بھارت مِیں سرکاری دہشت گردی

دنیا مِیں انصاف اور حقوق انسانی کا بڑا چرچا رہتا ہے۔ مگر زمینی حقائق کچھ اسطرح ہیں۔ کہ ریاسَتیں ہی انکی پامالی مِیں سب سے آگے ہیں۔اور یہ پامالی سیاسی مفادات کیلیئے کی جاتی ہے۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے۔ جہاں بیشتر ممبران اسمبلی جرائم پیشہ اور اکثر اخلاقی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انکے میڈیا اور سوشل میڈیا میں ہر روز یہ خبریں موجود ہوتی ہیں۔اور یہ لوگ اخلاقی جرائم کے ارتکاب کے بعدمتاثرہ لڑکی کو معاشرے مِیں رسوا اور بلیک میل کرنے کیلئے اسکی ویڈیو بھی وائرل کرتے ہیں۔ انہیں اس معاملے مِیں ذرا بھی شرم نہیں ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت مِیں سرکار کی آشرواد سے بھیانک جرائم جنم لیتے ہیں۔

گائے کے لیئے انسانوں کا قتل عام روز کا معمول ہے۔ذات پات کے نام پرنیچی ذات کے پچّاسی فیصد لوگوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے۔انکی عورتوں کے ساتھ بھی زیادتی (بلاتکار)روز کا معمول ہے۔ بلاتکاری پر انکو فخر اس لیئے ہے کہ ان کے دیوتا بھی بلاتکاری تھے۔ انکے سسٹم مَیں نیچی ذاتوں کو انسان بھی ماننے کو تیّار نہیں ہیں۔ذاتیں بھی برہمنوں نے خود بنائ ہیں۔ زبردستی خاندانوں کو انکی مَرضی کے خلاف کام پر لگایا اور انکو اسی ذات کا نام دیا۔ جیسے جھاڑو اور ٹوائلٹ کی صفائی کیلئے جنکو لگایا انہیں شودر کا نام دیا۔ جو جانوروں (مرے ہوئے)کا چمڑہ نکالیں گے انکو چمار کہا۔ اسی طرح تیلی، تمولی، کولی(کپڑا بنانے والے) وغیرہ۔ ان سب کو دلت کا نام دیا۔ ان افراد کو چپّل پہننے ، گھوڑے پر سواری کرنے،مونچھ رکھنے، سر پر چھتری لگانے،برہمن کے برابر بیٹھنے، کرسی یا تخت پر بیٹھنے، کسی تالاب یا نل یا مٹکے سے پانی پینے کا ، یا تعلیم حاصل کرنے کاحق چھین لیا ہے۔آجکل جو تھوڑی بہت سہولت ہے وہ ستّر سال پہلے انگریزوں نے دی تِھیں ۔ جو آج بھی برہمنوں کے حلق سے نہیں اتری۔ وہ بھی انکے ایک بڑے لیڈر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے اپنے سماج کی پریشانیوں سے انگریزوں کو آگاہ کیا تو انہوں نے انکو جینے کا حق دیا۔دلت سماج کو آجکل ST,SC,OBC,Moulnevasi,Aadivasi , کہتے ہیں یہ مودی حکو مت ان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔یہ سب دیکھتے ہوئے انہوں نے کَہ دیا ہے کہ یہ ہندو نہیں ہیں۔ بابا صَاحبنے بھی ان برہمنوں کی حرکتوں سے تنگ آکر۔کہا تھا کہ میرا پیدا ہونا تو میرے اختیار مِیں نہیں تھا، مَیں ہندو پیدا ہو گیا۔ لیکن میں ہندو مروں گا نہیں۔ اور انہوں نے ذات پات کی لعنت(اونچی نیچی ذات) سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے بودھ مذہب اختیار کر لیا تھا۔آجکل بابا صاحب امبیڈکر کا پر پوتا راج رتن اپنے سارے سماج کو اس بات کی تبلیغ کر رہا ہے کہ اگربرہمنیّت کہ شر سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو بودھ بن جاؤ۔ بودھ مذہب مِیں سب انسان برابر ہیں۔اور انمیں نہ فرقے ہیں نہ ذاتیں۔ بابا گرو نانک نے بھی برہمنیّت سے نجات کیلئے اپنا راستہ برہمنوں سے الگ کر لیا تھا۔ برہمن اپنے دھرم مَیں کسی کو شامل نہیں کر سکتے مگر دوسروں کو اپنا غلام ہی بناتے ہیں۔ انکے سسٹم کی کتاب ہے منواسمرتی ۔ مِیں نے جو دلت سماج پر پابندیاں بتائی ہیں وہ اس منواسمرتی کے مطابق ہیں۔ مزید یہ کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے۔ اور اسکی کوئی عزّت نہیں ہے۔انگریزوں کے آنے کے بعد تک دلت کو شادی کرنے پر بیوی کو تین دن براہمن کے پاس چھوڑنا پڑ تا تھا۔ انگریزوں نے اس پر اور ستی(بیوی کو مردہ شوہر کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا۔) پر پابندی لگا دی۔ جسکا یہ سماج آجتک شکر گذار ہے۔ آپ برہمن کی چھوا چھوت کا اندازہ کریں کہ دلت کی عورت برہمن کیلئے اچھوت نہیں ہے۔برہمنوں نے دلت کو ہمیشہ اپنا غلام جانا ہے اور کبھی انکی مار پیٹ اور تشدّد سے باز نہیں آیا۔

بھَارت کے حکمران خصوصی طور پر نریندر مودی اور اَمت شا۔نے یہ طے کرلیا ہے کہ یہ بھَارت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے جو بھَارت بچ جائے گا اسے ہندوتوا کیمطابق بنایں گے ۔ کیونکہ اس اکیسویں صدی مِیں یہ احمق ملک کی آدھی آبادی کو پاؤں کی جوتی بنانے چلے ہیں۔ بھلا کون ہو گا جو مانے گا کہ وہ ہندو ہے، ان کے سیانے الزام لگاتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے۔ احمقوں نے آجتک نہیں جانا کہ جو عزّت اور غیرت کا احساس رکھتے تھے۔ ہندو مت چھوڑ کر مسلمان ہو گئے۔ کچھ عِیسائی،اور سکھ بھی ہو گئے۔ آپ دیکھیے کہ آسام میں انیس لاکھ افراد کے شہریت چھین کرانہیں بےگھر کر دیا۔ کشمیر پر کس بے رحمی سے قبضہ کرلیا ہے۔ اور ابھی اور بھی نشانے ہیں جن پر یہ حملہ آور ہو گا۔

یہ مجرموں کا ٹولہ ہے۔ جس نے دہشت گردی مچا رکھّی ہے۔ اور اس کو ہر ٹوپی اور ڈاڑھی والا دہشتگرد نظر آتا ہے۔ آپ انکے میڈیا کو دیکھیے اینکر کا جو ذلّت آمیز رویہ مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے صاف نظر آتا ہے۔جھوٹ انکا طرّئہ امتیاز ہے۔کہتے ہیں کہ مودی کے ڈر سے پاکستان نے ابھی نندن پائلٹ کو واپس کر دیا۔ اگر یہ انسان ہوتے تو انسانیت کو سمجھتے۔یہ بلاتکاری غنڈے اللہ کے عذاب کے منتظر ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب یہ ہتھکڑیوں اور بیڑیوں مِیں جکڑ کر لائے جائیں گے۔اللہ انکو ایٹمی ہتھیار سےماردیگا تو یہ ذلّت کیسے پائیں گے۔جو انشاللہ انکا مقدّر ہے۔
 

Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madani: 58 Articles with 50337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.