از قلم: اقرا ء نور میواتی (پتوکی)
اسلامی قمری ہجری سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام کہلاتا ہے۔یہ مہینہ اپنے
اندرگوناگوں،پیچ وخم،عشق وفا،ایثار و قربانی،جذبہ فدائیت اور بے شمارفضیلت
و مرتبت کی بدولت بے بہا سے معمور و سربلند ہے۔روز ازل سے ہی جب زمین کا
سبزہ زار فرش اور آسمان کی نیلگوں چھت تیاری ہوئی تھی اور اس میں سورج کا
روشن چراغ اور چاند کی خوشنما قندیل جلائی گء تھی تو یہ بات نوشہ تقدیر
الہی میں لکھ دی گی تھی کہ صبح شام کی تبدیلیوں اور شب روز کے الٹ پھیر سے
دن سے ہفتے اور ہفتوں سے مہینے وجود میں آگئے اور ان مہینوں کی تعداد ذات
باری تبارک و تعالی نے بارہ رکھی۔چنانچہ سورۃ توبہ آیت نمبر 36 میں ذات
باری تعالی فرماتے ہیں۔ترجمہ ''بے شک اللہ تعالی نے کتاب اللہ کے اندر
مہینوں کی تعداد بارہ رکھی ہے جس دن سے آسمان اور زمین پیدا کیے گئے۔اور ان
میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔“ان بارہ مہنیوں میں سے پہلا مہینہ محرم
الحرام کہلاتا ہیاور یہ مہینہ بھی ان چار حرمت والے مہینوں میں شامل ہے۔
محرم ''حرم'' سے ماخوز ہے جس کے معنی ہی عزت و احترام والے ہیں۔اور محرم کو
محرم الحرام اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ اہل عرب کے یہاں یہ مہینہ بڑا قابل
احترام تھا۔اس کا عظمت و احترام زمانہ جاہلیت کے تاریک دور میں بھی نمایا
تھا۔ریگزارعرب کے بدو جو علم سے دور،عقل سے بیگانے،وحشت کے قریب اور جنگ
وجدل کے رسیاو دلدادہ تھے وہ بھی اس محرم الحرام میں احترام و عظمت کی وجہ
سے قتل وقتال،جنگ و جدل،کشت وخوں، لوٹ مار،غارت گری و رہزنی سے باز رہتے
تھے اس مہینے میں خونریزی اور جدال و قتال قطعا بندکردیا جاتاتھا حتی کہ
کوئی شخص ان ایام میں اپنے پاب بھائی کے قاتل سے بھی تعریض نہ کرتا
تھا۔۔خانہ کعبہ پر بھی نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا۔اس ماہ محترم کی عظمت
باالشان ہونے کی ایک وجہ اس میں یوم عاشوراء ہے۔یوم عاشوراء اس ماہ کی
فضیلت و اہمیت مزید چند و بالا کردیتا ہے۔۔۔یوم عاشوراء کیا ہے۔؟ آئیں
تاریخی پہلو پر نظر ڈالتے ہیں۔
یوم عاشورا کے تاریخی پہلو:
1۔عاشوراء وہ دن ہے جس دن اللہ تبارک وتعالی نے آسمان و زمین، قلم اور حضرت
آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی گئی۔
2۔عاشوراء وہی دن ہے جب حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ بارگاہ ایزدی میں شرف
قبولیت سے نوازی گئی۔
3۔عاشوراء وہ مبارک دن ہے جس دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی عذاب الہی کے
ہولناک اور تباہ کن طوفان سے بچ کر جودی پہاڑ پر مستوی ہوئی۔
4۔عاشوراء ہی وہ مبارک دن ہے جس میں جلانے والی آگ حضرت ابراھیم علیہ
السلام کے لیے گل گلزار بن گئی۔
5۔عاشوراء ہی وہ رحمتوں سے بھرا دن ہے جب حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی
کے پیٹ سے رہائی نصیب ہوئی۔
6۔عاشوراء ہی وہ مبارک دن ہے جس دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو آزمائش کے
بعد بادشاہت ملی۔
7۔عاشوراء ہی وہ مبارک دن ہے جب صابر بوڑھے نابینا باپ حضرت یعقوب علیہ
السلام کو سالوں سے پچھڑا بیٹا حضرت یوسف علیہ السلام ملے۔
8۔عاشوراء ہی وہ مبارک ترین دن ہے جس دن اہل ایمان کو ظالم ترین بادشاہ
فرعون سے نجات ملی اور اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کر کے رہتی دنیا
کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔
9۔ عاشوراء ہی وہ دن ہے جس دن حضرت عیسی علیہ السلام بنا باپ کے پیدا ہو?
