مشرکینِ ہندوستان سرگرمِ عمل ہیں... ان کی اسلام مخالف
سرگرمیاں انگریز کے دور میں بھی جاری تھیں... انگریز نے مملکت مسلمانوں سے
چھینی... اس لئے انگریز نے مشرکین کا ساتھ دیا...مسلمان! دونوں کے مشترک
دُشمن تھے... ملک کی آزادی کی تحریک ١٨٥٧ء میں علمائے حق نے شروع کی...
مشرکین نے انگریز کا ساتھ دیا.. جس کا تذکرہ "الثورۃ الہندیۃ" میں قائد
تحریکِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی نے برملا فرمایا...
*مشرکین کے سائے میں:* پھر آزادی کی جدوجہد آگے بڑھی... بعض مولویوں نے
دینی غیرت کو مشرکین پر قربان کر دیا... حاملینِ شرک کو پیشوا بنا لیا...خود
پیچھے پیچھے چل پڑے... اقبال نے مشاہدہ کی بنیاد پر نشان دہی کی تھی....
عجم ہنوز نداند رموز ديں، ورنہ
ز ديوبند حسين احمد! ايں چہ بوالعجبی ست
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمد عربی ست
(تفہیم: عجمی لوگ ابھی تک دینِ اسلام کی حقیقت سے آگاہ نہ ہوئے... ورنہ یہ
کیسے امکان کہ دیوبند کے حسین احمد مسلمانوں کو ایسی تلقین کرتے جو سراسر
روحِ اسلام کے خلاف ہے...جو شخص مسلمان ہو کر یہ کہتا ہے کہ ملتِ اسلامیہ
کی بنیاد وطن ہے... یا مسلمان غیرمسلموں کے ساتھ مل کر متحدہ قومیت بنا
سکتے ہیں... یا مشرک اور مسلم باہم ایک قوم بن سکتے ہیں...وہ سرکار دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بلا شبہ بےخبر ہے...)
انھیں مولوی نما لیڈروں نے رسومِ شرکیہ میں شرکت کی... گاندھی کی قیادت
قبول کی... ذبیحہ سے متعلق شرک کی خوشنودی چاہی... گنگا کو پوِتر مانا...
شعائر اسلام سے منھ موڑا... اعلیٰ حضرت کی کتاب "المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ
الممتحنۃ" پڑھ جائیے... قائدینِ جمعیۃ علما کی شرک نوازی آشکار ہو جائے گی...
*تازہ محرکات:* جمعیۃ علماء مسلم اتحاد کی دوہائی دیتی ہے... مسلمانوں کی
نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے... پھر مشرکین سے ایسا اتحاد کرتی ہے... ایسا
سودا کرتی ہے... جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا... اسی فکر کے حامل مولوی
سلمان ندوی نے بابری مسجد سے متعلق مشرک کاز کی تائید کی... جو مسلم پرسنل
لا بورڈ کا چہرہ ہے... پھر رواداری کے نام پر موحد! مولوی مندروں کی صفائی
کرتے پائے گئے... پھر یک جہتی کے نام پر پنڈتوں کے چرنوں میں نظر آئے...
ہاں یہ امور اسی عہد میں ہو رہے تھے... جب مسلمانوں کو ستایا جا رہا تھا...
جب اسلامی قوانین کو نشانہ بنایا جا رہا تھا... اقتدار کی چھاؤں میں جینے
والے مولوی مسلمانوں میں ریلیاں نکلوا رہے تھے... اور دوسری طرف مشرکین سے
خفیہ ملاقاتیں بھی جاری تھیں... مسلمانوں کو مشرکین کا خوف دلا دلا کر اپنی
تعداد میں ظاہراً اضافہ کیا جا رہا تھا... پھر اسی تعداد کو ان ملت فروش
قائدین اقتدار کے قدموں میں گروی بھی رکھ رہے تھے!!... اسے منافقت نہیں تو
کون سا نام دیا جائے!!
*ابن الوقت:* تین طلاق بل کے ذریعے مسلمانوں کے شرعی معاملات میں مداخلت کی
جا رہی ہے...ذبیحہ پر پابندی... ماب لنچنگ... مسلمانوں کا ہجومی قتل...
تعصب کی وارداتیں... کشمیری مسلمانوں پر قیدو بند... مدت سے کرفیو کا نفاذ...
انسانی حقوق کی پامالی...عصبیت و دہشت کے سائے دراز ہیں... اِن حالات میں
جمعیۃ علما کی قیادت کی آر ایس ایس سربراہ سے ملاقات... کس پہلو کا پتہ
دیتی ہے!!... یہ ماضی کی ٹانڈوی تاریخ سے بخوبی اُجاگر ہے... پھر اس کے معاً
بعد جمعیۃ کی دوسری قیادت بھی سرگرمِ عمل ہوئی...چچا میاں سے دو قدم بڑھ
گئی... حاملینِ شرک سے بغل گیر ہوئی... سلطان ہندوستان اورنگ زیب علیہ
الرحمۃ سے موروثی بغض کا اظہار کیا... شرک سے پرانی دوستی کا رشتہ نبھایا...
شیواجی کو موحد مسلم بادشاہ پر ترجیح دے دی... اپنی ابن الوقتی کا کھلا
مظاہرہ کیا... تہیں چاک ہو رہی ہیں... کفر سے شیر و شکر ہو کر یہ قائدین
کون سا پیغام دے رہے ہیں... ہم لائک کرتے ہیں قائدین اہلسنّت کی استقامت کو...
جن کا ہمیشہ ایک چہرہ رہا... شرک سے بیزار رہے... کبھی سودے بازی نہیں کی...
اب وہ طبقہ جو جمعیۃ علما کے سائے میں جینے کا خواہش مند ہے... وہ اس کا
ذاتی معاملہ ہے... لیکن قریب ایک صدی کے حقائق جن کی شرک نوازی پر واضح ہوں...
ان سے اتحاد کی بات کس منھ سے کی جاتی ہے... انھیں دو رکعت کے اماموں نے
کفر و شرک کو حوصلہ دیا... اب مشرکین کا زور بڑھا تو قوم کو خوف زدہ کیا جا
رہا ہے...یاسیت کے کنویں میں ڈھکیلا جا رہا ہے... اسلامی تاریخ خوشنودیِ
شرک کے لیے مسخ کی جا رہی ہے... مسلمان! چہرے پہچانیں... اپنا مستقبل مشرک
نواز گروہ کے ہاتھ گروی رکھنے سے بچیں...منافقت کی تہیں چاک کر دیں... عزم
و یقیں کے ہزاروں چراغ فصیلِ ایمان پر فروزاں کریں...
***
*تجزیہ:* غلام مصطفٰی رضوی
(نوری مشن مالیگاؤں)
|