سنیں، آپ سے کچھ کہنا ھے

وہ پھول سا چھوٹا سا بچہ تھا، نہ جانے اسے کیسے یہ شعور آ گیا تھا کہ اس کے امی اور ابو جیسے گلے ملتے ھیں اس کی امی کسی اور مرد کو ملے تو گندی بات ھے۔ اس کے شعور نے اسے چپ نہ رھنے دیا، آخر بچہ تھا، اس پھول جیسے بچے نے بڑے بھولپن میں اپنے باپ کے سامنے بات کھول دی۔ ماں نے اسے جھوٹا قرار دیا اور باپ کے جانے کے بعد بیٹے کی خوب پٹائی کی ۔ لیکن اس دفعہ جیسے ھی اس کا عاشق گھر میں داخل ھوا، دیوار پھاند کر خاوند بھی گھر میں داخل ھو گیا۔ بات پھیل گئی۔ دب بھی گئی۔ لیکن صرف کچھ دنوں میں ماں نے بچے کا گلا گھونٹ کر اپنے ھی بیٹے کو موت دے کر اس کے سچ کی سزا دے دی۔ یہ ایک صدمہ ھے۔ دوسرا صدمہ یہ ھے کہ ایک بچی کو جو ابھی ماں کے پیٹ ھی میں تھی اپنے باپ کی لاتیں اور گھونسے سہنے پڑے،اور قصور صرف یہ تھا کہ وہ لڑکا نہیں تھی، مقدمہ بھی درج ھوا لیکن باپ کی ضمانت ھو گئی اور تاحال مقدمے کی کاروائی جاری ھے۔ تیسرا صدمہ یہ ھے کہ ایک اور ماں نے اپنی لڑکی کی پیدائش پر لڑکا نہ ھونے پر اپنی ظالمانہ فطرت کا اظہار یوں کیا کہ سردی کے موسم میں لڑکا نہ ھونے کے جاہلانہ غم میں بچی کو کپڑے پہنانا ھی ضروری نہ سمجھا اور نہ دودھ پلایا۔ بھوک اور سردی سے بلکتی بچی کے شور سے بچنے کیلئے تھوڑا سا دودھ پلایا، لیکن سنگ دل ماں نے کپڑے پھر بھی نہ پہنائے۔ بچی چل بسی اور ارد گرد کے لوگ کسی کے ذاتی مسئلے میں مداخلت نہ کرنے کی روایت کو برقرار رکھے تماشا دیکھتے رہ گئے۔ ماں یا باپ کوئی بھی کبھی بھی انسانیت کے مقام سے گر سکتا ھے۔ یہ چند مثالیں ھیں لیکن اسطرح کے کئی صدمے مجھے تنگ کرتے ھی رھتے ھیں اور اب میں ان کا عادی ھو چکا ھوں۔

صرف چند دن پہلے سات سال کا چھوٹا بچہ بھول نہیں پا رھا، جو اپنے آپ کو اور اپنی ماں کو اپنے باپ کی مار سے بچانے کیلئے دعا کرواتا پھر رھا تھا۔ میں نے اسے کچھ پیسے دے کر اس کو بہلانا چاھا لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا اور دعا پر اصرار کیا۔ حالات چھوٹے سے بچے کو بھی وقت سے پہلے بڑا کر دیتے ھیں، سنا تھا دیکھ بھی لیا۔ ان چھوٹے سے نابالغ بچوں کا، ان کے ماں باپ کا اور سب کا ایک ھی مالک ھے، ھمارا رب جل جلالہ اور نابالغ بچوں کو ان کے مالک جل جلالہ کی طرف سے چھوٹ ھے، کوئی گناہ بھی کر لیں تو نابالغ بچوں کا گناہ لکھا ھی نہیں جاتا اور اگر یہ مر جائیں تو سیدھا جنت میں اور جو پیدا ھوتے ھی مر جاتے ھیں، وہ بچے تو اپنے والدین کو جنت میں لے کر جائیں گے۔

