کراچی کی سڑکوں پر کہرام مچاہواہے حواس باختہ لوگوں کی
تعداد اتنی ہے کہ شمار ممکن نہیں اصفہانی روڈ،نارتھ ناظم آباد، آج کا ایم
اے جناح روڈ،کورنگی ،جیل روڈ، صدر ،ملیر،کھارادر، آئی آئی چندری روڈ، الغرض
ہرسڑک پر ایک جیسا منظر۔۔لوگوں کا اژدہام،ہرمحلے میں ہجوم سب کے چہرے
افسردہ،حسرت و یاس میں ڈوبے،لب خاموش ،سینوں میں جیسے طوفان مچل رہا ہو،
ہرگھرسے سسکیاں اور رونے کی آوازیں، چہرہ چہرہ سوالی اور دل مضطرب۔کچھ کونے
کھدروں میں بیٹھے رورہے تھے،کچھ ایک دوسرے کے گلے مل کر پرسہ دیتے اور پھر
آگے بڑھ کر ہجوم میں گم ہوجاتے شہرکے ایک کونے سے دوسرے کونے تک یہی حال
تھا۔۔ اتنے میں ایک ستر80سالہ بوڑھا اپنے گھر سے کوئی چیز خریدنے نکلا گلی
کے باہر لوگوں کا ٹھٹھ دیکھ کر پریشان ہوگیا سوچنے لگا شاید کوئی حادثہ
ہوگیاہے وہ تجسس کے مارے کچھ آگے بڑھا وہاں سڑک پرگلی سے بھی زیادہ رش تھا
بوڑھے نے راہ چلتے ایک نوجوان کو آوازدی مگروہ نہیں رکا شاید جلدی میں تھا
وہ چلتا چلتا چوک میں پہنچ گیا گلی سے سڑک اورچوک تک ایک جیسا ماحول ایک
جیسا عالم وہ دل ہی دل میں بڑبڑانے لگا نہ جانے اس شہر میں کیا افتاد آپڑی
ہے کہ ہر شخص پریشان پریشان ہے۔ بوڑھا آہستہ آہستہ چلتا آٹھ دس افرادکی
ٹولی کے پاس جا کھڑا ہوا اس نے ایک شخص سے پوچھ ہی لیا ۔۔کیا بات ہے آج
شہروالوں کو کیا ہوگیاہے؟
ایک لڑکے نے سراپا سوال بن کرکہا’’ بابا آپ نہیں جانتے؟ بوڑھے نے نفی میں
سرہلادیا۔لڑکے کی آنکھیں ڈبڈبائیں اس نے دل گرفتہ ہوکر کہا ۔قائد ِ اعظمؒ
وفات پاگئے۔
بوڑھا چیخا۔ کیا بکتے ہو؟ ۔ایک اور شخص نے بوڑھے کے کندھے پر ہاتھ رکھ
کرکہا بزرگو یہ سچ کہہ رہاہے۔ بوڑھے کو جیسے سکتہ ہوگیا وہ خالی خالی نظروں
سے ان سب کو دیکھنے لگا پھر چند لمحوں بعدجیسے اسے ہوش آگیاہو وہ زمین پر
گرنے کے اندازمیں بیٹھ گیا بوڑھا پھوٹ پھوٹ کررونے لگا پھر اپنے سینے پر
دوہتڑ مارکر چیخا ہائے لوگو میں یتیم ہوگیا کچھ بوڑھے کو پرسہ دینے لگے کچھ
ایک دوسرے کے گلے لگ کررونے لگ گئے ۔کراچی پرہی موقوف نہیں 11ستمبر1948 ء
کو پاکستان کے طول وعرض میں ہر شہر ہر گاؤں میں ایسے ہی مناظر بکثرت دئیے
اس لئے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پاکستانی عوام کو اپنے قائد۔قائدِ
اعظمؒ محمدعلی جناح سے شدید محبت تھی اتنی محبت ۔اتنی عقیدت۔اتنی چاہت شاید
کسی اور مسلمان رہنما کے حصہ میں نہیں آئی ان کی شخصیت کا یہ پہلو بھی حیرت
انگیزہے کہ عام پاکستانی آج بھی قائدِ اعظمؒ کے خلاف کسی قسم کی ہرزہ سرائی
برداشت نہیں کرتا۔۔قائدِ اعظمؒ محمدعلی جناح نے اپنی علالت کو ہمیشہ عوام
سے مخفی رکھا یہ بھی کہا جاتاہے کہ اگر انگریز سرکارکو ان کی بیماری بارے
معلوم ہو جاتا تو شاید پاکستان کبھی دنیا کے نقشہ پر نمودار ہی نہ
ہوتا۔بانی ٔ پاکستان نے72سال کی عمر میں وفات پائی1934میں ان پر پہلی بار
ٹی بی کا حملہ ہوا اس زمانے میںTBانتہائی موذی مرض سمجھا جاتا تھا لیکن
قائدِ اعظمؒ نے کسی کو کانوں کان خبرنہ ہونے دی اور اپنے ذاتی معالج
ڈاکٹرکرنل الہی بخش کو سختی سے منع کیا ہواتھا۔ جب قائدِ اعظمؒ محمدعلی
جناح یکم جولائی 1948 ء کو کراچی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے
کیلئے تشریف لے گئے اس وقت وہ انتہائی نحیف،لاغر اوردبلے دکھائی دے رہے تھے
شنیدہے کہ اس موقعہ پر وہ دو مرتبہ لڑکھراگئے لیکن حیرت انگیز طور پر انہوں
نے اپنی اس کیفیت پر قابو پالیا لیکن جسمانی طورپر آپ دن بہ دن کمزور