اور اسی دن آپ علیہ السلام کوآسمان پر اٹھاکر یہود معلون کے شر سے نجات
ملی۔
10۔ عاشوراء ہی وہ دن ہوگا جب اس چوبیس ہزار کلومیٹر طول و عرض پر پھیلی
ہوئی دنیا کے لیے آخری دن ہوگا یعنی قیامت قائم ہوگی۔
(تلک عشرۃ کاملہ)
یوم عاشوراء کے روزے کی فضیلت:
اسلام کی آمد نے اس احترام و عظمت والے ماہ محرم کی عظمت کو چند و دوبالا
کردیا۔اس ماہ محترم کو رمضان المبارک کے بعد افضل ترین ماہ قرار دیا۔چنانچہ
صحیح مسلم میں حضرت ابو ھریرہؓ سیروایت ہے کہ نبی مکرم ﷺنیارشاد فرمایا:
”روزوں میں افضل روزے رمضان المبارک کے بعد محرم کے ہیں۔“پھر محرم میں یوم
عاشورء ایک امتیازی مقام رکھتا ہے یہ دن بہت سے فضائل کا حامل اور نیکیوں
کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے۔۔۔ ترجمہ:”جو یوم
عاشوراء کا روزہ رکھے اللہ تعالی اس کے گزشتہ ایک سال کے(صغیرہ) گناہ معاف
فرمادیتا ہے۔“دوسری روایت حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کا فرمان ہے۔ترجمہ:”حضور
اقدس ﷺ رمضان المبارک کے مہینہ اور دس محرم (عاشوراء) کے دن روزہ رکھنے کا
اہتمام فرمایاکرتے تھے۔
پھر جب نبی کریم ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء
کے دن بڑے اہتمام سے روزہ رکھتے تھے۔آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ اس دن کی
کیا خصوصیت ہے جو اس قدر اہتمام کیا کرتے ہو۔۔یہود نے بتلایا کہ یوم
عاشوراء وہ عظیم دن ہے جس دن اہل ایمان کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی اور
اللہ رب العزت نے حضرت موسء علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات
عطافرمائی۔فرعون اور اسکی قوم کو غرق کردیا۔اسی وجہ سے حضرت موسء علیہ
السلام نے عاشوراء کے دن بطورشکرانہ روزہ رکھا پھر آپ علیہ السلام کی تائید
میں ہم بڑے اہتمام کے ساتھ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔تو آپ نے ارشاد
فرمایا۔۔۔ہم تم سے زیادہ حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں کیونکہ ہم تم سے موسی
علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔پھر آپ ﷺ نے یہود کی مخالفت کرتے ہوئے صحابہ
کرام کو روزہ رکھنے کو حکم دیتے فرمایا۔۔ترجمہ:تم یوم عاشوراء کا روزہ رکھو
اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ عاشوراء کے ساتھ نویں یا گیارہویں محرم کا
روزہ رکھو۔“اس حدیث مبارکہ میں اہل ایمان کو یہود کی مخالفت کا حکم دیا گیا
ہے۔چونکہ یہود بھی دسویں محرم کا روزہ رکھتے تھے۔اس لیے اب ہمارے لیے یہ
حکم ہے کہ ہم عاشوراء یعنی دسویں محرم کے ساتھ ساتھ نویں یا گیارہویں محرم
کا روزہ بھی رکھیں تاکہ سنت بھی ادا ہوجائے اور یہود کی مخالفت کا پہلو بھی
نکل آئے۔
یوم عاشوراء کے روزے کی حکمت:
یوم عاشوراء کا روزہ بہت اہمیت کاحامل ہے اس کی ایک وجہ تو یہ کہ اس روز
اللہ تبارک و تعالی نے انبیائکرام کو ہر طرح کی آزمائشات و امتحانات کامیاب
کیا اور دشمنوں کے شر سے نجات عطافرمائی۔بالخصوص حضرت موسی علیہ السلام اور
انکی قوم بنی اسرائیل کی مدد کرتے فرعون کے جبر و قہر سے نجات عطافرمائی۔
دوسری وجہ:نبی کریم ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی اور آپ ﷺ نے قبل
النبوۃ اور بعد النبوۃ اس کا اہتمام فرماتے رہے۔نیز اس وقت جو حالت
مسلمانوں کی ہے کہ وہ ہر جگہ ظلم وجبر کی چکی میں پیسے جارہے ہیں ہر جگہ
انکی جمیعت انتشار کا شکار ہے خواہ کشمیر ہو یابرما و فلسطین۔۔ہر جگہ
مسلمان ظلم کا شکار ہیں۔
ایسے حالات میں امت مرحومہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دن روزے کا اہتمام
کریں اور اللہ تعالی سے خصوصی مدد طلب کریں۔کیا بعید کہ اللہ تعالی ہماری
مغفرت فرماکر ہمارے ساتھ بھی بنی اسرائیل والا معاملہ فرمائے اور امت
مرحومہ کو وقت کے فرعونیوں سے آزادی کا پروانہ عطافرمائے۔آمین
عاشوراء کے دن اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت:
یوم عاشوراء یعنی دس محرم الحرام کے دن اپنی استطاعت کے مطابق حلال آمدنی
سے اپنے اہل و عیال پر گشادگی اور فراخدلی سے خرچ کرنا رزق میں برکت کا سبب
اور فقرو فاقہ سے نجات کا ذریعہ ہے۔حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا۔
ترجمہ:”جو آدمی اپنے آپ اور اپنے گھر والوں پر عاشوراء کے دن (کھانے پینے
میں)میں وسعت کرے گا اللہ تعالی اس پر پورے سال وسعت فرمائیں گے۔“
جلیل القدر صحابی حضرت جابر ؓ،مشہور محدث یحیی بن سعید ؒاور معروف اما
وفقیہ سفیان بن عیینہ ؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا اور اس کو
درست اور اسی طرح پایا۔
لیکن یہ بات واضح رہے کہ مزکورہ امور جس درجے میں ثابت ہیں انکو اسی درجے
میں رکھ کر مانا اور عمل کیا جائے بے جا افراط و تفریط اور غلو کا شکار
ہونا اور ان امور کو بجالانا جو عند الشرع مزموم ہیں رزق سے محرومی کا باعث
بن سکتے ہیں۔۔اللہ ہمارے رزق میں برکت عطافرمائے۔آمین۔یا رب العالمین
|