرکسی سمندرمیں اچھال دیاہو!کسی ایسے منطقے پر……جہاں ہرطرف دھوپ ہی دھوپ ہوکہیں سایہ نظرنہ آتاہووہ میراگھرجہاں میں اپنی ماں کی محبت کی اخلاص بھری دعاؤں کے نادرکھلونوں کے ساتھ اس کی بے لوث ممتا کی نرم چادریں اوڑھ کربے فکری کی نیند سونے سے قبل کشمیرجنت نظیرکی داستانیں سناکرتاتھا،اس گھرکویکایک آگ لگ گئی اس میں میرا بچپن میرے خواب گھروندے،میراکھیل کاساراسامان،مامتابھری لوریاں سب کچھ جل کرراکھ ہوگیااورمیں اس غلام کشمیرکے آنگن میں کھڑاتنہاسوچ رہاہوں اب کیاہوگا؟اس کی تصویر اپنی مہربان شبنمی مسکراہٹ سے مجھے دیکھتی رہی!!وہ گھر جو مجھ سے1976ءمیں چھن گیاتھااس کی راکھ اب بھی میرے دل کے پلوسے بندھی ہے جس سے مامتا کی بھینی بھینی مہک اڑتی ہے جومیرایقین تھی۔اللہ اوراس کی کائناتوں میں چھپے محبت کے بھیدوں کوجاننے کاواحد ذریعہ تھی۔اللہ،ماں اورمحبت کی تکون میں گم رہنے والا اپنی ماں کایہ اداس بیٹا آج بھی اس تکون سے اس گمشدہ کڑی کوڈھونڈنے کیلئے جان کوبیمارکئے ہوئےہے جوچاردہائیوں قبل بدنصیبی کے ایک بھاری پل نے اس سے چھین لیاتھااس کی کائناتوں کا جغرافیہ درہم برہم کردیاتھاوہ جغرافیہ آج بھی درہم برہم ہے کائنات نامکمل اورادھوری ہے جبکہ محبت اوراللہ کی موجودگی پراس کا ایمان بھی کامل ہے مگرماں کانہ ہوناایک ایسی مسلسل کمی ہے جوجان کوآزارکی طرح لگی ہوئی ہے۔مائیں اپنی اولاد کیلئے لئے بہت اہم ہوتی ہیں چاہے وہ جیسی بھی ہوں مگرمائیں اولاد کیلئے کتنی ضروری ہوتی ہیں اس کااندازہ ان کے جانے کے بعدہوتاہے اورپتہ چلتاہے کہ ماں توآکسیجن کانام ہے جس کے بغیرانسان حبس اورگھٹن کے مارے اندرسے مرنے لگتا ہے اور پھرمرتاہی چلاجاتا ہے۔

میری سادہ دل خوبصورت نیک اورمہربان ماں،سفیدکے ٹی کی شلواراورسفیدٹوپی والے برقعے والی محترم عورت جس کی شخصیت کاحسن اورپاکیزگی اس کے گردنورکے ہالے کی طرح رہتی تھی جوتمام عمربناوٹ تضع اوردنیاوی آلائشوں سے دوررہی جس نے خدااورخلقِ خداکوعجزانکساری رحم محبت اورخدمت کے ذریعے پہچانا۔جوتکبرظلم اورزیادتی اور”میں” سے یکسرانجان تھی اورہمیں بھی ان فضولیات سے دوررہنے کادرس دیاکرتی تھی جس نے اعلیٰ انسانی اقداراورنیکی محبت اور خدمت کاسبق ہمیں اٹھتے بیٹھتے دیاجس نے برائی سے نفرت اوراچھائی سے محبت کاشعورہماری فطرت کاحصہ کیا۔وہ عورت جب اس دنیاسے رخصت ہوئی تواپنے پیچھے ایک ایسابے انتہاخلاءچھوڑگئی جوبعدمیں کبھی بھی پُرنہیں ہوااوراس امر کا علم بھی تجربہ سے ہوامائوں اورمحبتوں کاخلاءکبھی بھرانہیں کرتایہ ہماری غلط فہمیاں ہیں جواس معاملے میں ہمیں دھوکے پردھوکہ دیتے چلی جاتیں ہیں سوایساہی ہوا۔ان گزرے سالوں میں ماں توکیاکہیں ماں کی شبیہ کابھی گمان نہ گزرا جہاں میں اپنی اداسی ڈھیرکرتااوراس جدائی کاافسانہ رقم کرتا جس نے میرے اندرحشراٹھارکھاہے!

اے میری پیاری ماں!مجھے بتائیں کیاکروں؟آپ یادآتی ہیں توحسن،نیکی اورمحبت یادآتی ہے اوروہ مسلسل کمی جس نے روح کوبے سکون کررکھاہے ہرسال ستمبرمیری آنکھوں میں پانی اوردل میں نمی چھوڑتاہے۔ہردن مجھے آپ کی یادکی دہلیزوں پر ننگے پاؤں کھڑاہوناپڑتاہے…میں سوچتاہوں آخر اس خوبصورت اورمہربان عورت کومیں بھول کیوں نہیں جاتا؟جو آج سے 43 سال قبل زندگی کے رنگین چوکھٹے سے نکل کرمٹی کی ایک سونی ڈھیری میں سماگئی تھی اورحقیقت سے واہمہ ہوگئی اس کی نرم روئی میرے دل کی روئی کی طرح کیوں دھنکتی رہتی ہے؟اداسی مجھے ہمہ وقت اپنے دل میں بیٹھی کیوں نظر آتی ہے؟ ……یہ ایک عجیب سوال ہے جومجھ سے اب تک حل نہیں ہوااور1976ءسے2019ءآگیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنی جنتی ماں سے کہناچاہتاہوں…ماں!اب میں آپ کواس قدریادنہیں کرسکتااس قدراداس نہیں ہوسکتا کیونکہ مجھے زندگی میں اوربھی بہت سے کام کرنا ہیں۔تیراکشمیرجل رہاہے،بیٹیوں کی عصمتیں قربان ہورہی ہیں،وہاں کے باسیوں کی چیخیں مجھے سونے نہیں دیتی،آپ توکشمیرکیلئے اپنے حصے کی قربانی دیکرسرخروہوگئیں لیکن مجھے اب اس غلام کشمیرکیلئے کچھ کرناہے،اس جنت ارضی پرلگی آگ کوسردکرنے کیلئے اپناوہ فرض نبھاناہے جس کیلئے تولوریاں سنایاکرتی تھی۔

اورہاں میری ماں،اس روتی بسورتی دنیامیں ہنس کھیل کرجینا چاہتاہوں،مجھے زندگی میں اوربھی بہت سے کام کرناہیں، کچھ لکھناپڑھناہے،دنیاداری کرنی ہے اورسب سے بڑی بات کہ مجھے جینا ہے زندہ نظر آنے والے دوسرے کامیاب لوگوں کی طرح…آپ کی یاد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مجھے ہنسنے کھیلنے نہیں دیتی،جدائی کی کہانی سنا کرہر ایسے کام سے روکتی رہتی ہے جو دنیاداری اور کامیابی کے لئے ازحد ضروری ہے لہٰذا میری ماں،میری اچھی ماں مجھے بد دعادومیں تمہیں بھول جاؤں!
خورے کدوں پیمبر لمحے بولن گے
ایس جہانے صدیاں دا سناٹا اے

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.