ہوجارہے تھے نئی حکومت کی ذمہ داریاں،سرکاری مصروفیات اور وسائل کی کمی نے
بھی قائد ِاعظمؒ کی صحت پرگہرے اثرات مرتب کئے تھے لہذا انہیں کسی صحت افرا
ء مقام پر جانے کا مشورہ دیا گیا قرعہ ٔ فال دوسری مرتبہ بھی کوئٹہ ہی نکلا
آپ اس سے پہلے 25 مئی کوآرام کی غرض سے کوئٹہ دوہفتے رہ چکے تھے7جولائی کو
آپ دوسری بارکوئٹہ تشریف لائے بیماری کے باعث پھر انہیں کوئٹہ سے زیارت
منتقل کردیا گیا زیارت کوئٹہ کی نسبتاً زیادہ سرد اور پر فضا علاقہ ہے لیکن
بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے اکسیجن کی کمی نے ان کی صحت کو زیادہ
متاثرکیا قائد ِ اعظمؒ کی صحت دن بہ دن بگڑتی جارہی تھی ان کے بلڈ پریشر
میں خاصی کمی آگئی تھی پاؤں میں ورم آنے کے باعث ان سے کھڑا ہونا بھی مشکل
ہوجاتا اس کے باوجود وہ ایک بلند حوصلہ،جواں ہمت اور مرد آہن تھے
9ستمبر1948 ء کوقائد ِ اعظمؒ کے ذاتی معالج ڈاکٹرکرنل الہی بخش نے محترمہ
فاطمہ ؒجناح سے خصوصی ملاقات کی اورتشویش کااظہارکرتے ہوئے قائد ِ اعظمؒ کی
زندگی بارے مایوسی کا خدشہ ظاہرکردیا کہ بہتری کی گنجائش نہ ہونے کے
برابرہے جس پر محترمہ فاطمہؒ جناح نے دیگرڈاکٹروں کی مشاورت سے اپنے بھائی
کو کراچی لے جانے پر آمادگی کااظہارکردیا زیارت ریذیڈنسی بلوچستان کے
کنٹرولر عبدالحمید کا بیان ہے کہ آخری مرتبہ جب قائد ِ اعظمؒ زیارت سے
کوئٹہ روانہ ہورہے تھے انہیں سٹریچر سے نیچے لایا گیا روانگی کے وقت
انہوں(قائد ِ اعظمؒ)نے حکم دیا کہ سٹریچر سے گاڑی میں منتقل کرتے وقت اس
بات کا سختی سے خیال رکھا جائے کہ انہیں کوئی اس حالت میں نہ دیکھ
پائے۔اورجب قائد ِ اعظمؒ کو کار میں بٹھایا جانے لگا تو مجھے اس انداز سے
بٹھاؤ کہ میں عوام اور عوام مجھے دیکھ سکیں آپ نے کا رسے روانہ ہوتے وقت
ہاتھ لہرا لہرا کر سڑک کی دونوں جانب موجود لوگوں کو خداحافظ
کہا۔۔۔11ستمبرکو آپ کا طیارہ4:14پرماری پورائیرپورٹ پر لینڈ کرگیا قائد ِ
اعظمؒ کی کوئٹہ سے کراچی آمد کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا آپ کو ایک ایمبو
لینس کے ذریعے گورنرجنرل ہاؤس لایا گیا لیکن بدقسمتی سے ان کی ایمبولینس
راستے میں ہی خراب ہوگئی یوں بانی ٔ پاکستان کئی گھنٹے رات کے سناٹے میں بے
یارومددگار گاڑی میں ہی پڑے رہے بھائی کی حالت دیکھ کر بہن آبدیدہ ہوگئی
قائد ِ اعظمؒ پرمسلسل نقاہت طاری ہورہی تھی ۔ گورنرجنرل ہاؤس منتقل ہونے کے
بعدقائد ِ اعظمؒ رات 9بجے ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔۔ ان پر بے ہوشی طاری
ہوگئی ان کی نبض ڈوبنے لگی ڈاکٹروں کے بورڈ نے صلاح مشورہ کیا تفصیلی چیک
اپ کے بعد انہیں انجکشن لگایا گیا رات دس بج کر25منٹ پر جیسے دیا زور سے
ٹمٹمایا ہو قائد ِ اعظمؒ کی روح قفس ِ عنصری سے پروازکرگئی ۔عالم ِ اسلام
میں ایک کہرام مچ گیا۔۔پاکستان کے گلی کوچوں میں لوگ ایک دوسرے کو گلے
لگاکر رونے لگے۔بابا قائد ِ اعظمؒ اپنے خالق ِ حقیقی کے پاس چلا گیا قوم
یتیم ہوگئی۔پاکستان یتیم ہوگیا۔پاکستانی یتیم ہوگئے ان کے بعد آنے والے کسی
لیڈرنے بانی ٔ پاکستان کے نقشِ قدم پر چلنا گوارانہ کیا خودغرضی،لالچ
،مفادات اور اقتدارکی ہوس نے ملک کو دوٹکڑے
کردیاسیاستدانوں،دڈیروں،افسرشاہی نے پاکستان کو کمائی کا ذریعہ
بنالیامعمولی معمولی لوگ کروڑوں،اربوں کھربوں کے مالک بن گئے غربت عام
پاکستانی کا مقدر بنتی چلی گئی قائد ِ اعظمؒ کی رحلت کے بعد عام پاکستانی
اور پاکستان آج تک یتیم چلا آرہاہے اور کوئی اس یتیم کے سر پرہاتھ رکھنے کو
روادارنہیں۔
|