اپریل فول

ہر سال یکم اپریل کو اپریل فول منایا جاتا ہے۔بعض اوقات اسے All Fool's day بھی کہا جا تا ہے۔اس کی ابتدا کے بارے میں مختلف کہا نیاں ملتی ہیں۔کہانی کوئی بھی ہو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کیا ہم سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنا اچھی عادت ہے؟
کیا ہم پسند کرتے ہیں کہ کوئی ہم سے جھوٹ بولے؟
کیا ہم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کا مذاق اڑایا جائے؟

یقیناً ہم جھوٹ کو اچھا نہیں سمجھتے،نہ ہی کسی کا مذاق اڑانا ہمارے نزدیک کوئی پسندیدہ حرکت ہے اور نہ ہی ہم خود اپنے لیے ایسا چاہتے ہیں تو پھر اپریل فول کیسے منا سکتے ہیں جو جھوٹ بول کر دوسروں کو بیوقوف بنانے اور ان کا مذاق اڑانے کا دن ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ،ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ کوئی عورت کسی عورت کا مذاق اڑائے ،ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی ایک دوسرے پر الزا م لگا یا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے پر برے نام چسپاں کیا کرو ،ایمان کے بعد فسق کا نام بہت ہی برا ہے اور جو توبہ نہ کریں گے تو یہی لوگ ظالم ہیں۔“(الحجرات:11)

چنانچہ ۰ نہ مذاق بنایئے اور نہ مذاق کا نشانہ بنیے ۔
۰ نہ جھوٹ بولیے اور نہ کسی کے جھوٹ میں شامل ہوئیے۔
۰ اپنے اخلاق و عمل کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لائیے تاکہ وہ جان سکیں کہ آپ کتنے شاندار دین کے نمائندہ ہیں۔
۰ اپنے ایمان اور عمل سے سچے مسلمان ہونے کا اظہار کیجئے تاکہ قومیں آپ کے اطوار اختیار کریں نہ کہ آپ ان کے رنگ میں رنگ جائیں۔ اپنے دین کا رنگ اختیار کیجیے اور دوسری اقوام کے رنگ اختیار کرنے سے بچیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنھُم (صحیح بخاری)
”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔“
۰ سب سے بڑھ کر اپنے رب کا تقوٰی اختیار کیجیے اور اس کی رضا کی خاطر ہر وہ کام چھوڑ دیجیے جس میں کسی طرح کا بھی جھوٹ شامل ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ المُتَّقِینَ فِی جَنّٰتٍ وَّ نَہَرٍo فِیمَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیکٍ مُّقتَدِ رٍo (القمر:55.54)
”بے شک متقی لوگ باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ سچائی کی مجلس میں،قدرتوں والے بادشاہ کے پاس۔“

کسی کو فول بنانا ایک قبیح حرکت ہوتی ہے۔ جھوٹ بولے بغیر کسی کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا اور ایک مسلمان کو جھوٹ نہیں زیب دیتا۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :
” رسول اللہﷺ کے نزدیک کوئی عاد ت جھوٹ سے زیادہ بڑھ کر نفرت اور بغض والی نہ تھی۔آپ صحابہ میں سے کسی کے بارے میں اس کی خبر پاتے تو آپ کا رویہ ان کے بارے میں بدل جاتا حتیٰ کہ معلوم ہو جاتا کہ انہوں نے توبہ کر لی ہے۔“ ( سلسلة الصحیحة)

یاد رہے ! مسلمان وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ جب ہم اپنے لیے جھوٹ اور مذاق پسند نہیں کرتے تو پھر کسی دوسرے کے لیے کیسے کر سکتے ہیں؟

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
”ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے ، اس کے لیے ہلاکت ہے ، اس کے لیے ہلاکت ہے۔“ (سنن ابوداؤد ۔ جامع ترمذی)

سوچیے ! جھوٹ بولنے، مذاق اڑا نے ،بیوقوف بنانے کے نتیجے میں جو دکھ یاتکلیف ہم اپنے بھائی، ساتھی، دوست یا ہمسائے کو پہنچا تے ہیں کیا اس سے ہمیں سچی خوشی مل سکتی ہے؟ نہیں، تو پھر اپنی عارضی اور وقتی خوشی کے لیے کیا ہم دوسروں کو غم دیں؟ کیا ہم اللہ کی نافرمانی کریں؟کیا ہم اپنی من مانی کریں؟ کیا ہم نفس کی اس بےکار لذت سے اللہ کی پناہ نہیں مانگ سکتے ؟

