ایک مرتبہ مولا امیرِ کائنات علیؑ سے سوال کیا گیا کہ اگر
کسی انسان کی قیمت طے کی جائے تو اس کا معیار کیا ہوگا، آپؑ نے بڑا مختصر
سا جواب دیا اس شخص کی احساسِ ذمہ داری۔احساسِ ذمہ داری ایک بہت بڑا فریضہ
ہے، انسان قول و فعل میں، معاشرتی تعلقات میں، مالی وسائل کے استعمال میں
جب تک احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتا ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے۔ بولنا
تو خداوندِ پروردگار نے تمام بنی نوع انسان کو سکھایا ہے، فرق صرف اتنا ہے
کم ظرف آدمی کی زبان بولتی ہے اور با ظرف اشخاص کے دماغ ۔بزرگ کہا کرتے
تھےکسی بھی معاشرے کی اخلاقی پستی کا معیار جانچنے کے لئے ، چند دن کی خاطر
معاشرے کا اختیار چند بد تمیز لاگوں کے حوالے کردو معیار آپ کے سامنے واضح
ہو جائے گا۔ بد قسمتی سے آج میرا پیارا ملک پاکستان بھی اسی طرح کے حالات
سے گزر رہا ہے، لیکن اچھا ہے کہ آخر ہم72 بہتر سال سے اپنی معاشرتی پستی کا
جو معیار نہیں جانچ پائے تھے اس سے آشنا ہو پائیں گے، اس امید کے ساتھ کہ
ہماری آنے والی نسلیں ان غلطیوں سے کچھ سبق حاصل کریں گی۔ جو قومیں اپنی
غلطیوں سے سیکھ لیتی ہیں وہ ترقی پاتی ہیں، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور
جاپان کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ بار بار اپنی غلطی کو نیا نام دے کر
دہرانے سے سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اس کی مثال طالبان، داعش
آپ کے سامنے ہیں اگر امریکہ ویت نام سے کچھ سیکھ لیتا تو یہ خواج کبھی جنم
نہ لیتے۔ میرے محترم وزیر اعظم اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی وطنِ عزیز کے مفاد
میں احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کی علیحدگی، افغان
سویت وار،کارگل میں پاک فوج کے جوانوں کی قربانیوں سے کچھ سیکھنا چاہیئے اس
سے پہلے کے چڑیاں چگ جائیں کھیت اور ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں۔ ہر ادارے کی
بنیادی ذمہ داری وطنِ عزیز کے وسیع تر مفاد میں کام کرنا ہے نہ کہ اپنے
مفادات کا تحفظ، ہم دوسروں کے گھر گندے ہونے کے طعنے تب دے سکتے ہیں جب
ہمارا اپنا گھر صاف ہو اور ان کی صفائی بھی تبھی ممکن ہے۔ ہمارے ادارے
برائے فروخت نہیں ہیں خدارا اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور حالات کی
سنگینی کا اندازہ کریں، احتساب صرف مخالفین کا نہیں ہونا چاہئے اپنی صفوں
میں چھپے ہیرے بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ کرپشن کرپشن کی پھکی اس
عوام کا پیٹ زیادہ ریر تک بھر نہیں سکے گی، اور مزید بیچنے کے لئے آپ کے
پاس کچھ تھا ہی نہیں یاد رکھیں دنیا مکافاتِ عمل ہے آج میری تو کل تیری
باری ہے ، باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
پاکستان پائندہ باد!
|