بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
انسان کے بس میں کیا ہے؟!
کتنی ہمت ہے اور حالات کتنا ساتھ دیتے ہیں؟!
مصلحتیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں؟
انسان کی قلبی وسعت کتنی ہے ؟! وغیرہ وغیرہ
ایمرجنسی کی صورتحال DECLARE کرنے والے کسی فرد، گروہ یا قوم کو اجتماعی یا
فردی صورت میں جانبازاعمال کی تلقین و نصیحت کرتے ہیں۔
اس نصیحت پر اکثر و بیشتر توجہ کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی۔
سمندر کی گہرائی کا اندازہ اُس میں اترنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے، ساحل پر
کھڑے کھڑے کوئی طغیانی میں ڈوب جانے یا بچ جانے کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔
مگر یہ کہ تجربہ کار۔۔۔۔۔
پہاڑ پر چڑھنا ممکن ہے یا نہیں ! یہ اُسی وقت درک کیا جاسکتا ہے جب تک کوہ
نوردی کا تجربہ نہ کیا جائے۔
ہمارے اکثر مشکل معاملات میں گھبرا جانا اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم اپنی ہمت
اور حوصلہ کو تجربہ نہیں کرتے اور حدود عافیت سے باہر نہیں آنا چاہتے۔
ہمیں کسی بھی عمل کی مشکل یا آسانی کا معیار طے کرنے کیلئے کم از کم تین سے
چار دفعہ ضرور تجربہ کرنا چاہیے۔ تکراری تجربہ کے زمان و مکان اور مجرب ہر
دفعہ خواہ ایک ہوں یا مختلف۔۔۔
انسانی نفسیات بلکہ نہ صرف انسانی بلکہ تمام موجودات کی نفسیات اور وجود
ایک چیز جسے ہم "عادت" کہتے ہیں بہت زیادہ آشنا ہوتا ہے۔ ہم عادتیں نئی نئی
بناتے بھی ہیں اور چھوڑتے بھی ہیں۔
بعض افراد کی نفسیات اصول بنانے والی(TREND SETTER) کی ہوتی ہے جبکہ بعض
اصولوں کی پیروی (TREND FOLLOWER) کی سی ہوتی ہے۔
اصول بنانے والے نت نئی چیزوں اور اعمال کے تجربے کرتے رہتے ہیں جبکہ اصول
فالو کرنے بھی صرف فالو نہیں کررہے ہوتے بلکہ اپنی یاداشت اور تجربے میں
موجود حقیقتوں کی بنیاد پر ہی ان اصولوں کی سچائی کو پرکھ کر قبول یا رد
کررہے ہوتےہیں۔ اصول بنانے والے اعلیٰ دماغ جب ظاہر ہوجائیں اور سچائی کے
ساتھ وابستہ ہوں تو ان کی اطاعت میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔
کسی بھی عمل کی حد و سرحد اور اپنی ہمت و طاقت کو ناپنے کا صرف ایک ہی
وسیلہ ہے اور وہ یہ کہ اپنی ہمتوں اور قوتوں کو کم از کم تین سے چار دفعہ
اپنی آخری انتہا تک تجربہ کرنا چاہیے۔
استعداد و ہمت کی انتہا (EXTREME POTENTIAL) کو ناپنے کا اس کے علاوہ کوئی
آلہ ووسیلہ نہیں کیونکہ ہر انسان کے حالات و امکانات مختلف ہوتے ہیں لہذا
کسی دوسرے کے تجربہ کو ہردفعہ کسی دوسرے کیلئے قیاس کرنا اور دوسرے پر
منطبق کرنا درست نہیں ہوتا۔ فلاں نے ایسے کرلیا تھا، فلاں تو یوں کرسکتا ہے
وغیرہ وغیرہ
نئے اصول ابتداء میں سخت لگتے ہیں مگر وقت گذرنے کے ساتھ سہل ہوجاتے ہیں
اور "عادت" بن جاتے ہیں لہذا حدودِ عافیت (COMFORT ZONE) کو وقت کے ساتھ
ساتھ وسعت دیتے رہنا چاہیے۔ ممکن تو یہ ہے کہ پرانی مثالوں سے آگے جایا
جائے اور انسان پرانے اصولوں اور تجربوں کو نئے انداز میں نئے طریق سے
انجام دے اور تجربہ کرے۔ پرانا اصول فائدہ نہیں دے رہا تو کیوں نہیں دے رہا
لہذا نئے وسائل اور نئی امنگ کے ساتھ نیا تجربہ کریں اور نئے اصول تخلیق
کریں۔
کائنات میں کچھ اصول مستقل یعنی غیر متغیر تبدیل نہ ہونے والے ہوتےہیں اور
کچھ اصول غیر متغیر ہوتے ہیں۔ یہاں فطرت کا کوئی جبر نہیں ہوتا بلکہ انسان
مکمل مختار ہوتا ہے کہ اپنی زندگی کو جہنم میں جھونک دے یا ہمت و حوصلہ سے
مشکلات پریشانیوں اور گناہوں کے اثرات سے نکل جائے۔
یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ہم اُس وقت تک یہ نہیں جانچ سکتے کہ ہم کیا
کرسکتے ہیں اور کیا نہیں، کیا ہمارے بس میں ہے اور کیا نہیں جب تک ہم اپنی
حدود عافیت سے نکل کر اپنی ہمتوں کو آخری انتہا تک تجربہ نہ کرلیں۔
پروردگار عالم سے دعا ہے کہ ہماری مشکلات و پریشانیوں اور آزمائشوں میں
ہماری کمر ہمت و قوت کو مضبوط بنادے اور ہمیں اسلام پر عمل کرنے کے توفیقات
میں اضافہ فرمائے۔ ہمارے مولا و آقا حضرت امام ِ زمانہ (عج) کی نصرت کیلئے
ہمیں اُس زندگی سے آشنا فرما دے جس کی ہمیں اپنے مولا کے ساتھ ضرورت ہو۔
آمین یا رب العالمین
|