تفریح ہی کرنی ہے تو اس کے لیے اس سے بہتر بہت سے ذرائع ہیں۔ وہ تفریح جس میں کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اس ارزاں لطف اندوزی کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ ہر سال اس دن کئی ایسے کیس رپورٹ کیے جاتے ہیں جن میں فون کالز یا پیغامات کے ذریعے لوگوں کو ایسے حادثوں کی اطلاع دی جاتی ہے جو حقیقتا پیش نہیں آئے ہوتے۔ نتیجے میں بہت سے افراد پریشانی ،افراتفر ی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بعض اوقات ایسے جھوٹ لوگوں کی جانیں لینے کا سبب بن جاتے ہیں۔

کیا ہمارے نوجوان غلط بیانی کر کے سنسنی پھیلانے،جھوٹ بول کر دوسروں کا تماشا دیکھنے جیسے سطحی انداز ِتفریح سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟اگر ہاں تو عہد کیجیے کہ ہم ایک مختلف قوم بن کر دکھائیں گے۔ہم اپنی سوچ کو دوسروں کی سوچ کا غلام نہ بننے دیں گے۔ ہم اپنے مزاجوں اور تر جیحات کو اس قالب میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے جو ہمارا دین، ہمارا پیارا مذہب ہم سے چاہتا ہے۔

اسلام بہت خوبصورت دین ہے۔اس کا اپنا ہی الگ مزاج ہے۔ وہ جھوٹ ،غلو اور منافرت سے پاک دین ہے ۔وہ اپنے ماننے والوں کو دوسروں کا مذاق اڑانے،ان پر ہنسنے اور کسی کے ساتھ مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے روکتا ہے تاکہ اللہ کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری کے حوالے سے وہ دنیا بھر کے معاشروں میں قابل اعتبار اور با وقار ہوں ۔

وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل ہو کر بلندیوں پر فائز رہیں۔وہ کھرے،مخلص اور سچے لوگ ہوں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ کا پیغام پہلی مرتبہ اعلانیہ پہنچا نے سے قبل اہل مکہ سے اپنی سیرت کے بارے میں دریافت کیا تھا تاکہ اس گواہی کے ساتھ ان کے لیے اسلام قبول کرنا معتبر اور سہل ہو جائے۔ حالانکہ آپ ان کے درمیان ایک عرصے سے اپنے کردار کی تمام خوبیوں اور انہی کے دیے ہوئے صادق و امین کے لقب سمیت رہ رہے تھے ۔

جہاں تک مزاح کا تعلق ہے جو زندگی کو خوشگوار بناتا ہے اور کسی افسردہ یا تھکے ہوئے انسان کو خوشی پہنچانے کا باعث بنتا ہے اس کی اجازت اسلام نے دی ہے۔

اس کی بہت سی مثالیں نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے ملتی ہیں ۔

آپ ایسا لطیف اور خوشگوار سا مزاح فرماتے جو دو طرفہ ہوتا اور مد مقابل یا مخاطب آزردہ خاطر ہونے کی بجائے لطف اندوز ہوتا۔بسا اوقات اس وقت موجود دوسرے اصحاب بھی اس پر کیف ماحول سے مسرور ہوتے۔ لہٰذا موقع کی مناسبت سے اور ضرورت کے تحت ہلکا پھلکا مزاح کیا جا سکتا ہے ۔ جس کا مقصد کسی کی دل آزاری یا کسی کو بیوقوف بنانا نہیں بلکہ دوسرے کے دل کو خوش کرنا ہو ۔اس کے لیے کوئی خاص دن مقرر کرنا ضر وری نہیں ہوتا کہ جس میں مصنوعی طور پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے دوسروں کو مذاق کا نشانہ بنایا جا ئے اور پھر اس کی پریشانی پر خوشی منائی جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کسی کی بھی دل آزاری سے محفوظ فرمائے۔آمین
Zubaida Aziz
About the Author: Zubaida Aziz Read More Articles by Zubaida Aziz: 10 Articles with 14516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.