لیکن جن کو یہ بچے امانتا ً دئے گئے ھیں وہ لوگ، جی ھاں، جنہوں نے پاکستان بنایا تھا ان کے اور ھمارے درمیان کے لوگ جانے کیا سمجھ بیٹھے ھیں۔ پاکستان بنانے والوں نے ۵۰ لاکھ جانوں کی قربانی دے کر، ڈھائی لاکھ نوجوان مسلم لڑکیوں کے اغوا کا ھولناک غم برداشت کر کے اسی نسل کو ایک نظریے کے تحت پاکستان بنا کر دیا تھا اور ان لوگوں کو پاکستان صرف سنبھالنا تھا۔ جو ورثہ انھیں ملا تھا، اس ورثے کی حفاظت کرنی تھی، لیکن ان لوگوں نے نظریہ پاکستان کو کتابوں میں بند کر کے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دئے۔ یہ ملک لٹتا رھا لیکن یہ چین سے گھر میں سوتے رھے اور معاشرے میں انڈین فلموں کی تبلیغ میں مصروف رھے۔ ھم سے کم وسائل والی اور پاکستان کی مثالیں دینے والے پسماندہ قومیں ھم سے بہت آگے چلی گئیں لیکن یہ نسل پاکستان کے ھر مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر قربان کر کر کے سب کچھ برباد کرتی رھی۔ اس نسل سے بات کرو تو یہ انگریزوں کے گن گاتی ھے۔ پورے ملک کو غیر ملکی فلموں، فحاشی اور عریانی کے سیلاب میں ان ھی لوگوں نے مبتلا کیا ھے ۔ انھیں لوگوں کی لاپروائیوں کے سبب آج ملک پاکستان شدید خطرات سے دوچار ھے۔ یہ وہ لوگ ھیں جو ملک دشمنوں کی ھر سازش کے سامنے جھک گئے، برائی کے ھر سیلاب میں بہہ کر اپنی عیاشیوں میں مگن رھے۔ لیکن پھول جیسے بچوں کیلئے ایک جلاد کا کردار ادا کرتے ھیں۔ آج ھماری نئی نسل کو اپنا سفر وھاں سے شروع کرنا ھے جہاں جناح صاحب اور ان کے رفقاء چھوڑ کر گئے تھے اور اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ھے کہ پاکستان بچانے کیلئے، جناح صاحب کے دئے گئے انقلاب کو برپا رکھنے کیلئے ھمیں اپنےبچوں کی تربیت پر پوری توجہ دینی ھو گی، یہ کل کا پاکستان ھے۔ ھمیں اس درمیانی نسل کے ان لوگوں کی اس ظالمانہ روش سے جان چھڑانی ھو گی۔ خوف، سہم میں مبتلا مار کھاتے بچے جب بڑے ھوتے ھیں تو ان کی تمام صلاحیتیں اپنے آپ کو سنبھالنے ھی میں صرف ھو جاتی ھیں۔ یہ ملک کی خدمت کرنے کی بجائے اپنی بھی کوئی خدمت نہیں کر پاتے۔ یہ ایک پہلو ھے لیکن نہایت ھی توجہ طلب۔ اب ھمیں کسی انقلاب کا انتظار کرنے کی بجائے سارے کام خود ھی کرنے ھیں۔ آئیے ھم سارے اس عہد کی تجدید کریں، کہ اللہ کریم جل جلالہ کی رضا کیلئے پیارے محبوب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں سے پیار اور بچوں پر شفقت کی سنت پر تمام زندگی عمل کریں گے، ان کے حقوق پر اپنی اپنی بساط کے مطابق پہرا دیں گے۔ کہیں بھی ان سے حق تلفی ھو گی تو ھر ممکن طریقے سے اس حق تلفی کو روک دیں گے تا کہ پھر کسی بچی کو کسی ظالم ماں کے ظلم کا شکار ھو کر سردی کے موسم میں بھوکا پیاسا بغیر کپڑوں کے مرنا نہ پڑے اور اس دنیا کو اپنی برکتوں سے محروم نہ کرنا پڑے،(بچی رحمت ھوتی ھے)پھر کسی بچی کو ماں کے پیٹ کے اندر ھی اپنے لڑکا نہ ھونے کا جرمانہ نہ ادا کرنا پڑے، کسی بچے کو اپنی ماں کے ہاتھوں گلا گھٹ کر مرنا نہ پڑے ، کسی سات سال کے بچے کو اپنے ظالم باپ کی مار سے بچنے کیلئے دعاؤں کی بھیک نہ مانگنی پڑے،ان نابالغ بچوں کو ان کے پیدا کرنے والے رب جل جلالہ کی طرف سے چھوٹ ھے،ھمارے گناہ لکھے جاتے ھیں لیکن ان نابالغ بچوں کے تو گناہ بھی نہیں لکھے جاتے،لیکن ھمارے معاشرے کے جلاد صفت افراد ان کی چھوٹی سی غلطی کے عوض بھی ان پر اپنا قہر برسا دیتے ھیں۔ آئیے ان بچوں کو ان کے اور سب کے مالک پیارے اللہ تعالیٰ جل جلالہ سے حاصل رعایت اور آزادی کو مل جل کر اپنے معاشرے میں نافذ کر دیں اور نابالغ بچوں کے ساتھ ھونے والے ظلم کو ھر ممکن طریقے سے روک دیں۔
 
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117116 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More